جمعیت علما اسلام جموں وکشمیر تاریخ کے آئینہ میں

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Inam Ul Haq

انعام الحق

1919 میں جمعیت علما ہند کے قیام کے محض سولہ سال بعد  مولنا انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ کی ہدایت پر 1935 میں جمعیت علما اسلام جموں وکشمیر کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے پہلے امیر مولنا میر واعظ یوسف مرحوم مقرر ہوئے جمعیت علماء اسلام جموں وکشمیر اگرچہ کشمیر کی ریاستی اور نظریاتی جماعت ہے جس کا وجود قیام پاکستان سے تقریبا 12سال قبل عمل میں لایا گیا لیکن 80 کی دہائی کے آخر تک جمعیت علما اسلام جموں وکشمیر نے پارلیمانی سیاست نہیں کی بلکہ مسلم کانفرنس سے سیاسی اشتراک قائم رکھا
اس سیاسی اشتراک کے فوائد پر اگر نظر ڈالی تو وہ بھی بہت زیادہ ہیں جیسے آزاد کشمیر میں دارالقضا کا قیام سردار ابراہیم خان مرحوم سے مولنا یوسف خان مرحوم نے کروایا پھر اس طرح آزاد کشمیر میں سرکاری طور پر دارالافتا موجود ہیں باقاعدہ ضلع اور تحصیل سطح پر جید مفتیان کرام قرآن وسنت کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل پر عوام کی مکمل دینی رہنمائی کرتے ہیں جس پر انکو سرکاری گریڈ کے مطابق بہترین سرکاری مراعات ملتی ہیں
عموما قاضی اور مفتیان کی پوسٹوں پر مدارس دینیہ سے فارغ التحصیل علما کرام جو مقابلہ کا باقاعدہ ٹیسٹ پاس کرکے تعینات ہوتے ہیں اسمیں بھی مولنا یوسف خان مرحوم کا بہت بڑا کردار ہے
پھر سینکڑوں کی تعداد میں مکاتب قرآنیہ کے لئے قاری صاحبان سرکاری طور پر تعینات ہیں حال ہی میں ان پوسٹوں پر خاطر خواہ اضافہ ہوا جس میں مرکزی کردار مولنا سعید یوسف خان دامت فیوضھم کا ہے
پھر کشمیر میں قائم مدارس دینیہ کے ساتھ سرکاری بیت المال سے باقاعدہ تعاون کیا جاتا رہا اور ابھی بھی تعاون کیا جاتا ہے یہ وہ تمام ثمرات ہیں جو جمعیت علماء اسلام جموں وکشمیر کی پارلیمانی سیاست نہ کرنے اور مسلم کانفرنس سے سیاسی اشتراک کیوجہ سے حاصل ہونے
لیکن جمعیت علماء اسلام جموں وکشمیر کی پارلیمانی سیاست میں حصہ نہ لینے کیوجہ سے کشمیر میں برادری ازم کی بنیاد پر جو سیاست پروان چڑھی اور لوگوں میں رچ بس گئی یہ وہ ناقابل تلافی نقصان ہے جسکے ازالہ میں شائد ابھی عشروں پر محیط نظریاتی جدجہد کی ضرورت ہوگی حیرت انگیز طور برادری ازم کی سیاست کشمیر میں اس قدر سرایت کرچکی ہے کہ علما کرام بھی برادری ازم کی سیاست کے علمبردار ہیں اور باقاعدہ کہتے ہیں کہ ناک کا مسئلہ تھا تو میں کیا کرتا ۔

(جاری ہے)

۔۔
گذشتہ سے پیوستہ الیکشن میں حلقہ وسطی باغ میں عجیب تماشہ ہوا کہ مسلم عوامی پارٹی کی جانب سے مفتی سید ساجد حسین شاہ جو بنوری ٹاؤن کے فاضل ہیں وہ امیدوار تھے دوسری جانب جمعیت نے جماعتی طور مسلم کانفرنس کی حمایت کررکھی تھی
اب ایک حلقہ میں تین برادریوں کے تین الگ الگ امیدوار تھے جنمیں سردار قمر الزمان ملدیال برادری کرنل نسیم نارمہ برادری اور راجہ یاسین کھکھہ برادری سے میدان میں تھے تو مولنا نذیر فاروقی دامت فیوضھم چونکہ کھکھہ بھی ہیں تو وہ جمعیت کی جماعتی پالیسی کے مطابق راجہ یاسین کے ساتھ اور مولنا آمین الحق کی سربراہی میں ملدیال علما قمر کے ساتھ اور مقصود توحیدی اور مولناطیب کشمیری کی سربراہی میں نارمہ علما کرنل نسیم کے ساتھ کھڑے تھے اور یہ سب قابل احترام شخصیات جمعیت کے ذمہ دار اور تھم ہیں
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے جمعیت کی شروع سے پارلیمانی سیاست نہ ہونے کیوجہ سے نظریاتی طور پر اس قدر نقصان ہوا کہ نظریات ہمارے علما کو بھی بھول گے
80 کی دہائی کے آخر سے جمعیت نے پارلیمانی سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کیا ہے جو تدریجاً بہتری کی جانب گامزن ہے مولنا سعید یوسف خان چوتھی دفعہ جمعیت علما اسلام کے بلامقابلہ امیر منتخب ہوچکے ہیں اور انکے ساتھ بطور سیکریٹری جنرل مولنا امتیاز عباسی جیسا انتھک انسان جماعتی ہمسفر ہے
اس دفعہ جماعتی دستور میں ترمیم کرکے مدت امارت میں اضافہ کرتے ہوئے پانچ سال بھی کردی گئی ہے
کل مورخہ 9 ستمبر 2020 کو اسلام آباد پریس کلب میں جمعیت علما اسلام جموں وکشمیر روالپنڈی ڈویژن کی جانب سے نومنتخب قیادت کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا تھا جسکے روح رواں قاری جہانگیر نقشبندی اور قاری عبدالواجد مولنا آمین سمیت انکی پورری فکرمند ٹیم ہے
مجھے بھی اس استقبالیہ میں شرکت کا اتفاق ہوا تو مجھے ایسا لگا کہ جمعیت علما اسلام جموں وکشمیر میں ایک نئی روح پھونک دی گئی ہے
اسلام آباد پریس کلب میں منعقدہ استقبالیہ تقریب میں جمعیت علما اسلام پاکستان کی جانب سے مولنا فضل الرحمان دامت فیوضھم کے صاحبزادہ مفتی اسعد محمود نے بھی شرکت کی یقینا آج انورشاہ کاشمیری کی روح بھی اپنے چمن کی ہریالی پر شادماں ہوگی
میری جمعیت کی نومنتخب قیادت اور بطور خاص مولنا سعید یوسف خان دامت فیوضھم اور مولنا امتیاز عباسی دامت فیوضھم سے یہ گزارش ہے کہ وہ کشمیر کے حالات کے مطابق سب اپنی نظریاتی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلیں تو ان شاءاللہ منزل دور ضرور ہے لیکن مضبوط پلاننگ سے اسکے سفر کو سہل بنایا جاسکتا ہے
بالخصوص اہلسنت والجماعت کو اپنے ساتھ لیکر چلیں انکی سرپرستی کریں تاکہ کشمیر میں حضرت مدنی اور انور شاہ کاشمیری رحمھمااللہ کے عقیدت مندوں کا سیاسی ایک ہی پلیٹ فارم ہو اور اگر آپ لوگ یہ کرنے میں کامیاب ہوگے تو پاکستان میں بھی آپ کا کردار باعث تقلید ہوگا اور دوریاں قربت میں بدلنے کا باعث ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :