
محکمہ پولیس میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے
پیر 27 جولائی 2020

جاوید علی
برصغیر (پاک و ہند) میں پولیس کی تاریخ مغل دور سے شروع ہوتی ہے- اس وقت گاؤں یا شہر کے سردار یا وڈیرے کو پولیس کی ذمہ داریاں سونپ دی گئی- یوں سلسلہ چلتا ہوا انیسویں صدی تک آن پہنچا- حالات و واقعات کے پیش نظر 1808 اور دس میں چند اصلاحات کی گئی- پھر سندھ میں پولیس کے سسٹم کو ڈیویلپ کیا گیا- اس وقت تک محکمہ پولیس میں سب سے ڈیویلپمنٹ تھی اور اس ماڈل کو برصغیر میں مقبولیت حاصل ہوئی اور دوسری کئی ریاستوں اور صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی اسی ماڈل کو اپنایا گیا- 1857 کی جنگ آذادی کے بعد کولینیل ماسٹر نے اس نظام کو مزید اچھا بنانے کے لئے 1861 میں ایک ایکٹ لاۓ- بریٹش امپائر نے دروغہ کے ساتھ ساتھ مجسٹریٹ کا بھی آفس بنایا گیا-
اس پنجاب پولیس کی پراپر تنظیم سازی 1934 میں ہوئی- آزادی حاصل کرنے کے بعد دونوں ملکوں پاکستان اور بھارت نے پولیس کے نظام میں مزید اصلاحات کیں-
ہم نے سن 2001 ڈیولیوشن پالان کے بعد اس محکمہ کو بہت تباہ کیا جس کی وجہ ہماری لیڈرشپ کی نااہلی ہے- اس کے بعد ہم نے پنجاب پولیس کی گھنڈہ گردی سے دو چار ہوۓ- چاہے سانحہ ساہیوال ہو یا اور کوئی سانحہ- جس سے اس عظیم کی عزت باقی نہیں رہی- ہر گز اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ اس محکمہ کا ہر بندہ ہی کرپٹ اور گھنڈہ گردی کرنے والا ہے- اس محکمہ میں عمر ورک کی طرح بہت اچھے اچھے نام ہیں- اس محکمہ میں چند لوگ ہیں جو گھنڈہ گردی کرتے ہیں جب وہ روڈ پر کھڑے ہوتے ہیں تو لوگ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ان سے بچا جا سکے- اکثر تو ناکہ سے شوں کر کے گزر جاتے ہیں اور یہ پیچھے سے انہیں گالیاں دے رہے ہوتے ہیں- جو ان کے اشارے سے رک جاتے ہیں تو پھر ان کی خیر نہیں ہوتی- انہیں 500/ 100/ 200 /10 /20 /30 /50 یا ذلیل کرنے کے بعد بات ایک سگریٹ پر جان کو پناہ ملتی ہے- بعد اوقات تو ان محافظوں کی طرف سے بلاوجہ تھپڑوں کی بارش ہو جاتی ہے اور پرچہ کا دھمکیاں بھی سننا پڑتی ہیں پھر چھوڑ دیا جاتا ہے انہی دھپڑوں والی لسٹ میں بھی شامل ہوں- یہ انتیس جون کی شام کی بات ہے کہ میں بھی اسی طرح ان کے ہاتھ چڑھ گیا اور کچھ پوچھ گچھ کے بعد مجھے بھی ایک دھپڑ جڑ (لگا) دیا- میں تو عام سادہ لوح لوگوں کی طرح نہیں تھا لیکن لباس, انداز گفتگو بلکل سادہ لوح لوگوں کی طرح ہوتی ہے- اگلی صبح میں نے سرگودھا جا کر شکایات سل میں ڈی پی او کو شکایت درج کروا دی اور مجھے اگلی صبح ڈی ایس پی کوٹمومن پیش ہونے کا کہا گیا- لہذا میں اپنے دوست مشہور پنجابی شاعر محسن ضیاء کے ساتھ اگلی صبح ڈی ایس پی اعجاز حسین شاہ صاحب کے پیش ہوا اور واقع کی ساری تفسیل بتائی- انہوں نے میری بات بڑی غور سے سنی- ان کا انداز گفتگو انتہائی پیارا تھا میں یہ توقع بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایک پولیس آفیسر اتنا اچھا بھی ہو سکتا ہے انہوں نے اسی وقت پروانہ (خط) جاری کروایا- اب جب وہ خط تھانہ موصول ہوا تو پولیس والوں نے میری طرف لوگوں کو بھیجنا شروع کر دیا- میں بھی ماننے والا نہیں تھا- میں اپنے گواہوں میں سے ایک کے ساتھ جا کر اگلی پیشی پر پیش ہو گیا تو دوسری طرف سے پولیس چوکی انچارج اور ایک ملازم پیش ہوا میں نے صاف بتایا کہ ان میں دھپڑ مارنے والا موجود نہیں جس پر ڈی ایس پی صاحب نے چوکی انچارج کی بھی بڑی کی اور بڑا سخت آڈر دیا کہ چوکی کے سارے ملازم پیش ہوں- اس کے بعد بیس پچیس منٹ ان سے میری بات ہوئی اس دوران میں نے بڑی تفسیل سے تھانہ کے کلچر سے آگاہ کیا اور انہوں نے مجھے اصلاحات کی یقین دہانی کروائی اور کہا جلد از جلد اوپر سمری بھیجتا ہوں- میں نے کہا سر آپ کے پاس یہ اختیار ہے آپ خود بھی اپنے تھانوں کے لئے اصلاحات کر سکتے ہیں انہوں نے جی بیٹا میں کرتا ہوں- میری اگلی پیشی سات جولائی کو تھی- اب چوکی والوں طرف سے تقریبا پندرہ سے بیس مختکلف گاؤں کے چودھری, بدمعاش اور اچھے عزت والے لوگوں کو میری طرف بھیجنا شروع کیا- اب ماننے والا میں بھی نہیں تھا خواہ جان بھی چلی جاتی- 6 اور 7 جولائی کی درمیانی رات کو انہوں معافی کے لئے عورتوں کو بھیج دیا جنہیں میں انکار بھی کرسکتا تھا بلآخر مجھے اپنے علاقے کی ماؤں, بہنوں اور بیٹیوں کی بات ماننا پڑی-
اس کے علاوہ ان کے بہت سے کرتوت ہیں جن کی وجہ سے انہیں لوگوں کی طرف سے مار بھی پڑتی ہے- کوئی کتاب لکھنا ہوتی میں تفسیل سے بتاتا کہ کس طرح رشوت لی جاتی ہے اور جرائم پیشہ لوگوں کو پرمنٹ بنا دیۓ جاتے ہیں جن پر تحریر ہوتا ہے کہ " یہ میرا عزیز ہے اسے جانے دو" اور تھانہ کی مہر لگی ہوتی ہے-
ہم سب کو مل کر اس کلچر کو قانونی طریقے سے ختم کروانا ہے حکومت خود بخود اس نظام کو تبدیل نہیں کرے گی ورنہ آج میں کل آپ ان کے ظلم سے دو چار ہوں گے- ہمیں ڈیمانڈ کرنا ہے کہ اصلاحات لائی جائیں جس کے لئے ہمیں اپنی قلم اور زبان سے حکومت کو مجبور کرنا ہے-
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
جاوید علی کے کالمز
-
پھول کی زندگی اور گلدستہ تک کا سفر
منگل 28 دسمبر 2021
-
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (1703-1762)
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
سوشل میڈیا کے رنگ اور ہم
جمعہ 10 ستمبر 2021
-
مبارک ہو
ہفتہ 4 ستمبر 2021
-
کڑوے اقوال
ہفتہ 21 اگست 2021
-
ماہر نفسیات
جمعرات 12 اگست 2021
-
کچھ ایسی ڈھیٹ ہے کمبخت آتی ہے نہ جاتی ہے
پیر 26 اپریل 2021
-
خواب سے تعبیر تک
جمعہ 26 مارچ 2021
جاوید علی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.