وہ ہم میں سے نہیں!

ہفتہ 22 دسمبر 2018

Khalid Imran

خالد عمران

ہمارا شمار ان کم علم لکھاریوں میں کیا جا سکتا ہے جنھیں لکھنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کہ کس موضوع پر لکھا جائے۔ اللہ سلامت رکھے ہمارے حکمرانوں کو، جن کے دمِ قدم سے موضوعات کی بہار ہے، لیکن ہم جیسے کم علم کی کہاں ہمت کہ ہر موضوع پر لکھ سکے۔ ہم نے سوچا کہ بنیادی مسائل تو وہی ہیں امن، صحت، تعلیم، روزگار وغیرہ لیکن ان سب سے نمٹنا ہوتو سیاست کا صحیح ہونا ضروری ہے اور سیاست اس وقت صحیح ہوگی، جب سیاست داں درست ہوں گے۔

اب جب ملک میں تبدیلی کی ہوا نہیں جھکڑ چل رہے ہیں، پرانے وسیانے سیاست داں احتساب کے شکنجے میں جکڑے جارہے ہیں اور وہ جو پرانے مگر زیادہ سیانے ہیں، ڈرائی کلین ہوکر نئی قیادت کی بیعت کرچکے ہیں تو شاید سیاست بھی درست ہوجائے۔
مدینہ جیسی ریاست بنانے کے اعلان پر جب مولانا طارق جمیل وزیراعظم کو سلیوٹ کریں اور بڑے بڑے مشایخ وبزرگ حکمرانوں کے جوتوں کو سر کا تاج بنانے کا اعلان کریں تو ایسے میں امید بندھ ہی جاتی ہے کہ وطن کی سیاست واقعی درست ہوسکتی ہے۔

(جاری ہے)

وہ سیاست جس کے بارے میں آغا شورش نے کہا تھا #
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
لیکن انور چراغ کا کہنا ہے پرانے سیاست داں ہزار بار بھی ڈرائی کلین ہوجائیں مگر ان کی عادتیں نہیں بدل سکتیں۔ ہوسکتا ہے وہ نئی قیادت کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیں۔
انور چراغ کے قول کو تقویت اس وقت ملی جب وزیراعظم عمران خان نے پوری کی پوری کابینہ کی سو روزہ کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تمام ارکان کو پاس کردیا۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیراعظم نے کابینہ کے ارکان کو جو پاسنگ مارکس دیے ہیں، وہ ان کی کارکردگی کی بجائے اپنے پاس سے دیے ہیں۔ گویا یہ ”گریس مارک“ ہیں اور یہ گریس مارک خان صاحب نے اپنی افتاد طبع کی بنیاد پر دیے ہیں۔ وزیراعظم کی طرف سے پاس کردینے کے بعد کابینہ ارکان آیندہ بھی اپنی کارکردگی کا مظاہرہ انہیں خطوط پر کریں گے، جن پر چل کر انہوں نے کپتان سے پاس ہونے کا شرف حاصل کیا، مثلاً کارپوریٹ کلچر کے نمایندہ اور مسلم لیگ (ن) کے دور کے وزیر نجکاری وگورنر سندھ محمد زبیر کے بھائی وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کے جن اقدامات کی بدولت مہنگائی، ڈالر اور سونے کی قیمت میں اضافہ ہوا، اگلے سو دن میں بھی ان کی رفتار ایسے ہی بڑھے گی۔

اسی طرح پہلے پرویزمشرف، پھر پیپلزپارٹی کی ترجمانی کرنے والے موجودہ وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات جناب فوادچودھری نے جس انداز میں پارلیمان کے اندر باہر چوکے چھکے لگائے، ان کا یہ انداز بھی مستقل رہے گا، چاہے سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی ان کا داخلہ بند ہوجائے۔ وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے انہیں جو فساد چودھری کہا، وہ اس کی بھی لاج رکھیں گے اور اپوزیشن کو زچ کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی محظوظ کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے، پچپن روپے فی کلو میٹر ہیلی کاپٹر کا خرچ بتانے جیسی اطلاعات نشر کرکے۔


مسلم لیگ (ن) کے سابق مرد آہن چودھری نثارعلی خان کے دیرینہ حریف اور سالہاسال پیپلزپارٹی میں گزارنے والے غلام سرور خان کی وزارت پیٹرولیم نے سندھ کے لیے ہفتہٴ رفتہ میں جس طرح سی این جی کا بحران پیدا کرنے میں محنت کی ہے، اس طرح کی محنت سے وہ اپنی کارکردگی کو چارچاند لگاکر حکومت کی نیک نامی میں اضافے کا باعث بنتے رہیں گے۔ پھر حکومت نے تحریک لبیک سے نمٹنے کا جو راستہ اختیار کیا، وہ بھی حکومت کو کسی نہ کسی ”اعزاز“ کا حق دار ضرور بنائے گا، اگرچہ اس میں وقت زیادہ لگ سکتا ہے۔


ان حالات میں یہ مشہور زمانہ قول بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے ”جیسے عوام ویسے حکمران۔“ لیکن اگر ہم اپنے حکمرانوں کا جائزہ لیں تو ننانوے فیصد کا رہن سہن، ان کا فنِ پیداگیری، پیداوار کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ اور طرزِ زندگی بتاتا ہے کہ وہ قطعاً ہم میں سے نہیں۔ ان کے مسائل الگ، ہمارے مسائل الگ، ان کے وسائل الگ، ہمارے وسائل الگ۔
اور جو ایک فیصد حقیقتاً ہم عوام میں سے ہوتے ہیں، وہ بھی حکومتی ایوانوں کو پیارے ہوکر ہم جیسے نہیں رہتے، بلکہ ننانوے فیصد جیسے ہی ہوجاتے ہیں۔

یقین نہ آئے تو ان سب کو دیکھ لیں جو آج احتساب کے شکنجے میں کسے جارہے ہیں یا جو آج ہم پر حکمران بنا دیے گئے ہیں۔ وہ چاہے جمہوریت کے متوالے ہوں یا آمریت کے پروردہ، ووٹ کے تقدس کے علمبردار ہوں یا تبدیلی کے پیغامبر۔ وہ ہم میں سے، عوام میں سے ہیں ہی نہیں۔ ان سب کو جب بھی ہماری گردنوں پر سوار ہونے کا موقع ملتا ہے، یہ اپنا اصل روپ دکھاتے ہیں۔ ہمیں مختلف نعرے دے کر بہلاتے ہیں لیکن قدرت ان کے فریب کو آشکار کرکے رہتی ہے، کیونکہ خدا کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ پہلوں نے اس حقیقت کو سمجھا، نہ آج والے اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر تاریخ کا ہر باب اس کا گواہ ہے۔ رہے نام اللہ کا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :