نیلسن منڈیلاجدوجہد کی تاریخ سازعلامت

پیر 9 دسمبر 2019

Mian Mohammad Husnain Kamyana

میاں محمد حسنین فاروق کمیانہ

جنوبی افریقہ کے سیاسی رہنما نیلسن منڈیلا سے دنیا میں کون واقف نہیں ہوگا َ95سال کی عمر پانے والے نیلسن منڈیلا 18جولائی 1918ء ، جنوبی افریقہ میں خونسہ زبان بولنے والے تھمیبو میں پیدا ہوئے جو جنوبی افریقہ کے مشرقی حصے میں ایک چھوٹے سے گاوٴں میں آباد تھے ان کا مذہب مسیحت تھا جنوبی افریقہ میں انھیں ان کے خاندانی نام مادیبا سے پکارتے تھے ان کا پیدائشی نام رولیہلا ہلا تھا جبکہ ان کی ایک استاد نے ان کا انگریزی نام نیلسن رکھا اور اس نام کے ساتھ لگا لفظ منڈیلا ان کے خاندان اور قبیلے کا نام ہے نیلسن منڈیلا کی عمرجب 9برس ہوئی تو ان کے ولد انتقال کرگئے جو کہ اس وقت تھیببوشاہی خاندان کے مشیر تھے جونگن تابا دلن دائبو ،نے نیلسن کو ان کے ولد کی خدمات کے اعتراف میں تھمیبو لوگوں کے قائم مقا م مشیر کی سرپرستی میں دے دیا آپ نے تعلیم B.Aاوروکالت کی بھی ڈگری حاصل کررکھی تھی نیلسن نے 1943میں افریقن نیشنل کانگرس (اے این سی)میں بطور صرف کارکن شمولیت اختیار کی تاہم بعد میں اسی جما عت کے یوتھ کے بانی اور صدر بھی بنے اور 27سال قید کے بعد بھی وہ اس تنظیم کے صدر ہی رہے ان کی پہلی شادی 1944میں ایویلن نامی خاتون سے ہوئی جس کے بطن سے چاربچے بھی پیدا ہوئے 1952میں انہوں نے وکالت کا دفتر کھول کر باقاعدہ پریکٹس شروع کر دی اور وکالت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے قریبی دوستوں کی مدد سے نسل پوشی کے اس نظام کے خلاف مہم کا بھی آغاز کر دیا جس کی وجہ سے 1956میں نیلسن اور اس کے 155کارکنوں پر غداری کا الزام عائد کر کے مقدمہ چلایا گیا جو 4سال بعد الزامات ثابت نا ہونے پر اس کو خارج کر دیا گیا اور نیا قانون بنایا گیا اس میں سیاہ فام لوگوں کو رہائش اور روز گار متعلق ہدایات تھیں 1958میں نیلسن نے ونی مادیکیزلادوسری شادی کی جنہوں نے اپنے شوہر کی رہائی کی تحریک میں بڑا اہم کردار ادا کیا (اے این سی ) جماعت کی نسل پرستی کے خلاف مزاحمتی تحریک روز برروز زور پکڑتی جارہی تھی جس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے اس جماعت کو کالعدم قرار دے دیا گیا اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے نیلسن روپوش ہو کر اور زیادہ متحرک ہو گئے نسل پرست حکومت کے خلاف ملک میں تناوٴ مزید بڑھنے لگااور1960میں اس وقت انتہا کو پہنچ گیا جب مقامی پولیس نے 56سیاہ فام افراد کو گولی مار کر ہلاک کردیا اور 162کو زخمی کر دیا جس کی وجہ سے جنوبی افریقہ میں پر امن مظاہروں کا خاتمہ ہوگیااور نیلسن نے ملکی معیشت کے سبو تاژکی مہم شروع کردی جس کی بناء پر انھیں گرفتار کرلیا گیا اور ان پر سول نافرمانی،سبوتاژ،توڑ پھوڑاور تشددکے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے الزامات عائد کر کے ریوونیاکے کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا تو اپنا دفاع کرتے ہوئے نیلسن نے تاریخ ساز الفاظ کہے کہ میں ایک مثالی جمہوریت اور آزاد معاشرے کا خواہش مند ہوں جس میں تمام لوگ ایک ساتھ امن سے زندگی گزار سکے اور ان سب کو ایک جیسا موقع میسر ہو۔

(جاری ہے)

میرا قصور بس یہ ہے لیکن اس کو ممکن کرنے کے لیے اگر ضرورت پڑی تو میں اس کی خاطر مرنے کے لیے بھی تیار ہوں اس کے بعد 1963میں انھیں عمر قید بامشقت کی سزا سنادی گئی اورایک سال کے عرصہ میں ان کی والدہ انتقال کر گئی اور کار حادثے میں بڑا بیٹاہلاک ہوگیا لیکن نسل پرست حکومت نے انھیں ان دونوں کی آخری رسومات میں شرکت کی اجازت نہ دی 27سال قید کے دوران انھیں 18سال روبن آئی لینڈ کی جیل جن میں نوبرس قید تنہائی اور 9سال پولزمور جیل میں رکھا گیااسی عرصے کے دوران (اے این سی)کے دیگررہنماوٴں کی قید اور جلاوطنی کے دران جنوبی افریقہ کے سیاہ فام نوجوانوں نے سفید فام اقلیتی حکومت کے خلاف اپنی تحریک جاری ر کھی اس مزاحمت اور عوام کے انقلاب کو دبانے کے لیے کئی لوگ ہلاک کردے گئے اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی اور قید کرلیے گئے لیکن ان کی قربانیاں اس وقت رنگ لائی جب ان کے بہت ہی قریبی دوست تیمبو نے نیلسن منڈیلا کو رہا کروانے کے لئے بین الااقومی مہم کا باقائدہ آغاز کیا اور ان کے دباوٴ کی وجہ سے جنوبی افریقہ کے صدر ایف ڈبلیو ڈی کلارک نے ایک تو اے این سی جماعت پر سے عائد پابندی ہٹالی اور دوسرا نیلسن منڈیلا کو رہا کردیا ان کے استقبال کیلئے لاکھوں لوگ آئے اس کے بعدانھوں نے پر تشدد تحریک کو چھوڑ کر مذاکرات کا راستہ اپنایا جس کی بناء پر جنوبی افریقہ میں امتیاز کو سمجھنے اور اس سے نجات حاصل کرنے میں مدد ملی نسلی امتیاز کے خاتمے کے بعد نیلسن منڈیلا کو پوری دنیا میں سرایا گیا اس کے بعد تو ایسے ہوا جیسے قسمت ہی ان پر مہربان ہو گئی ہو دسمبر 1993میں نیلسن کو امن نوبل انعام سے بھی نوازہ گیا اس سے تقریباًپانچ ماہ بعدجنوبی افریقہ میں پہلی بارجمہوری الیکشن کروائے گئے400کی پالیمان میں سے252 سیٹیں ان کی جماعت نے جیتی اور صرف 82سیٹیں نیشنل پارٹی جیت سکی لیکن پھرتاریخ نے یہ بھی دیکھا وہ ہی دونوں جماعتیں جو 46برس آپس میں لڑتی رہی تھیں انہوں نے مل کر حکومت بنائی نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام جمہوری صدر منتخب ہوئے اورکلارک نائب صدر ،منڈیلا صدربن کر بھی جیل کو نہیں بھولا جب امریکی صدر کلنٹن افریقہ کے دورے پر آیاتومنڈیلانے اسے رابن جزیرہ کی سیر بھی کروائی اور وہ سیل بھی دیکھایا جہاں وہ قید رہا تھا امریکی صدر نے نیلسن کی بہت تعریف کی اس کے بعد انھوں نے مفاہمت اور معاف کرنے کی پالیسی اختیار کی ۔

اپنے ساتھ اتنی زیادتیوں کے باوجود اپنے لہجہ میں تلخی نہیں لائے ، جنگ زدہ علاقوں میں امن قائم کرنے کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کیا جس پر سیاہ فام ہی نہیں بلکہ سفید فام بھی اپ کی ان خدمات کے قدر دان ہو گئے 1999 میں نیلسن کی صدارتی مدت ختم ہونے والی تھیں 29مارچ 1999کو پارلیمان سے منڈیلا نے آخری خطاب کیا اور کہا کہ میں امید کرتاہوں کہ کامیابی کا یہ سفر جاری رہے گااور ہر نسل کو ترقی کا موقعہ ملے گامنڈیلا 1992کے بعد1999کو دوبار پاکستان آیااور قائداعظم کے مزار پر بھی حاضری دی اور انھیں پاکستان کے اعلی ترین اعزاز نشان پاکستان سے بھی نوازہ گیااس نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے جوئنٹ سیشن سے بھی خطاب کیا کہا جاتا ہے کہ قائداعظم ان کی آئیڈیل شخصیات میں سے تھے اس نے 1995میں یہ بھی لکھا تھا کہ قائداعظم کی زندگی ان لوگوں کے لئے مشعل راہ ہے جو کسی مخصوص گروپ کی بالادستی کے خلاف لڑرہے ہیں عہدہ صدارت چھوڑنے کے بعدایچ آئی وی ، ایڈ کے خلاف مہم چلائی اور اپنے ملک کو 2010کے فٹ بال ورلڈکی میزبانی دلوانے کے فیصلے میں اہم کردار ادا کیااور اس کی اختتامی تقریب میں شرکت بھی کی۔

یہ پہلا موقع تھا کہ جنوبی افریقہ میں کھیلوں کے اتنے پر وقار مقابلوں کا انعقاد کیا گیا تھا انہوں نے صدارت چھوڑنے کے بعد جلد ہی سیاست بھی چھوڑدی دلچسپ بات یہ ہے کہ1998 میں80سال کی عمر میں موزمبیق کے سابق صدر کی بیوہ گریکامشیل سے تیسری شادی کی اور آبائی گاوٴں میں ایک گھر بنوایا اور وہاں اپنے کنبے کے ساتھ رہائش اختیار کرلی منڈیلا کے پھیپھڑوں میں انفیکشن کی وجہ سے طویل عرصے سے زیر علاج تھے انھوں نے 5دسمبر 2013کو بروازجمعرات کی رات مقامی وقت کیمطابق تقریباً م9بجے نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کی یاد گار تاریخ رقم کرنے والے بیسیویں صدی کے قد آور قابل احترام سیاسی شخصیت 95 برس کی عمرمیں وفات پا گئے آپ کے انتقال کا علان جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نے خو د ٹیلی ویژن پر براہ راست کیا اور ر وکر کہہ رہے تھے کہ منڈیلا ہمیں چھوڑ گئے ہیں جیکب نے یہ بھی کہا ہماری قوم نے اپنے فرزند اورعظیم لیڈر کو کھو دیا انھوں نے ہمیں متحد کیا اور ہم سب مل کر انہیں الوداع کریں گئے ان کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کی جائے گی تب تک ہمارا قومی پرچم سرنگوں رہے گا پوری دنیا میں ان کو خراج تحسین پیش کیا گیا منڈیلا کو دنیا بھر سے 250ایواڈز،اعزازی ڈگریوں،اور اعزازی شہریت سے بھی نوازا گیاوہ نہ صرف سیاہ فام اور سفید فام قوم ،طبقے بلکہ پوری دنیا کے لئے بہترین مثال بن گئے نیلسن منڈیلاکا جنم دن اس دنیا کے 7ارب60کروڑ سے زائد انسانوں میں منڈیلاوہ واحد فرد ہے جس کا جنم دن عالمی سطح پراقوام متحدہ کے تحت منایا جاتا ہے ۔

یہ جذبے اللہ پاک کی دین ہوتے ہے یہ ان لوگوں کو نصیب ہوتے ہیں جن کے حوصلے بلند ہوتے ہیں جنہوں نے یہ سوچ لیا ہوتا ہے کہ یہ دنیا کے عظیم مقاصد لے کرآئے ہیں اصل میں وہ ہی بڑے عظیم لوگ ہوتے ہیں جو اپنے مقاصدعظیم بناتے ہیں اور پھر ان کے لئے جدوجہد کرتے چلے جاتے ہیں اور نہ ہی کسی مشکل کو اپنے پاوٴں کی زنجیر بناتے ہیں بلکہ مشکلات کو کاٹ کر چلتے ہی جاتے ہیں کامیابی انھیں کاہی مقدر بنتی ہے جو ثابت قدم رہتے ہیں لیڈر وہ ہی ہوتا ہے جو قوم کو ساتھ لے کر چلتا ہے یہ ہی مثال آج کے حکمرانوں کے لئے بھی ہے جو اقتدارکو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور تاحیات اسے اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں عوام کے درد کو سمجھنا تو دور کی بات بلکہ اس درد کو درد ہی نہیں جانتے ، عظیم لیڈر وہ ہی بنتا ہے جودوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :