
بجٹ اور غلامی کی زنجیریں
پیر 15 جون 2020

جاوید علی
پوری دنیامیں نئے سال کا آغاز یکم جنوری سے ہوتا ہے اور اختتام 31 دسمبر کو ہوتا ہے اور اسے بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے- آپ نے کبھی غور کیا کی ہمارا مالی سال جولائی سے کیوں شروع ہوتا یا یہ بجٹ گرمیوں میں ہی کیوں پیش کیا جاتا ہے حاانکہ سردیوں میں بھی پیش کیا جا سکتا ہے- اس کے بھی پیچھے ہماری جسمانی غلامی کے دور کی داستاں ہے- جسمانی غلامی کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ ذہنی طور پر تو آج بھی ہم غلام ہیں- برصغیر کی سب سے بڑی کاشت یا فصل گندم ہے جس کی کٹائی اپریل کے ماہ میں شروع ہوتی ہے- 13 اپریل کو اسی پر پنجاب بھر (پاک و ہند) میں بیساکھی کا میلہ منایا جاتا ہے کیوں کہ پنجاب ہی سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا علاقہ تھا جو سارے برصغیر کو گندم مہیا کرتا تھا- انگریز سرکار کیلئے بھی یہی ایک فصل تھی جس سے وہ اپنا حصہ لیا کرتی- پھر نہروں کا سسٹم آنے کے بعد مالیہ اور آبیانہ بھی اکٹھا کرنا شروع کر دیا- چونکہ اس وقت مئی میں مالیہ اور آبیانہ اکٹھا ہوا کرتا تھا وہ جون تک حساب کتاب لگا کر جون میں بجٹ پیش کر دیا جاتا- آج تومالیہ اور آبیانہ وغیرہ تو بجٹ میں مشکل سے نظر آتا ہے یا گنتی میں شامل ہی نہیں کیا جاتا کیونکہ حکومتوں نے اتنے ٹیکس لگا دیئے ہوۓ ہیں سیلز ٹیکس, انکم ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی جیسے عوام کو پیسنے کے لئے-
ہم نے آج تک غلامی والی روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے جبکہ دنیا میں غلاموں کا کاروبار کرنے والوں کے مجسموں کو بھی اکھاڑ کر پھینکا جا رہا ہے- ہم ان غلامی والی روایات پر اپنی زندگی فخر سے گزار رہے ہیں مثلا ہمارے ملک میں زیادہ تر موسم گرمی کا رہتا ہے لیکن ہمارے وکلاء سیاہ کوٹ اور سیاہ گاؤن پہن کر سرگودھا, لاہور یہنی ہر شہر کی روڈ سے جون, جولائی کی گرمی کی اذیت میں مبتلاء ہو کر بھی گزر رہے ہوتے ہیں اور جج صاحبان کا بھی یہی حال ہے لیکن کوئی ایک لمحہ رک کر سوچتا نہیں کہ ایسا کیوں ہے- ہم سکول, کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طالب علموں کا بھی یہی حال ہے پینٹ, شرٹ اور بند جوتے پہن کر جاتے ہیں وہی گلے میں ٹائی لٹکائی ہوتی ہے اور خود کو آزاد قوم سمجھ رہے ہوتے ہیں- کوئی بات ہو میری مرضی کی رٹ لگائی ہوتی ہے- ہمارے بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری دفتروں میں داخلے کے لئے لباس کی جو شرائط ہیں وہی انگریز والی ہیں- جم خانہ سے لے کر اسلام آباد کلب تک اور اکیڈمی سے لے کر یونیورسٹی تک وہی روایات چلی آ رہی ہیں- آج ہماری طرز معاشرت انگریز کی بجاۓ جدید مغربی تہذیب کی نقال بن چکی ہے- کارپوریٹ دنیا کی مرکز تہذیب بن چکی ہے ساری دنیا میں یکساں رولز لاگو ہیں- امریکہ سے جاپان تک فاسٹ فوڈ کی کسی بھی دوکان میں داخل ہوں وردی ایک ہے- بات صرف فوڈ اور بڑے بڑے سٹوروں تک محدود ہوتی تو خیر تھی لیکن اب بات اس سے آگے نکل کر ہمارے معاشی, سماجی اور سیاسی میدانوں تک چلی گئی ہے- چند برس پہلے لوگ اس غلامی کو غلامی کہنے سے جھجکتے تھے اور کہتے ہماری مجبوری ہے کہ ہم مغرب کے مقروض ہیں اب بات جھجک سے نکل کر فخر کرنے تک پہنچ چکی ہے- میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہمارے مشیرے خزانہ حفیظ شیخ نے کہا کہ آئی ایم ایف ہمارا محسن قرار دیتے ہوۓ کہا یہ ادارہ غریب ملکوں کی خیر خواہی کے لئے بنایا گیا- کوئی عام آدمی تو بات کرتا تو برداشت کی جا سکتی تھی- حفیظ صاحب آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک وہ ادارے ہیں جنہیں جنگ عظیم دوئم کے بعد پوری دنیا مالیاتی نظام مسلط کرنے کے لئے بنایا گیا- غریب ملکوں کو اپنے پنجوں میں جکڑنے کے لئے بنایا گیا- آج روپے کا بہاؤ ان کی طرف ہے نہ کہ ان سے غریب ملکوں کی طرف- آج تک کوئی دنیا کا ملک خوشحال نہیں ہوسکا جس پر آئی ایم ایف نے اپنے پنجے گاڑے ہوں بلکہ انہیں دو وقت کی روٹی کے قابل بنایا جاتا ہے- میں اپنے کالم میر کے اس شعر پر سمیٹتا ہوں
کہ ہم غریب ہوۓ ہیں انہی کی دولت سے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
جاوید علی کے کالمز
-
پھول کی زندگی اور گلدستہ تک کا سفر
منگل 28 دسمبر 2021
-
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (1703-1762)
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
سوشل میڈیا کے رنگ اور ہم
جمعہ 10 ستمبر 2021
-
مبارک ہو
ہفتہ 4 ستمبر 2021
-
کڑوے اقوال
ہفتہ 21 اگست 2021
-
ماہر نفسیات
جمعرات 12 اگست 2021
-
کچھ ایسی ڈھیٹ ہے کمبخت آتی ہے نہ جاتی ہے
پیر 26 اپریل 2021
-
خواب سے تعبیر تک
جمعہ 26 مارچ 2021
جاوید علی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.