اور حکومت بچ گئی

پیر 22 مارچ 2021

Mian Habib

میاں حبیب

پاکستان کے سیاسی افق پر سینٹ کے انتخابات اور اس کے مضمرات چھائے ہوئے ہیں میڈیا اتنے دنوں سے کرید کرید کر چھپی ہوئی چیزیں سامنے لا رہا ہے لیکن ہر روز نت نئی چیزیں سامنے آجاتی ہیں آصف علی زرداری نے سینٹ کے الیکشن میں جو کیا سو کیا لیکن اس کے بعد جو سیاسی بم چلایا اس کے آفٹر شاکس بہت گہرائی تک محسوس کیے جا رہے ہیں بعض لوگوں کے لیے یہ اتنا خوفناک دھماکہ تھا کہ ان کے خواس خمسہ تاحال بحال نہیں ہو سکے وہ سمجھ رہے تھے کہ اب ان کی خواہشات کی تکمیل کا وقت قریب آن پہنچا ہے لیکن پتہ اس وقت چلا جب سب کچھ تہہ تیغ ہو چکا تھا اب انھیں سمجھ نہیں آرہی کیا کیا جائے  آصف زرداری نے استعفوں کے معاملے میں دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ پارلیمنٹ سے باہر نہیں نکلنا چاہ رہے ان کے اس اعلان کے بعد پی ڈی ایم کا اتحاد ایک طرح سے ٹوٹ چکا ہے یہ اسی طرح ہے جیسے طلاق دے دی جائے لیکن اس کا تصدیقی سرٹیفکیٹ تین ماہ کے بعد جاری کیا جائے زرداری پی ڈی ایم کو طلاق دے چکے لیکن پی ڈی ایم دوبارہ رجوع کے چکروں میں انتظار میں ہے معاملہ تو اجلاس میں ہی ختم ہو گیا تھا لیکن مولانا نے فیس سیونگ کے لیے یہ کہہ دیا کہ آپ اپنی جماعت کی مجلس عاملہ میں اس پر مشاورت کر لیں اب  پیپلزپارٹی سے فیصلے کا انتظار ہے پیپلزپارٹی کی مرضی ہے وہ جب چاہے مجلس عاملہ کا اجلاس بلائے دل کرے نہ بلائے کیا پی ڈی ایم اس وقت تک اپنی سیاست کو فریز کر کے بیٹھی رہے گی پی ڈی ایم کا حال اس میراثی جیسا ہے جو چوہدری کے گھر رشتہ لینے چلا گیا تھا چوہدری نے میراثی کا مار مار کر بھرکس نکال دیا اور میراثی مار کھانے کے بعد اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھا اور کہنے لگا چوہدری صاحب میں تہاڈی طرفوں فیر ناں ای سمجھاں  آصف علی زرداری نے استعفوں پر اپنا فیصلہ سنا کر اپنا روڈ میپ دے دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی باقی جماعتیں کیا فیصلہ کرتی ہیں کیا مولانا اب بھی باقی جماعتوں کو ساتھ رکھ کر احتجاجی سیاست کی طرف آتے ہیں یا پھر کوئی اور راہ نکالتے ہیں سب سے مشکل فیصلے مسلم لیگ ن کو کرنا ہیں کیا سیاسی دھچکا کے بعد ن لیگ سولو فلائیٹ کرتی ہے یا پی ڈی ایم کا بوجھ بھی اپنے کندھوں پر اٹھاتی ہے نئی صورتحال میں مریم نواز کی قیادت بھی داو پر لگ چکی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں نواز شریف مریم کی جگہ میاں شہباز شریف کو آگے کرتے ہیں یا حمزہ شہباز کو گیند دیتے ہیں ویسے بھی نہ جانے لوگ کیوں کہہ رہے ہیں کہ اب مریم کے جیل جانے اور شہباز شریف کے باہر آنے کا وقت ہوا چاہتا ہے،قارئین آصف زرداری نے اچھا کیا یا برا کیا یہ الگ بحث ہے لیکن ان کے ایک ایکٹ نے ساری سیاست کا میکنزم تبدیل کر دیا ہے اصل ریلیف حکومت کو ملا ہے زرداری کے اعلان کے بعد حکومت کی جان میں جان آئی ہے ورنہ حکومت کی جان سولی پر لٹکی ہوئی تھی کہ نہ جانے کب کیا ہو جائے فرض کریں اگر پی ڈی ایم کے اجلاس میں یہ طے پا جاتا کہ ساری جماعتیں استعفے جمع کر کے 26 مارچ کو لانگ مارچ کے لیے نکلیں اور اسلام آباد میں پہنچ کر یہ دھرنے پر بیٹھ جاتیں تو کیا انھیں کسی حاصل حصول کے بغیر اٹھایا جا سکتا تھا اور اگر ڈیڈ لاک پیدا ہو جاتا اور نوبت اسمبلیوں سے استعفوں تک جا پہنچتی تو حکومت کہاں کھڑی تھی آصف زرداری نے لانگ مارچ کو موخر کروا کر اور استعفوں کے معاملے کو دفن کر کے نہ صرف سسٹم کو بلکہ پارلیمنٹ اور حکومت کو بھی بچا لیا ہے انھوں نے بروقت طرب کا پتہ کھیل کر ن لیگ اور مولانا کو تو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی ٹائم لے دیا ہے کہ وہ وقت پورا کرلے اب یہ عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ نئی صورتحال سے کس قسم کا فائدہ اٹھاتے ہیں اپوزیشن بیٹسمین کا کیچ ڈراپ کر چکی ہے اب بیٹسمین کی کارکردگی ہے کہ وہ سنچری بناتا ہے یا ٹپ ٹپ کر کے وقت گزارتا ہے پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب کو ٹارگٹ کر لیا ہے وہاں کے سیاسی خاندانوں سے رابطے بڑھا رہی ہے ادھر مسلم لیگ ق سنڑل پنجاب اور اپر پنجاب میں پنجے گاڑ رہی ہے اور اصل معاملہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ق لیگ اگلے عام انتخابات کے لئے اپنی بساط بچھا رہی ہیں پیپلزپارٹی نے اپنے آپ کو متبادل کے طور پر پیش کر دیا ہے اگلے انتخابات میں ق لیگ پیپلزپارٹی کی اتحادی ہو سکتی ہے جبکہ ن لیگ کے الیکٹ ایبل تتر بتر ہو کر محفوظ پناہ گاہوں کی طرف جاسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :