مسلمانوں کے مسائل اور مسلم امہ

ہفتہ 22 مئی 2021

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

قوموں کی زندگی میں بعض فیصلے ایسے ہوتے ہیں جن کا خمیازہ آیندہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ایک صدی پہلے کی بات ہے کہ ایک سازش کے تحت فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کا کام شروع کیا گیا۔ صد افسوس کہ اس کام میں سرفہرست اسلامی دنیا کی وہ حکومت ملوث رہی جس کے حکمران آج خود کو خادم حرمین شریفین کہلاتے ہیں۔  تاہم یہودیوں کی آبادکاری کی سازش کو تقویت خود فلسطین کے باسیوں نے  بھی دی۔

1916میں برطانیہ کی طرف سے  یہودیوں کے لئے ایک وطن کے اعلان کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں نےفلسطین کا رخ کیا اور فلسطینیوں کی جایدادیں کوڑیوں کے دام خرید لیں۔ اس طرح یہودی اونٹ آہستہ آہستہ فلسطین میں اپنی جگہ بناتا گیا۔ یہاں تک کہ اس نے 1948 میں برطانیہ۔ امریکہ اور فرانس کی کوششوں سے  اپنی ریاست قاٸم کر کے دنیا میں یہودی تسلط کو فروغ دینے کے پلان پر عمل کرنا شروع کردیا۔

(جاری ہے)

یہاں مقامی فلسطینیوں نے چند سکوں کا مفاد حاصل کر کے وہ سنگین غلطی کی جس کا خمیازہ وہ آج بھگت رہے ہیں۔
یہودیوں کی مسلم دشمنی کا آغاز اسلام کی شمع روشن ہوتے ہی ہو گیا تھا۔ کیونکہ نبی آخرالزمان ﷺ نے ان سے وہ اعزاز چھین لیا تھا جو انہیں بہترین قوم ہونے کی غلط فہمی میں مبتلا کیے ہوے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت سے لے کر آج تک یہ قوم صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے پر تلی ہوی ہے۔

دوسری وجہ اس دشمنی کی یہ بھی ہے کہ ان کو یہ بھی یقین ہے کہ اُن کے مذہب کو جب بھی خطرہ ہوا تو وہ اسلام ہی سے ہو گا، اسی وجہ سے یہ قوم ہمیشہ سے مسلمانوں کو متحد ہونے نہیں دے رہی۔ اس مقصد کے لیے وہ ہر حربہ استعمال کررہے ہیں۔ جس میں سب سے موثر طریقہ پیسے کی چمک ہے۔ بدقسمتی سے ہم میں سے اکثر سستے داموں ایمان فروخت کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

ہماری اسی کمزوری کو یہودی اپنے مقاصد کے حصول کا ذریعہ بناتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود دنیا میں ذلت کی زندگی گزاررہے ہیں۔ اور کوی اسلامی ملک یہ ہمت نہیں جٹا پا رہا کہ وہ فلسطین یا کشمیر کے مظلوموں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آگے آے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ایک جانب تو مسلمانوں کا جزبہ جہاد اور جزبہ ایمانی کمزور پڑ گیا ہے ۔

اور دوسری جانب یہودی قوم اپنی روایتی طویل منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے دشمن کو کمزور کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ آج اگر ہم دنیا کے نقشے پر نظر ڈالیں تو ہمیں ایک بڑے حصے پر اسلامی مملکتوں کے جھنڈے دکھای دیتے ہیں لیکن یہ سب اپنے اپنے حال میں مست اپنے مفاد کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب یہود و ہنود و نصاریٰ اپنی اپنی جگہ ایک مشترکہ دشمن یعنی مسلمان کے خلاف برسر پیکار ہیں۔

ایک طرف کشمیر۔ ایک طرف  فلسطین۔ اور ایک طرف افغانستان۔ ان سب جگہوں پر مسلمان اپنی بقا کی جنگ مقامی طور پر خود لڑ رہے ہیں اور باقی کی اسلامی دنیا اپنے حال میں مگن ہے۔ اگر تھوڑا سا غور کریں تو اس سب کے پیچھے یہودیوں کی منصوبہ سازی کا ھاتھ دکھای دیتا ہے۔ دراصل یہودی قوم کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنے پلان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے طویل منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ جب کوی یہودی لڑکی حاملہ ہوتی ہے تو اس کو باقاعدہ میتھیمیٹکس کی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ اس کا اپنا دماغ بھی تیز ہو اور اس کے مثبت اثرات آنے والے بچے کے دماغ پر بھی مرتب ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کی معیشت اس قوم کے کنٹرول میں ہے۔
ان کی طویل منصوبہ بندی کی دوسری مثال کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ 1916 سے اپنے آبای وطن کے حصول کے لیے کی جانے والی کوششیں آج اس شکل میں رنگ لا رہی ہیں کہ وہ مسلمانوں کو اس چھوٹے سے علاقے تک محدود کردینے کے بعد اب یہاں سے بھی بے دخل کرنے کے لیے کھلے عام دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوے ہیں اور اس علاقے کے ہر طرف مسلم حکومتیں ہونے کے باوجود کوی ان کو روکنے والا نہیں۔

یہاں بھی اس قوم کی طویل منصوبہ بندی کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ یہ بات تو اب سب پر عیاں ہے کہ امریکہ یہودی قوم اور اسراٸیل کی مکمل پشت پناہی کرتا آ رہا ہے۔ یہودی قوم نے آغاز کسی بھی مسلم ملک سے براہ راست جنگ کی شکل میں نہیں کیا بلکہ امریکہ کو ہتھیار بنا کر مسلمانوں کے خلاف کئی سال پہلے کام شروع کردیا تھا۔ پہلے تو مسلمان ممالک میں ایک ایک کر کے اندرونی خلفشار اور نفاق پھیلا کر وہاں کی حکومتوں کو کمزور کیا اور پھر خود غرض، بد عنوان، نااہل اور لالچی لوگوں کو وہاں حکمران بنوایا۔

اس مقصد کے لیے بے دریغ پیسہ خرچ کیا گیا اور بعد میں ان حکمرانوں سے اپنے مفاد کے فیصلے کراے۔ ان ممالک کو مقروض کیا۔ ان کی معشیت کو تباہ کیا۔ ذرایع ابلاغ پر قبضہ کر کے تہزیب اور ثقافت کے نام پر بے حیای اور فضول مشاغل کو فروغ دیا، ممالک کو آی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا کر معشیت اپنے کنٹرول میں رکھی۔ حکمرانوں کو دولت اور زندگی کی آسائشوں و آرام کا عادی بنایا۔

اور آہستہ آہستہ ان کے اندر سے جزبہ جہاد کو ختم کر کے  بے حسی کے جزبات کو فروغ دیا۔ جس کی وجہ سے ایک مسلمان قوم مصری۔ سوڈانی۔ ایرانی۔ عرب۔ پاکستانی۔ افغانی اور نہ جانے کتنی قوموں میں تقسیم ہو گیی۔ اور اس مقام پر آکر یہ قومیں اہنے اہنے مفاد کی فکر کرنے لگیں۔ جبکہ ان ممالک کی عوام غفلت کی نیند سو گئیں۔ اور ان کی تلواروں کو زنگ لگ گیا۔


اس کامیابی کے بعد انہوں نے اپنے ہم خیال ممالک کے ذریعے مسلمانوں پر مسلح حملوں کا آغاز کیا۔ اور اسی پر بس نہیں بلکہ ان مسلم ممالک میں اپنے نمک خواروں کے ذریعے مزید افرا تفری پھیلانے کی مہم کو تیز کریا۔
پاکستان کو ہی لے لیجیے۔ یہاں بہت سے عناصر آج عوام میں حکومت کے خلاف ہرزہ سرای کرتے ہوے اس بیانیے کو مشہور کررہے ہیں کہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی مدد عسکری جارحیت کی صورت میں کی جاے۔

چونکہ یہ عناصر اپنے آقاوں کی خوشنودی کے لیے ایسا کررہے ہیں اسلیے وہ فلسطین کی جغرافیای محل وقوع۔ مسلم ممالک کے آپس کے اختلافات۔ کشمیر کا تنازعہ اور اس کی موجودہ صورتحال۔ گلوبل ویلیج کے تقاضے اور ایسی ہی چند دوسری تکنیکی وجوہات جو ایسی عسکری جارحیت کے آڑے آرہی ہیں ، ان کو دانستاً نظر انداز کررہے ہیں۔
مندرجہ بالا کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے بہترین راستہ اسلامی ممالک کو اس بات پر متفق کرنا ہے جہاں وہ آپسی اختلافات بھلا کر مظلوم مسلمانوں کا قتل عام روکنے کی خاطر اکٹھے ہوں اور اقوام عالم پر دباو ڈالیں۔

پاکستانی وزیر خارجہ کی قومی اسمبلی کی حالیہ تقریر اس سلسلے میں حکومتی پلان کی وضاحت کرتی ہے جس میں پاکستان  ترکی سوڈان اور فلسطین کے وزراے خارجہ کو ساتھ ملا کر اقوام ‏متحدہ  سے اس مسلے پر جنرل اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کریں گے۔ چونکہ برطانیہ۔امریکہ۔جرمنی اور دیگر مغربی ممالک میں عوام نے فلسطین کے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جارہا ہے اس لیے یہ توقع کی جارہی ہے کہ اس احتجاج اور جنرل اسمبلی کے اجلاس کے نتیجے میں مغربی دنیا اسراٸیل پر اس قتل عام کو روکنے کے لیے ضرور دباو ڈالیں گے۔

  پاکستان کی جانب سے فلسطینی عوام کی امداد اور ایدھی کی جانب سے انسانی ھمدردی کی بنیاد پر تعاون کے اعلانات کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں قاید حزب اختلاف کی حکومتی پلان کی تاٸید بھی خوش آیند باتیں ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ حکومت وقت کی یہ کوششیں عنقریب فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو اس مشکل سے نکالنے کا باعث بنیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :