کفر کی حکومت بمقابلہ ظلم کی حکومت

بدھ 28 جولائی 2021

Javed Malik

جاوید ملک

بھلے وقتوں میں عمران خان لاکھوں کے اجتماع میں بانگِ دہل اپنا ایک فتویٰ ہر روز دہرایا کرتے تھے- کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کسی بھی ملک میں کفر کی حکومت چل سکتی ہے- مگر ظلم کی حکومت نہیں چل سکتی۔اور جو جو ظلم وہ گنوایا کرتے تھے ان کی بہت لمبی لسٹ ہے۔ اس لسٹ میں سب سے اہم ایک ظلم ایسا ہے جو تقریباً سب کا احاطہ کرتا ہے- یعنی جھوٹے وعدے۔

عمران خان کو ان نوجوانوں نے بھی ووٹ دیے تھے جن کے خاندان نون یا پی پی میں تھے مگر ان سے کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا تو خیر کیا ہونا تھا،حکومت میں آنے کے بعد اس کا ذکر بھی نہیں کیا گیا اور نہ کسی بھی وعدے کے پورا ہونے کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ بقول مرزا اسد اللہ خان غالب
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
کعبے کس منھ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
لوگوں کے ساتھ ایک وعدہ کیا گیا تھا بڑے شہروں کے پھیلاؤ کو روکنا، شہروں کی کچی آبادیوں کی جگہ اونچی عمارتیں بنانا۔

(جاری ہے)

تحریکی حکومت میں آج تک کسی بھی زمہ دار اہلکار نے اپنی حکومت کا چوتھا سال شروع ہونے تک کسی بھی موقع پر ایک بھی دفعہ اس بات کا ذکر تک نہیں کیا ۔میں اگر کراچی شہر جس کی آبادی تین کروڑ سے زیادہ ہے اور جو پیپلز پارٹی کی حکومت کے پچھلے تین ادوار میں مکمل کچی آبادی کی شکل اختیار کر گیا ہے،اور اس شہر کے وفاقی حکمرانون کو تو رہنے دیں، جن کو آجتک ایک رات اس شہر میں گزارنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

میں کراچی کے ان حکمرانوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں- جو بوجہ حکمرانی اس شہر میں رہتے ہیں۔ان میں سب سے بڑی تین رہائش گاہوں کو لے لیتے ہیں۔1،بلاول ہاؤس 2، گورنر ہاؤس 3، چیف منسٹر ہاوس۔ ان تینوں رہائیش گاہوں کے ارد گرد کے رہائیشی علاقے تو صاف ستھرے ہونے چاہئیں، شہر کی ان بڑی رہائیش گاہوں کا صرف 100 گز ارد گرد کا علاؤہ بھی صاف ستھرا نہیں ہے۔

علاقہ نے صاف ستھرا کیا ہونا ہے۔ ان گھروں کے سامنے سڑک کے دوسری طرف کچرے کے ڈھیر موجود رہتے ہیں۔چونکہ ان گھروں میں موجود لوگوں کو اس سے کوئی غرض ہے ہی نہیں۔ یہ سارے بےحس لوگ گھروں کے اندر سے کالے شیشوں والی گاڑیوں میں سوار ہوکر ایک صاف ستھری جگہ سے دوسری صاف ستھری جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ تاریخ ان لوگوں کو بھی اسی طرح یاد کرے گی جس طرح قائد اعظم یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر تراب الحسن نے اپنے مقالہ میں یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی، خورشید محمود قصوری اور چوہدری نثار علی خان کے بزرگوں کا ذکر کیا ہے۔


اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ان کے دلوں میں اپنے ملک اور شہروں سے محبت پیدا کرے اور یہ اپنے احساس زمہ داری کو سمجھیں۔ ان کے پاس یہ اقتدار کچھ وقت کے لیے ہے- اگر کچھ بہتر کام کر گئے تو لوگ یاد رکھیں گے ورنہ اس سے گھٹیا بھی کوئی بات ہو سکتی ہے- وزیر اعظم کو وہ کام جن کیلئے ان کو چنا گیا تھا-وہ کرتے نہیں مگر ٹویٹ کر کے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ دیکھو یہ کام بھی میں نے کر دیا ہے۔


کتنے ویران ہیں گلی کوچے
 کتنا اجڑا ہوا ہے دل کا نگر
یوں شکستہ ہے زندگی جیسے
بعد بارش کے کوئی ریت کا گھر
 موجودہ وزیراعظم عمران خان کو کچھ لوگ اپنے لئے اور پاکستان کے مستقبل کے لیے مسیحا سمجھتے تھے-لیکن ان کے دور اقتدار کے تین سال بعد غریب عوام اور خصوصاً سفید پوش طبقہ بری طرح متاثر ہوا- گزشتہ تین سال کے دوران روز مرہ استعمال کی چیزیں اس قدر مہنگی ہوئیں کہ گھر کا بجٹ بنانا مشکل ہوگیا-تنخواہ دار طبقہ نوکری کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم کام کرنے پر مجبورہوگیا-بجلی اور سوئی گیس سلنڈر اتنے مہنگے ہو چکے ہیں-اگر 6 سے 8 گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہ ہو تو بل اتنا آئے ادا کرنا مشکل ہو جائے-غریب عوام کو جی ڈی پی سے کوئی غرض نہیں ہوتی-غریب عوام کو اپنی ضروریات زندگی جن پر ان کا مہینہ گزر تا ہے اس سے سروکار ہوتا ہے- اگر موجودہ حکومت روزانہ استعمال ہونے والی اشیاء کو کنٹرول کر لیتی تو یقینا عوام میں ان کی پذیرائی بڑھ جاتی-بجٹ کے دوران گاڑیوں پر ریلیف دے دیا گیا -غریب عوام کو گاڑیوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی- غریب عوام کو دو وقت کی روٹی باعزت طریقے سے مل جائے یہی کافی ہوتا ہے-مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ہمارے ملک کے حکمرانوں کو غریب عوام کا کچھ بھی احساس نہیں ہوتا اور سچی بات یہ ہے- غریب عوام کو اپنے حقوق کا بھی پتا نہیں جب یہی حکمران ان کے پاس ووٹ مانگنے آتے ہیں تو یہ ان سے پوچھتے بھی نہیں آپ کس منہ سے مجھ سے ووٹ مانگنے آئے ہیں- ہمارے ووٹ بریانی کی پلیٹوں 500 اور 1000 میں بک جاتے ہیں- جب آپ نے ووٹ کا تقدس مجروح کریں گے تو پھر اسی طرح کے نتائج سامنے آئیں گے-
 اللہ تعالی پاکستان کا حامی و ناصر ہو-  

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :