گلے کی ہڈی

ہفتہ 9 مارچ 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر انڈین سیکورٹی فورسز پر حملہ اور اسکے حالیہ اثرات نے جنوبی ایشیاء میں کشیدگی کی نئی بنیاد رکھ دی ہے جس کو جوازہ بنا کر مودی سرکار جارحیت کی مرتکب ہوئی ،ردعمل کے طور پر پاکستان کی جوابی کاروائی کے نتیجے میں نہ صرف بھارتی طیارے مار گرائے گئے بلکہ ایک پائلٹ زندہ گرفتار کیا گیا بعدازاں اس کو بھارت کے حوالہ کیا گیا جس پر بعض قومی حلقوں نے زیر لب احتجاج بھی کیا ۔

جوابی کاروائی تک مودی سرکار اور ریاستی میڈیا دہشت گردوں کے مارے جانے کے اعدادوشمار سے اپنی قوم کو گمراہ کرتا رہا اور عالمی سطح پر یہ تاثر دیتا رہا کہ پلوامہ حملہ میں ملوث افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے ما بعد حالات نے اسکی کھلی کھول دی اور مودی سرکار کی نہ صرف عالمی سطح پر جگ ہنسائی ہوئی بلکہ انکی فورسز کی پیشہ وارانہ مہارت کا بھانڈہ بھی پھوٹ گیا۔

(جاری ہے)


بعض غیر ملکی ذرائع دعوٰی کرتے ہیں کہ مودی جی اپنے قومی انتخابات سے قبل خطہ کو جنگ کی طرف دھکیلنے کی پوری منصوبہ بندی پہلے ہی کرچکے تھے وہ پاکستان مخالف جذبات کو بڑھا کر دوبارہ مسند اقتدار پے قدم رکھنے کی آرزو مند ہیں موجود ہ حالات نے بھی ان کے خبث باطن کو عیاں کردیا ہے۔
نہیں معلوم مودی نے کونسی سیاست پڑھی ہے ؟ حالانکہ ماہرین سیاست کی آراء میں تو سیاست اک مثبت سرگرمی ہے جس کے ذریعہ سماج میں مثبت تبدیلی لانا اور ریاست کے تمام سٹیک ہولڈر کی درست سمت کا تعین کرنا ہی قیادت کا کام ہے۔


نریندر مودی کے پلوامہ حملے کے دعوی کو بھی اپوزیشن جماعتوں نے صدقِ دل سے قبول نہیں کیا بلکہ وہ اس کاروائی کو خود ساختہ اور سوچا سمجھا منصوبہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ مودی جی کا” عہد ساز“ ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں وہ اقتدار کے حصول کیلئے کچھ بھی کر گذرنے کو تیار ہیں۔گجرات میں مسلمانوں پر وحشیانہ تشدد، گھراؤ جلاؤ اور قتل عام ان کے دور کا بدترین سیاہ باب ہے جو جمہوریہ ہند کے سیکولر چہرے پر بدنما داغ ہے۔


مودی جی اک عرصہ تک تو عالمی برادری کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے رہے کہ سرحد پار سے تحریک کشمیر کو امداد مل رہی ہے اسکی آڑ میں انہوں نے وہ تمام انسانیت سوز قوانین بھی لاگو کرکے دیکھو لیے۔قیادتوں کو پابند سلاسل بھی رکھا ،نوجوانان کشمیر کا قتل عام بھی کیا ،زندہ انسانوں کو پلٹ گن سے اندھا بھی کیا لیکن یہ تحریک زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ ابھرتی دکھائی دے رہی ہے آخری حربے کے طور پر مقبوضہ کشمیر میں سیاسی ایجنڈا رکھنے والی اور انسانی خدمت کی علمبردار جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرد ی گئی ،اسکے اثاثوں پر ریاست نے قبضہ جمالیا ہے اور کارکنان کی گرفتاریاں جاری ہیں، جسکی مذمت انکی اپنی نمک خوار محبوبہ مفتی فرمارہی ہیں۔

اس میں اب کوئی دورائے نہیں کہ اہل کشمیر کسی بھی حال میں بھارت کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے، اٹوٹ انگ کی گردان کا چورن اب عالمی مارکیٹ میں زیادہ دیر تک نہیں بک سکے گا۔جتنی جلدی سرکار اسکا ادرا ک کرلیتی ہے اتنا ہی اسکے مفاد میں بہتر ہے تاہم عالمی برادری کے ناتواں کندھوں پر یہ ذمہ داری تو ضرور عائد ہوتی ہے کہ وہ انسانیت سوز سلوک کے خلاف آواز بلند کرے ،بے گناہ کشمیریوں کی رہائی کیلئے دباؤ ڈالے اور سیاسی حقوق سے محرومی کے خلاف سراپا احتجاج ہو عالمی ضوابط کے مطابق کشمیر متنازعہ علاقہ ہے لہذا اس کیلئے صدائے حق کی بلند قطعی ہندوستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہے۔


پاک فضائیہ کی جوابی کاروائی کے خیر سے جوشر برآمد ہوا ہے وہ انتہائی قابل توجہ ہے، مختلف آمدہ اطلاعات کے مطابق سرجیکل سٹرائیک کی منصوبہ بندی میں تین ممالک کی شمولیت کسی خطرے کی گھنٹی ہے ،بالخصوص اسرائیل کا نام انتہائی قابل اعتراض اور غور طلب ہے ارض پاک کا اس سے براہ راست کوئی جغرافیائی رابطہ نہیں ہے، اس سے جو رنجش ہے وہ اصولوں کی بنیاد پر ہے جسکا آغاز قیام پاکستان سے پہلے ہی ہوچکا۔

بانی پاکستان نے بھی امت مسلمہ کے ساتھ یک زبان پر فلسطین کے حق میں آواز بلند کی اور اسرائیل کی ریاست کو ناجائز گردانا جس پر قریباً پوری امت کا اجماع ہے، پاکستان کا اسکے علاوہ اس کے ساتھ کوئی سرحدی تنازعہ بھی نہیں پھر اسکا ہندوستان کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کرنا اک عالمی سازش اور صیہونی استعمار کے ذہن کی عکاسی کررہا ہے۔
جنوبی ایشیاء کے اس خطہ میں افغانستان میں ا مریکہ اور اسکے اتحادیوں کی شکست کے بعد صورت حال تبدیل ہورہی تھی ۔

چین ، روس، ایران ،افغانستان کے معاملات میں خاصی دلچسپی لے رہے ہیں، خود طالبان کے وفد نے ایران کا دورہ کرکے نیا پیغام دیا تھا۔ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بارے میں معاملات طے کرنے کیلئے مذاکرات کا دور چل رہا ہے ایسے میں مقبوضہ کشمیر میں حملہ اور اسکے بعد پاکستان کے خلاف جارحیت کے ڈانڈے اس معاشی سرگرمی سے جاملتے ہیں جو سی پیک کی صورت میں بالکل صاف دکھائی دے رہی ہے چین اس وقت عالمی تجارت میں اک مقام حاصل کرچکا ہے ون روڈ ون بلٹ کے نئے وژن سے اسکی راہداری بڑھنے کے امکانات اس خطہ میں ر و شن ہیں۔

جو گذشتہ کئی دہائیوں سے سردجنگ کا ایندھن بنارہا ہے، بدلتے ہوئے حالات نے روس کو بھی اپنی خارجہ پالیسی ازسرنو متعین کرنے کاموقع فراہم کیا ہے، پاکستان کے ساتھ نئے معاہدے اسکی نئی شروعات ہے، اس عمل سے سنٹرل ایشین ریاستیں بھی فائدہ اٹھا سکتیں ہیں جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں ان حالات میں خطہ میں امن کی بالادستی ناگزیر ہے لیکن اسکو وہ قوتیں سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں جنہیں اس خطہ کی بڑھتی ہوئی عالمی تجارت سے خطرہ ہے جسکا انحصار اس وقت ڈالر پر ہے۔


بھارت میں متوقع انتخابات اور انتہا پسندانہ ہندو ذہنیت نے اسرائیل کو اک موقع فراہم کیا ہے وہ اس خطہ میں نئے انداز میں” انٹری“ ڈال کراس معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کردے جس کا خواب دیکھا جارہا ہے ایسی معاشی سرگرمی اب ہندو سورماء کے گلے کی ہڈی بن رہی ہے جس کے نتیجے میں جنوبی ایشیاء میں قدرے خوشحالی کے امکانات روشن ہوں گے۔
کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ اپنی معیشت کو سنبھالادینے کیلئے عالمی تھانیدار بننے کی پالیسی سے انحراف کررہا ہے، طالبان کے ساتھ مذاکرات اس سلسلہ کی اک پیش رفت ہے اغلباً اسکی اسٹیبلشمنٹ اسکی ہاں میں ہاں ملانے سے گریزاں ہیں امریکہ ہر چند جنوبی ایشیاء کی دو ایٹمی قوتوں کے مابین کشیدگی کم کرانے کا کریڈٹ تو لے رہا ہے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے بھار ت اسرائیل گٹھ جوڑ اور پاکستان کے خلاف جارحیت سے اسکے سراغ رساں ادارے کیسے لاعلم رہے؟ یہ معاملہ خالصتاً ہاتھی کے دانت دکھائی دے رہا ہے۔


انکل سام نے عرب بہار کی فیوض و برکات سے مشرقی وسطیٰ کو مستفید نہیں ہونے دیا گروہی اور مسلکی بنیادوں پر انہیں منقسم کرکے اسرائیل کو وہاں مضبوط کیا ہے امت کے وسائل اب غیروں کی دسترس میں ہیں لبنان، شام ، یمن امن کے متلاشی ہیں ،ہندوستان جو فی الوقت سی پیک کی گیم سے باہر ہے اس کاوش میں مصروف ہے کہ پاکستان اسکی وساطت معاشی خود انحصاری حاصل کرنے میں کہیں کامیاب نہ ہوجائے اک طرف افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء اور وہاں بھارتی اثر و رسوخ کی کمی اور دوسری طرف کشمیر کی تحریک آزادی کی کامیابی کے امکانات اور 2020ء” خالصتان“ کی بابت سکھ برادری کا مجوزہ ریفرنڈم کا عندیہ، سب اسکے گلے کی ہڈی بن چکا ہے بدامنی کی سازش اسکا تسلسل ہے، جو مودی ذہنیت کی عکاسی کررہا ہے ا یسی قیادت سے نجات ہی میں دونوں ممالک کے عوام کا بھلا ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :