پاکستان کے سیاسی افق پر سینٹ کے انتخابات اور اس کے مضمرات چھائے ہوئے ہیں میڈیا اتنے دنوں سے کرید کرید کر چھپی ہوئی چیزیں سامنے لا رہا ہے لیکن ہر روز نت نئی چیزیں سامنے آجاتی ہیں آصف علی زرداری نے سینٹ کے الیکشن میں جو کیا سو کیا لیکن اس کے بعد جو سیاسی بم چلایا اس کے آفٹر شاکس بہت گہرائی تک محسوس کیے جا رہے ہیں بعض لوگوں کے لیے یہ اتنا خوفناک دھماکہ تھا کہ ان کے خواس خمسہ تاحال بحال نہیں ہو سکے وہ سمجھ رہے تھے کہ اب ان کی خواہشات کی تکمیل کا وقت قریب آن پہنچا ہے لیکن پتہ اس وقت چلا جب سب کچھ تہہ تیغ ہو چکا تھا اب انھیں سمجھ نہیں آرہی کیا کیا جائے آصف زرداری نے استعفوں کے معاملے میں دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ پارلیمنٹ سے باہر نہیں نکلنا چاہ رہے ان کے اس اعلان کے بعد پی ڈی ایم کا اتحاد ایک طرح سے ٹوٹ چکا ہے یہ اسی طرح ہے جیسے طلاق دے دی جائے لیکن اس کا تصدیقی سرٹیفکیٹ تین ماہ کے بعد جاری کیا جائے زرداری پی ڈی ایم کو طلاق دے چکے لیکن پی ڈی ایم دوبارہ رجوع کے چکروں میں انتظار میں ہے معاملہ تو اجلاس میں ہی ختم ہو گیا تھا لیکن مولانا نے فیس سیونگ کے لیے یہ کہہ دیا کہ آپ اپنی جماعت کی مجلس عاملہ میں اس پر مشاورت کر لیں اب پیپلزپارٹی سے فیصلے کا انتظار ہے پیپلزپارٹی کی مرضی ہے وہ جب چاہے مجلس عاملہ کا اجلاس بلائے دل کرے نہ بلائے کیا پی ڈی ایم اس وقت تک اپنی سیاست کو فریز کر کے بیٹھی رہے گی پی ڈی ایم کا حال اس میراثی جیسا ہے جو چوہدری کے گھر رشتہ لینے چلا گیا تھا چوہدری نے میراثی کا مار مار کر بھرکس نکال دیا اور میراثی مار کھانے کے بعد اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھا اور کہنے لگا چوہدری صاحب میں تہاڈی طرفوں فیر ناں ای سمجھاں آصف علی زرداری نے استعفوں پر اپنا فیصلہ سنا کر اپنا روڈ میپ دے دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی باقی جماعتیں کیا فیصلہ کرتی ہیں کیا مولانا اب بھی باقی جماعتوں کو ساتھ رکھ کر احتجاجی سیاست کی طرف آتے ہیں یا پھر کوئی اور راہ نکالتے ہیں سب سے مشکل فیصلے مسلم لیگ ن کو کرنا ہیں کیا سیاسی دھچکا کے بعد ن لیگ سولو فلائیٹ کرتی ہے یا پی ڈی ایم کا بوجھ بھی اپنے کندھوں پر اٹھاتی ہے نئی صورتحال میں مریم نواز کی قیادت بھی داو پر لگ چکی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں نواز شریف مریم کی جگہ میاں شہباز شریف کو آگے کرتے ہیں یا حمزہ شہباز کو گیند دیتے ہیں ویسے بھی نہ جانے لوگ کیوں کہہ رہے ہیں کہ اب مریم کے جیل جانے اور شہباز شریف کے باہر آنے کا وقت ہوا چاہتا ہے،قارئین آصف زرداری نے اچھا کیا یا برا کیا یہ الگ بحث ہے لیکن ان کے ایک ایکٹ نے ساری سیاست کا میکنزم تبدیل کر دیا ہے اصل ریلیف حکومت کو ملا ہے زرداری کے اعلان کے بعد حکومت کی جان میں جان آئی ہے ورنہ حکومت کی جان سولی پر لٹکی ہوئی تھی کہ نہ جانے کب کیا ہو جائے فرض کریں اگر پی ڈی ایم کے اجلاس میں یہ طے پا جاتا کہ ساری جماعتیں استعفے جمع کر کے 26 مارچ کو لانگ مارچ کے لیے نکلیں اور اسلام آباد میں پہنچ کر یہ دھرنے پر بیٹھ جاتیں تو کیا انھیں کسی حاصل حصول کے بغیر اٹھایا جا سکتا تھا اور اگر ڈیڈ لاک پیدا ہو جاتا اور نوبت اسمبلیوں سے استعفوں تک جا پہنچتی تو حکومت کہاں کھڑی تھی آصف زرداری نے لانگ مارچ کو موخر کروا کر اور استعفوں کے معاملے کو دفن کر کے نہ صرف سسٹم کو بلکہ پارلیمنٹ اور حکومت کو بھی بچا لیا ہے انھوں نے بروقت طرب کا پتہ کھیل کر ن لیگ اور مولانا کو تو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی ٹائم لے دیا ہے کہ وہ وقت پورا کرلے اب یہ عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ نئی صورتحال سے کس قسم کا فائدہ اٹھاتے ہیں اپوزیشن بیٹسمین کا کیچ ڈراپ کر چکی ہے اب بیٹسمین کی کارکردگی ہے کہ وہ سنچری بناتا ہے یا ٹپ ٹپ کر کے وقت گزارتا ہے پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب کو ٹارگٹ کر لیا ہے وہاں کے سیاسی خاندانوں سے رابطے بڑھا رہی ہے ادھر مسلم لیگ ق سنڑل پنجاب اور اپر پنجاب میں پنجے گاڑ رہی ہے اور اصل معاملہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ق لیگ اگلے عام انتخابات کے لئے اپنی بساط بچھا رہی ہیں پیپلزپارٹی نے اپنے آپ کو متبادل کے طور پر پیش کر دیا ہے اگلے انتخابات میں ق لیگ پیپلزپارٹی کی اتحادی ہو سکتی ہے جبکہ ن لیگ کے الیکٹ ایبل تتر بتر ہو کر محفوظ پناہ گاہوں کی طرف جاسکتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔