
وہ ہم میں سے نہیں!
ہفتہ 22 دسمبر 2018

خالد عمران
مدینہ جیسی ریاست بنانے کے اعلان پر جب مولانا طارق جمیل وزیراعظم کو سلیوٹ کریں اور بڑے بڑے مشایخ وبزرگ حکمرانوں کے جوتوں کو سر کا تاج بنانے کا اعلان کریں تو ایسے میں امید بندھ ہی جاتی ہے کہ وطن کی سیاست واقعی درست ہوسکتی ہے۔
(جاری ہے)
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
انور چراغ کے قول کو تقویت اس وقت ملی جب وزیراعظم عمران خان نے پوری کی پوری کابینہ کی سو روزہ کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تمام ارکان کو پاس کردیا۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیراعظم نے کابینہ کے ارکان کو جو پاسنگ مارکس دیے ہیں، وہ ان کی کارکردگی کی بجائے اپنے پاس سے دیے ہیں۔ گویا یہ ”گریس مارک“ ہیں اور یہ گریس مارک خان صاحب نے اپنی افتاد طبع کی بنیاد پر دیے ہیں۔ وزیراعظم کی طرف سے پاس کردینے کے بعد کابینہ ارکان آیندہ بھی اپنی کارکردگی کا مظاہرہ انہیں خطوط پر کریں گے، جن پر چل کر انہوں نے کپتان سے پاس ہونے کا شرف حاصل کیا، مثلاً کارپوریٹ کلچر کے نمایندہ اور مسلم لیگ (ن) کے دور کے وزیر نجکاری وگورنر سندھ محمد زبیر کے بھائی وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کے جن اقدامات کی بدولت مہنگائی، ڈالر اور سونے کی قیمت میں اضافہ ہوا، اگلے سو دن میں بھی ان کی رفتار ایسے ہی بڑھے گی۔ اسی طرح پہلے پرویزمشرف، پھر پیپلزپارٹی کی ترجمانی کرنے والے موجودہ وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات جناب فوادچودھری نے جس انداز میں پارلیمان کے اندر باہر چوکے چھکے لگائے، ان کا یہ انداز بھی مستقل رہے گا، چاہے سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی ان کا داخلہ بند ہوجائے۔ وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے انہیں جو فساد چودھری کہا، وہ اس کی بھی لاج رکھیں گے اور اپوزیشن کو زچ کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی محظوظ کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے، پچپن روپے فی کلو میٹر ہیلی کاپٹر کا خرچ بتانے جیسی اطلاعات نشر کرکے۔
مسلم لیگ (ن) کے سابق مرد آہن چودھری نثارعلی خان کے دیرینہ حریف اور سالہاسال پیپلزپارٹی میں گزارنے والے غلام سرور خان کی وزارت پیٹرولیم نے سندھ کے لیے ہفتہٴ رفتہ میں جس طرح سی این جی کا بحران پیدا کرنے میں محنت کی ہے، اس طرح کی محنت سے وہ اپنی کارکردگی کو چارچاند لگاکر حکومت کی نیک نامی میں اضافے کا باعث بنتے رہیں گے۔ پھر حکومت نے تحریک لبیک سے نمٹنے کا جو راستہ اختیار کیا، وہ بھی حکومت کو کسی نہ کسی ”اعزاز“ کا حق دار ضرور بنائے گا، اگرچہ اس میں وقت زیادہ لگ سکتا ہے۔
ان حالات میں یہ مشہور زمانہ قول بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے ”جیسے عوام ویسے حکمران۔“ لیکن اگر ہم اپنے حکمرانوں کا جائزہ لیں تو ننانوے فیصد کا رہن سہن، ان کا فنِ پیداگیری، پیداوار کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ اور طرزِ زندگی بتاتا ہے کہ وہ قطعاً ہم میں سے نہیں۔ ان کے مسائل الگ، ہمارے مسائل الگ، ان کے وسائل الگ، ہمارے وسائل الگ۔
اور جو ایک فیصد حقیقتاً ہم عوام میں سے ہوتے ہیں، وہ بھی حکومتی ایوانوں کو پیارے ہوکر ہم جیسے نہیں رہتے، بلکہ ننانوے فیصد جیسے ہی ہوجاتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو ان سب کو دیکھ لیں جو آج احتساب کے شکنجے میں کسے جارہے ہیں یا جو آج ہم پر حکمران بنا دیے گئے ہیں۔ وہ چاہے جمہوریت کے متوالے ہوں یا آمریت کے پروردہ، ووٹ کے تقدس کے علمبردار ہوں یا تبدیلی کے پیغامبر۔ وہ ہم میں سے، عوام میں سے ہیں ہی نہیں۔ ان سب کو جب بھی ہماری گردنوں پر سوار ہونے کا موقع ملتا ہے، یہ اپنا اصل روپ دکھاتے ہیں۔ ہمیں مختلف نعرے دے کر بہلاتے ہیں لیکن قدرت ان کے فریب کو آشکار کرکے رہتی ہے، کیونکہ خدا کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ پہلوں نے اس حقیقت کو سمجھا، نہ آج والے اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر تاریخ کا ہر باب اس کا گواہ ہے۔ رہے نام اللہ کا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد عمران کے کالمز
-
ایں خیال است و محال است وجنوں!
پیر 29 مارچ 2021
-
حلوہ کہانی
ہفتہ 20 مارچ 2021
-
دو مجبور اور بے بس سربراہ
ہفتہ 13 مارچ 2021
-
ہائی مورل گراوٴنڈ
ہفتہ 6 مارچ 2021
-
3 مارچ کے بعد کیا ہوگا؟
بدھ 17 فروری 2021
-
ختمِ بخاری کی ایک منفرد تقریب
منگل 26 مارچ 2019
-
پی ٹی آئی کا ڈی این اے اور ایک سوال
اتوار 10 مارچ 2019
-
بنامِ جمہوریت وبقائے پارلیمانی نظام
اتوار 17 فروری 2019
خالد عمران کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.