بدلتی عالمی صورتحال اور افغان امریکہ مذاکرات

بدھ 25 ستمبر 2019

Hussain Jan

حُسین جان

کتابیں بتاتی ہیں کہ یورپ کے جرائم پیشہ افراد کو ملک بدر کردیا جاتا تھا۔ ان کو بحری جہازوں میں ڈال کر برآعظم امریکہ کی طرف دھکیل دیتے۔ امریکہ کے اپنے شہری جن کو ریڈ انڈین کہا جاتا ہے بہت شریف النفس اور معصوم لوگ تھے۔ مگر جیسے ہی یورپ کے بدمعاش اس خطے میں وارد ہوئے وہاں کے حالات یکسر بدل گئے۔ سب سے پہلے تو ان لوگوں نے ریڈ انڈین کو غلام بنا کر بیچنا شروع کردیا۔

پھر آہستہ آہستہ ان کی زمینوں پر بھی قابض ہوگئے۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ امریکہ کے حقیقی شہریوں کو چھوٹے سے علاقے تک محدود کردیا گیا۔ ان جرائم پیشہ افراد کی دیکھا دیکھی بہت سے دوسرئے ممالک کے بدمعاش بھی اس جگہ پر آنا شروع ہوگئے اور مختلف اقسام کی غیر قانونی سرگرمیاں مزید تیز ہوگئی۔

(جاری ہے)

سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ جتنے لوگ بھی اس خطے میں باہر سے وارد ہوئے وہ سب کے سب سفید فارم تھے۔

اور پھر ایک وقت آیا کہ سیاہ فارم جو کہ اس جگہ کے مالک اور رہائشی ہونے کے ساتھ ساتھ اکثریت میں بھی تھے کو اقلیت میں بدل دیا گیا۔ ہم یوں کہ لیں کہ موجودہ امریکیوں کی اکثریت انہی جرائم پیشہ افراد کی اولادیں ہیں۔ اس کا سب سے بڑاثبوت موجودہ عالمی حالات ہیں۔ امریکہ سپر پاور ہونے کے زم میں پوری دُنیا کا امن خراب کر رہا ہے ۔ من پسند ملکوں کو دیگر ممالک پر اجارا داری قائم کرنے کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔


ایک وقت تھا جب سویت یونین دُنیا کی اکیلی سوپر پاور تھی۔ اور یہ بات امریکیوں کو کبھی ہضم نہیں ہوئی۔ دوسرا سویت یونین نے سب سے بڑی غلطی افغانستان پر حملہ کرکے کی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سب سے بڑی غلطی افغان جہاد میں امریکہ کو شامل کرنا تھا۔ ایک سابق پاکستانی فوجی کی کتاب میں لکھا ہے کہ ہم لوگ افغان جہاد میں صرف مسلمان ہونے کے ناطے شامل ہوئے تھے۔

ہمارے کوئی سیاسی مقاصد نہیں تھے۔ اور امریکہ ویت نام میں بری طرح ناکام ہوکر روس سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔ لہذا ہمارے کچھ حکمرانوں سے غلطی ہوئی کہ انہوں نے افغان جہاد میں امریکہ کو بھی شامل کر لیا اور وہاں سے اسلحہ پہنچنا شروع ہوگیا۔ جب تک روسی فوجیں افغانستان میں موجود رہیں سب مجاہدین ملک کر اس کے خلاف جہاد کرتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جہاد ہی تھا ۔

کیونکہ روس نے اُن کی سرزمین پر حملہ کرکے قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ جب روس کو افغانستان میں شکست ہوگئی تو مجاہدین نے آپس میں لڑنا شروع کردیا ۔ اس کہ بہت سے محرکات تھے۔ کچھ لوگ اپنی حکومت بنانے اور کچھ لوگ افغانستان میں امن کے لیے لڑ رہے تھے۔ کچھ نام نہاد مجاہدین نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اسی لیے طالبان کا ظہور ہوا جنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان میں نا صرف یہ کہ امن و امان قائم کیا بلکہ ملک کو بہتری کی طرف بھی لے کر جانا شروع ہوگئے۔


جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ موجودہ امریکی یورپی جرائم پیشہ افراد کی نسل میں سے ہیں۔ لہذا خون کی لرزش کی وجہ سے یہاں بھی انہوں نے بے وفائی کی اور مجاہدین کو بے جارو مدگار چھوڑ دیا۔ اس کے اثرات برائے راست پاکستان پر پڑئے۔ کروڑوں کی تعداد میں مہاجرین کا بوجھ پاکستانیوں کو اٹھانا پڑا۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال بھی کافی مخدوش ہوگی۔

پھر ہوا نائن الیون جس کے بعد امریکہ نے نام نہاد جنگ چھیڑ دی جس کا نام دہشت گردی خلاف جنگ رکھا گیا۔ بدقسمتی سے ساری دُنیا کے مسلمان دہشت گرد کہلائے۔ اور پھر پاکستانی حکومتوں نے ایک دفعہ پھر امریکہ کی جنگ میں شمولیت کی غلطی کی۔ اس جنگ میں ستر ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ پاکستان آرمی نے اس جنگ کو جیتنے کے لیے بھی بہت سی قربانیاں دیں۔

سچ پوچھیں تو یہ جنگ تاحال چل رہی ہے۔
اب جب امریکہ کو یقین ہو گیا کہ وہ طالبان سے جنگ جیت نہں سکتے تو انہوں نے مذاکرات کا سہارا لیا۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ طالبان ان مذاکرات پر راضی بھی ہوگئے ۔ جب یہ مذاکرات کسی نتیجہ پر پہنچنے لگے امریکہ نے روائتی دوغلی پالیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات ختم کردیے۔
امریکہ افغانستان سے لاکھوں میل دور پیٹھا ہے اور اپنے مختلف پیادے آگے کرتا ہے۔

افغانستان میں بھی وہ انڈیا کو کلیدی کردار دینا چاہتا ہے۔ جس پر پاکستان کبھی بھی راضی نہیں ہوگا ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ انڈیا کا پاکستان دشمن رویہ ہے۔ کبھی وہ پانی بندکردیتاہے۔ کبھی دہشت گردی کا الزام لگا دیتا ہے۔ اور کبھی کشمیریوں پر ظلم کے پاڑ ٹورتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کسی صورت بھی انڈیا کی حمایت نہیں کرسکتا۔ پاکستان نے سینکڑوں دفعہ انڈیا کو مذاکرات کی دعوت دی ہے مگر وہ ہر دفعہ اس سے بھاگ جاتا ہ۔

کشمیر کی موجودہ صورتحال بھی گھمبیر ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود عالمی برادری اس طرف توجہ نہیں دے رہی۔ اگر حالات یہی رہے تو کسی بڑی جنگ کا خدشہ پیدا ہوسکتا ہے۔ جس کا نقصان نا صرف انڈیا اور پاکستان کو ہوگا بلکہ پوری دُنیا اس سے متاثر ہوگی۔
دوسری طرف مسلم ممالک بھی اکٹھے نہیں ہورہے۔ سب کے اپنے اپنے مفاد ہیں اور مفاد نے امہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔

ایران، سعودی،یمن، عراق، کیویت اور شام جیسے ملک کئی سالوں سے آپ میں ہی حالت جنگ میں ہیں۔ ایسی صورتحال میں دشمنوں کا مقابلہ نہیں ہوسکتا ۔ اسی وجہ سے آج مسلمان عالمی سطح پر کافی کمزور ہوچکے ہیں۔ مسلم برادری کے ساتھ ساتھ دوسرئے ممالک کو بھی چاہیے کہ انڈیا اور امریکہ سے بات کریں کہ اس وقت جتنے بھی مسائل ہیں جیسے کہ فلسطین اور کشمیر جیسے ان پر سنجیدگی سے سوچیں اور ان کا بہت حل پیش کریں ۔

اگر حالات بہتر نہیں ہوتے تو پوری دُنیاکو تیسری عالمی جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے امریکہ کو اسر نو جائزہ لینا چاہیے۔ سپر پاور ہونے کے ناطے اپنی زمہ داری پوری کرنی ہوگی۔ کسی ایک فریق کے پلڑئے میں وزن ڈالنے سے بہتری کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :