
اپوزیشن لیڈر کا کردار اور حکومت!
جمعرات 1 اکتوبر 2020

جنید نوازچوہدری (سویڈن)
اپوزیشن لیڈر کے کردارکے یہ دو پہلو ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک پہلو یقیناً مستقبل کا وزیر اعظم بننا ہوتا ہے کیونکہ اْسے یہ امید ہوتی ہے ، یہ اپنے طور پر ایک اہم پہلو ہے مگر دوسرا پہلو جو اپوزیشن لیڈر کو اس مقام تک لے کے جاتا ہے وہ بنیادی طور پر تمام اپوزیشن پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنا اور قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینا ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
اپوزیشن لیڈر اقلیت کے لئے بول رہا ہوتا ہے یا درحقیقت زیادہ تر معاملات میں اکثریت کے لیے، ملک میں ایسے افراد کے لئیے کہ جنہوں نے حکومت کی حمایت نہیں کی۔
پارلیمنٹ کی سکروٹنی اور جمہوریت میں قائد حزب اختلاف کا کردار نہایت ہی اہم ہوتا ہے۔کسی بھی اپوزیشن کا حکومتِ وقت کو ٹف ٹائم دینے کا انحصار صرف ایک بات پر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ "حکمت عملی بنائیں اور اس پر قائم رہیں" اگر اپوزیشن کے راہنماؤں کا مسئلہ یہ بن جائے کہ انہوں نے کسی موٴثر حکمت عملی کے ساتھ عوام کو پیش آنے والی مشکلات پر عوام کی اْمنگوں کی ترجمانی کی بجائے حکومت کے خلاف صرف سیاسی پراپوگینڈہ کر کے صرف اور صرف میڈیا کی سرخی کا پیچھا کرنا ہے تو وہ اپوزیشن کبھی عوام کا اعتماد نہیں حاصل کر سکتی۔
اگر حکومت وقت درست سمت نا بڑھ پائے اور عوام کی اْمنگوں پر پورا نا اْتر پائے تو ایسی صورت میں اپوزیشن لیڈر کے لئیے ایک اور بڑا چیلنج درپیش ہوتا ہے اور وہ یہ ہوتا ہے کہ "پارٹی میں نظم و ضبط اور مقصد کے جذبات پیدا کرنا تاکہ اسے ایک موثر متبادل حکومت کے طور پر دیکھا جاسکے”۔اپنی صفوں میں نظم و ضبط کے بغیر کسی بھی اپوزیشن پارٹی کو کسی بھی طرح متبادل کے طور پر دیکھا نہیں جا سکتا۔اگر آپ عوام کے لیے حتمی متبادل بننا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے قول و فعل سے ثابت کرنا پڑے گا۔
اس وقت پاکستان میں کچھ ایسی صورتِ حال ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت سے لوگوں کو شکایت ہے کہ گورننس اچھی نہیں ہے اور فیصلے درست نہیں کیے جا رہے، مہنگائی، بے روزگاری، غیر یقینی کی صورتِ حال نے عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے اور دوسری طرف شاید پارٹی کے اندرونی اختلاف کی افواہوں کی وجہ سے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بھی اپنا کردار صحیح طریقے سے ادا نہیں کر پا رہے، کیونکہ حکومتی ارکانِ اسمبلی اور وزرا ہر ٹاک شو میں بیٹھ کر ن میں سے ش نکلنے کی گردان کرتے نظر آتے ہیں۔ حقیقت میں اختلاف ہے یا نہیں وہ تو پارٹی ہی بہتر جانتی ہے مگر حکومتی ارکان اسمبلی کو شاید نادیدہ قوتوں کی طرف سے یہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہونے کی وجہ سے اور نادیدہ قوتوں کے خلاف میاں نواز شریف کے اسٹینڈ کی وجہ سے ن لیگ کو اس طرح نشانے پر رکھ کر بیک فٹ پر دھکیلا جائے۔ اس کے علاوہ تمام اپوزیشن پارٹیز کا اسمبلی کے اندر جس طرح جاندار کردار ہونا چاہیے وہ نہیں ہے، پارلیمانی مباحث کی کوالٹی وہ نہیں جو پہلے ادوار میں ہوتی تھی، اپوزیشن ابھی تک اپنی صفوں کو درست نہیں کر سکی۔ اور اب پاکستان کی عوام آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ کہ جس میں پاکستان تحریک انصاف کو برسرِ اقتدار لانے میں اسٹیبلیشمنٹ کے مبینہ کردار پر سابق وزیر اعظم نواز شریف اور جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی طرف سے بغیر لگی لپٹی رکھے کْھل کر اور واضح الفاظ میں بات کی گئی تھی کے بعد امید کر رہی ہے کہ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں شاید کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اسٹیبلشمنٹ سے پسِ پردہ ہونے والی ملاقاتوں کی خبروں نے بھی بہت سے ابہام پیدا کر دئیے ہیں۔ عوام یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ ان خبروں کی حقیقت کیا ہے؟
اب اگر اپوزیشن متحد ہو کر واقعی حکومت کے ساتھ ایک فیصلہ کْن معرکہ چاہتی ہے تو اپوزیشن کو اب فرنٹ فٹ پہ آ کر کھیلنا پڑے گا۔ کْل جماعتی کانفرنس کے بعد اگر اب اپوزیشن بیک فٹ پر جاتی ہے تو عوام کا اعتماد کھو دے گی جو کسی بھی صورت اپوزیشن کے حق میں ٹھیک نہیں ہو گا۔ خاص طور پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری کی جو ٹائمنگ ہے اْس نے حکومتِ وقت کے کردار پر بہت سے سوالیہ نشان اْٹھا دئیے ہیں۔ اب اگر اپوزیشن اپنے کْل جماعتی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ سے کسی صورت بھی پیچھے ہٹی تو گیند حکومت کے کورٹ میں چلا جائے گا۔
حکومت تو ایک طرف اسٹیبلیشمنٹ کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ حزب مخالف کی جماعتیں اکھٹی نہ ہوں کیونکہ اسٹیبلیشمنٹ ہمیشہ سے ’ڈیوائڈ اینڈ رول‘ کی پالیسی پر گامزن ہے۔کْل جماعتی کانفرنس میں طے یہ ہوا ہے کہ پہلے تمام جماعتیں ملک کے تمام بڑے شہروں میں جلسے کریں گی جس میں حزب مخالف کی جماعتوں کی قیادت شرکت کرے گی۔ استعفوں کو آخری آپشن کے طور پر اعلامیے میں شامل کر کے پاکستان مسلم لیگ نواز اور جمعت علمائے اسلام نے سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو راضی کر کے کامیابی حاصل کی ہے۔ اب چاہے اپوزیشن کی اسٹریٹیجی جتنی مرضی تکنیکی طور پر ٹھیک ہے مگر جب وہ حکومت کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور استعفے دینے کی بات پر متفق ہونے کے بعد وقت آنے پر استعفے نہیں دیتے ہیں تو اپوزیشن پارٹیوں کی تمام تر محنت پر پانی پھر جائے گا اور عوام اپوزیشن کو متبادل کے طور پر نہیں دیکھیں گے، نتیجتاً مزید مایوسی پھیلنے کا خطرہ ہو گا۔ اب تمام اپوزیشن پارٹیوں کو استعفوں کے معاملے کو بہت سنجیدگی سے لینا پڑے گا وگرنہ شکست اْن کا مقدر بنے گی!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
جنید نوازچوہدری (سویڈن) کے کالمز
-
تحریک عدم اعتماد،کھیل شروع!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
کنٹینر پہ کھڑا وزیرِاعظم!
جمعرات 27 جنوری 2022
-
غریب عوام کا برانڈ ،وزیراعظم یا کوئی اور!
منگل 4 جنوری 2022
-
سقوطِ ڈھاکہ، زمینی حقائق کیا تھے؟
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
مہنگائی کا طوفان، حقیقت کیا ہے؟
جمعہ 3 دسمبر 2021
-
ڈاکٹر عبدالقدیر کا احسان، ناقابل تسخیرپاکستان!
پیر 11 اکتوبر 2021
-
کیا بحیثیتِ قوم ہم گدا گر ہیں؟
بدھ 15 ستمبر 2021
-
افغانستان کی 20 سالہ جنگ اور طالبان؟
منگل 24 اگست 2021
جنید نوازچوہدری (سویڈن) کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.