"طالبان کی فتوحات اور علاقائی سیاست"

ہفتہ 12 جون 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

طالبان کا پچھلے ایک ماہ میں افغانستان کے 19 سے زائد اضلاع پر باقائدہ قابض ہونا اور وہ بھی بنا کسی مزاحمت کے اس بات کی جانب اشارہ کررہا ہے کہ کابل انتظامیہ اپنے زوال کی جانب بہت تیزی سے گامزن ہے۔ ایسے میں جب افغانستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر حمد اللہ محیب کی جانب سے افغانستان کے دفترِ خارجہ میں کھڑے ہوکر پاکستان کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی بھی شخص یا ریاست بے بسی کی صورت میں اسی طرح کی ہی غیر سفارتی اور خلاف مصلحت گفتگو کے ذریعے اپنی بھڑاس نکالتی ہے۔


 بہرحال طالبان کا افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد اقتدار میں آنا اب مبرٌا از شک ہے جس کے لئے اب بتدریج بین الاقوامی حمایت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

(جاری ہے)

طالبان کا افغانستان میں مسلسل فتوحات پر امریکی خاموشی، ترکی کا افغانستان میں اپنی فوجیں ٹھہرانے کا اعلان کرنا اور بھارت کا طالبان کے لئے اپنے رویے میں نرمی لانا اس بات کا ثبوت ہے کہ مستقبل میں طالبان کی حکومت صرف پاکستان، قطر اور سعودی عرب کی تسلیم شدہ حکومت نہیں ہوگی بلکہ اسے بھارت جیسے حریف ممالک سے بھی ریکگنیشن ملنے کا امکان ہے۔


دوسری جانب ترکی کا افغانستان میں اپنی فوجوں کو اسٹیشن کرنے کے پیچھے ترکی کے دو مقاصد ہوسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس کے اتحادی پاکستان کی یہ کوشش ہوگی کہ طالبان کو القاعدہ جیسی تنظیموں سے دور رکھا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے کسی بھی قسم کے عذر کو ختم کیا جائے جو امریکہ کے افغانستان میں دوبارہ فوجیں اتارنے یا حملہ کرنے کی وجہ بنے اور ساتھ ہی طالبان کی حکومت کو داعش سے نمٹنے میں بھی معاونت کی جائے۔

اس کے لئے صرف ترکی کی فوج ہی اہم کردار ادا کرسکتی ہے کیونکہ مغرب اور امریکہ اپنے نیٹو اتحادی کی بات پر زیادہ یقین کریں گے بنسبت پاکستان کے جسے طالبان کا کھلم کھلا حمایتی سمجھا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ بھارت کا تو یہ بھی الزام ہے کہ طالبان کو مالی اور عسکری معاونت پاکستان سے ہی ملتی ہے۔ اس کے علاوہ ترکی کا اپنا سب سے بڑا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ افغانستان میں فوجی موجودگی سے جنوبی ایشیاء میں اس کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوگا جو اس کے اس خواب کی تکمیل میں مددگار ثابت ہوگا جو اس نے 1923 میں خلافتِ عثمانیہ ختم ہونے کے بعد اب دوبارہ سے پین ترکزم اور اوٹومانزم کو فروغ دینے کے لئے اور ایک ابھرتی ہوئی عالمی قوت بننے کے لئے دیکھا ہے۔


بھارت جوکہ اس کھیل میں خود کو شروع سے ہی ایک بڑا کھلاڑی تصور کرتا آرہا ہے اسے طالبان کے اقتدار میں آنے سے سب سے زیادہ نقصان ہوگا اور اس کے افغانستان سے تعلقات مزید خراب ہونگے۔ اگرچہ افغانستان کی موجودہ حکومت مکمل طور پر بھارت کی آلہ کار کے طور پر کام کرہی ہے اور اسے طالبان سے لڑنے میں پشت پناہی بھی کر رہی ہے مگر اب اسے بھی یقین ہوچکا ہے کہ طالبان کا اقتدار میں آنا  یقینی ہے۔

شاید یہی وجہ تھی کہ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدارت کے لئے ہونے والے انتخابات میں بھی اس نے افغانستان کے بجائے مالدیپ کے امیدوار کو ووٹ کیا کیونکہ اسے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ طالبان کی آئندہ حکومت ہر طرح سے پاکستان نواز ہوگی۔ اس کے علاوہ بھارت کی جانب سے طالبان کے لئے جو نرمی اب دکھائی جارہی ہے اس کے پیچھے شاید یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس نقصان کو طالبان سے سفارتی تعلقات قائم کرکے کم کیا سکے جو اس نے لاکھوں ملین ڈالرز کی صورت میں افغانستان میں یہ سوچ کر انویسٹ کیئے تھے کہ طالبان کا خاتمہ ہوجائے گا اور بھارت نواز سسٹم ہمیشہ قائم رہے گا۔


بہرحال، یہ تو طے ہے کہ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے علاقائی سیاست میں نیا موڑ آئے گا اور پاکستان جو اس تمام عمل میں سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر ہے اس کی اہمیت امریکہ کے لئے مزید بڑھ جائے گی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے امریکہ کا انخلاء تو طے ہے مگر خطے میں اپنے دو بڑے حریفوں، چین اور روس کی نقل و حرکت کے لئے اسے کسی نا کسی علاقائی اتحادی کی ضرورت ہوگی۔

ایسے میں پاکستان ہی اس کا سب سے بڑا ترجیحی مقام ہے۔ لیکن 2006 کے بعد سے امریکہ نے بھارت کو ہمیشہ پاکستان پر ترجیح دی ہے اور اس کی سرد جنگ میں امریکہ کے لئے دی گئی تمام قربانیوں کو فراموش کیا ہے۔ ایسے میں اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اس بہترین موقع کو کس طرح کیش کرکے امریکہ کو اس کی سابقہ بیوفائیوں پر سزا دیتا ہے یا پھر ملٹری ایڈ کے بحال ہونے پر ہی اکتفاء کرکے پھر سے امریکہ کی باسکٹ میں جاگرتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :