آزادی کیا ہے؟

ہفتہ 27 جون 2020

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

 14 اگست 1947 وہ یادگار دن کہ جب برصغیر کے مسلمانوں نے جد وجہد کی ایک طویل رات کے بعد آزادی کی صبح کو طلوع ہوتے دیکھا۔ غلامی کے دور میں آزاد ملک کا خواب دیکھتے ہوے اس قوم کا تصور یہ تھا کہ ہمارے ملک میں ہر وہ سکھ اور آرام میسر ہو گا جس کیلیے ہندوستان میں رہتے ہوے وہ ترستے تھے۔ الحَمْدُ ِلله آج ہم ان مسلمانوں سے بہت ہی اچھی حالت میں ہیں جنہوں نے اس وقت ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

آج وقت نے ثابت کیا کہ ایک الگ مسلم مملکت کا خواب دیکھنا اور اس کیلیے جدوجہد کرنا بالکل درست فیصلہ تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ جاننا بھی اہم ہے کہ آزادی سے مراد کیا ہے؟ ہمارے قاٸدین نے انتھک محنت کے بعد ہمیں ایک الگ ملک تو لے کر دے دیا۔ لیکن افسوس کہ ہم نے اس پیغام کو نہیں سمجھا جو انہوں نے ہم تک پہنچانے کی کوشش کی۔

(جاری ہے)

علامہ اقبال کے اشعار کو ہم اور ہمارے بچے بس بیت بازی کے مقابلوں میں حصہ لینے یا تقریری مقابلوں میں پڑھنے کیلیے ہی یاد کرتے رہے اور ان کی گہرای میں پنہاں پیغام کو سمجھ کر اپنی زندگی پر منطبق کرنے کی کبھی کوشش نہ کی۔

اور اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہم ذہنی طور پر آزاد نہ ہو سکے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم آزادی کی نعمت سے بھرپور طریقے سے فیضیاب نہیں ہو پا رہے۔ بلکہ کہیں کہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ ہمارے صرف آقا تبدیل ہوے ہیں جبکہ حقیقت میں ہم ابھی بھی غلامانہ زندگی بسر کررہے ہیں۔ آج ہم مجبور ہیں کہ ہمارے آقا جیسا چاہیں ہم وہ کریں۔ہماری اسی غلامانہ سوچ کا فاٸدہ اٹھاتے ہوے چند خاندان ہم پر حکمرانی کررہے ہیں اور ہمارا استحصال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا اور اپنے احباب کا معیار زندگی بلند کر رہے ہیں۔


اپنے ارد گرد ایک نظر ڈالیٸے آ پ کو بہت سے ایسے لوگ نظر آٸینگے جن کی مالی حالات  کچھ بھی نہیں تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دولت میں کھیلنے لگے۔اپنے گردونواح کے ایسے لوگوں کےذراٸع آمدن سےہم سب واقف ہوتے ہوے بھی وقت آنے پر معمولی سے نفع کے عوض انہی لوگوں کو ووٹ ڈالتے ہیں ۔انہی کی ریلیوں اور جلسوں میں شرکت کرتے ہیں اور انہی کی زبان بولتے ہیں۔

ایسے لوگوں کے رابطے یقیناً انہی چند حکمران خاندانوں کے ساتھ ہوتے ہیں جو ان کواپنے  مفادکے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے اپنے وقت میں مختلف قسم کے کھوکھلے اور جزباتی نعرے دے کر عوام کو بیوقوف اور اپنے آقاٶں کو خوش کر کے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا صورتحال کے پیچھے عوام کی وہی غلامانہ سوچ کارفرما ہے جس کی وجہ سے ایسے نام نہاد معززین کامیابی کے زینے طے کرتے جارہے ہیں اور عوام ہیں کہ وہ پستی میں گرتے جارہے ہیں۔

۔ ذرا سوچیٸے کیا یہ غلامانہ سوچ کا شاخسانہ نہیں کہ آج کی سیاسی جماعتوں میں پیرانہ سال تجربے کار اور منجھے ہوے سیاستدانوں کے ہونے کے باوجود سیاسی جماعتوں کی قیادت اور اعلٰی عہدے جماعت کو تشکیل دینے والے سربراہ کی اولاد اور خاندان والوں کو ہی ملتے ہیں۔اور یہی کہنہ مشق سیاست دان کل کے بچوں کے سامنے سرنگوں کھڑے ان کاحکم بجا لارہے ہوتے ہیں۔


یہ درست ہے کہ پاکستان کا وجود ایک نظریے کی بنیاد پر وقوع پزیر ہوا۔لیکن کیا ملک بنانے والوں نے یہ ملک اس لیے بنایا تھا کہ یہاں حکمرانی کا حق صرف ان کو ہوگا جو عملی طور پر  رشوت خور ہو۔ ڈاکو لٹیرا ہو۔ سبز باغ دکھا کر لوٹنے کا فن جانتا ہو۔منی لانڈرنگ کے فن سے واقف ہو۔ وعدہ خلافی کرتا ہو۔قاتلوں۔زانیوں شرابیوں۔ منشیات فروشوں کی پشت پناہی کرتا ہو۔

مجرموں کی فوج اپنی حفاظت کے لیے پال کر ان کے رعب سے عوام کو لوٹتا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نام کا مسلمان ہو۔
ہماری غلامانہ سوچ کی ایک اور علامت یہ کہ ہمارے ھاں چند اداروں کے عہدے داران کو مقدس گاے کا درجہ دے دیا گیاہے۔ اور ان اداروں کے اعلٰی عہدے داران سیاہ کریں یا سفید ان پر تنقید یا ان کا احتساب کرنا گناہ عظیم اور توہین کے مترادف ہے۔

یہ درست ہے کہ بعض شعبہ ھاے زندگی میں کام کرنے والے ایک مقدس فریضہ ادا کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن انہی اداروں میں چند مفاد پرست بھی موجود ہوتے ہیں جو ذاتی مفاد کی خاطر اپنے عہدے کا ناجاٸز کا استعمال کرتے ہیں اور اس ادارے کانام بدنام کرتے ہیں۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ایسے مفاد پرستوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ہم میں ہمت نہیں ہوتی۔ کیونکہ ہم اپنے اندر وہ اخلاقی جرأت نہیں پاتے جو ایسے لوگوں کو بےنقاب کرنے کیلیے درکار ہے۔

 
غلامانہ ذہنیت کی ایک مثال چند ماہ پیشتر دیکھنے کو ملی
جب عورتوں کا عالمی دن منایا گیا۔مختلف شہروں میں عورتوں کی ریلیاں نکالی گٸیں۔ حیرت انگیز طور پر ان ریلیوں میں ”لے کے رہیں گے آزادی۔“اور "میرا جسم میری مرضی " جیسے نعرے لگاے گٸے۔ بعد میں دی جانے والی وضاحتوں سے پتہ چلا کہ مغرب کی اندھی تقلید میں آزادی کے نام پر اس بے راہروی اور بےحیاٸی کو عام کرنے کیلیے زور دیا جارہا تھا جس کو روکنے کیلے اسلام میں نکاح کا حکم دیا گیا ہے۔

اور شوہر اور بیوی کے حقوق و فراٸض متعین کیے گیۓ ہیں۔ یہ ذہنی غلامی کا ہی شاخسانہ ہے۔کہ آج ہماری عورت بلا سوچے سمجھے ان راستوں پر چلنا چاہتی ہے جن پرچل کرمغربی معاشرہ اس حد تک بگڑ گیا ہے جہاں رشتوں کا تقدس اور احترام بھی باقی نہیں رہا۔
دراصل ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آزادی کا مفہوم ہرگز یہ نہیں کہ جو آپ کے جی میں آۓ وہ کرتے پھریں۔

بلکہ صحت مند آزاد معاشرہ اسی وقت فروغ پاتا ہے جب اس میں بسنےوالے  حقوق و فراٸض  اور نظم و ضبط کی پابندیوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی کہ ہمارا مزہب ہمیں آزادی کے اصل معنوں سے روشناس کراتا ہے۔ کتاب ھدایت ہر ہر مرحلے پر ہماری رہنماٸی کرتی ہے۔ لیکن ہم اس خزانے سے مستفید ہونے کی بجاے بس ثواب کمانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں
          مختصریہ کہ آج 72 سال آزادی کے گزارنے کے باوجود ہماری غلامانہ سوچ نے ہمارے اندر اس قومی خوداعتمادی کو بیدار نہ ہونے دیا جس کی بنیاد پر ہم اپنے آپ پر فخر کر کے اقوام عالم کے سامنے سر اٹھا کر کھڑے ہو سکتے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر شعبے میں لیجینڈ اور ہیرو جنم دینے والی یہ قوم اپنے بچوں کے تعلیمی نصاب میں ان ہیروز کی زندگی کے حالات بتانے کی بجاے غیر اقوام کے ذہین لوگوں کے حالات پڑھاتے ہیں۔آج ہمارے بہت کم طالب علم یہ جانتے ہوں گے کہ فزکس میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ساٸنس دانوں میں ایک پاکستانی بھی تھا۔دنیا میں سب سے بڑی فلاحی تنظیم قاٸم کرنے والا پاکستانی تھا۔

دوسرے ممالک کو ترقیاتی منصوبے بنا کر ان کی معیشت کو ترقی دینے میں مدد دینے والے معشیات کے ماہر پاکستانی تھے ۔بیرون ملک میڈیکل اور ساٸنس کے شعبوں میں گراں قدر کارنامے انجام دینے والے ہزاروں ذہین پاکستانیوں سے ہمارے طالب علم ناواقف ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ عسکری معرکہ ہو یا کھیل کا میدان۔ ساٸنس کے مختلف شعبے ہوں یا فنون لطیفہ۔

تعمیرات ہوں یا خدمت خلق الغرض ہر شعبے میں قابل تقلید اور قابل فخر مثالیں اس سرزمین کی مٹی میں پرورش پا کر دنیا کو مستفید کررہی ہیں۔لیکن ہماری غلامانہ ذہنیت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنے بچوں کواپنے ان ہیروز سے متعارف نہ ہونے دیں۔یہی سوچ ہمیں سچ کو سچ تسلیم کرنے اور کہنے سے روکتی ہے۔ اس سوچ کو عوامی سطح پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

دنیا پر نظر ڈالیے آپ کو بہت سے ایسے ممالک کے نظر آٸینگے جنہیں صبحِ آزادی ہم سے بہت بعد میں نصیب ہوٸی۔لیکن چونکہ انہوں نے جسمانی آزادی حاصل کرتے ہی ذہنی غلامی کا طوق بھی اتار پھینکا اس لے آج ہم سے زیادہ مستحکم اور تیز رفتار کے ساتھ ترقی کی منازل طے کررہے ہیں۔
الغرض آزادی صرف جسمانی طور پر آزاد ہو جانے کا نام نہیں۔ بلکہ اس نعمت سے بہترین طریقےسے فیضیاب ہونے کیلیے اپنے ذہن سے بھی غلامی کا طوق اتار پھینکنا اشد ضروری ہے۔

آزادی کا اصل مفہوم اہنے فراٸض کی بہ احسن بجا آوری اور دوسروں کے حقوق کی پاسداری میں پنہاں ہے۔آج یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم دنیا کےسامنے سینہ تان کر کھڑا ہونا چاہتے تو ہمیں اپنے ذہنوں کو غلامانہ سوچ سے آزاد کرنا ہوگا۔اور مرد ہوں یا عورت دونوں کو اپنا درست مقام پہچان کر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :