آٹے اور چینی کا بحران یا پلان ۔۔؟

منگل 21 جنوری 2020

Mian Mohammad Husnain Kamyana

میاں محمد حسنین فاروق کمیانہ

وطن عزیزکا شمار گندم پیدا کرنیوالے آٹھ بڑے ممالک میں ہوتا ہے ۔پاکستان میں تقریباً سالانہ 25 ملین ٹن گندم پیدا ہوتی ہے جس میں سے 19ملین ٹن صوبہ پنجاب میں پیدا ہوتی ہے جو ملک کی مجموعی پیداوار کا 75فیصدحصہ بنتاہے اور پاکستان کی سالانہ ضرورت بھی25 ملین ٹن ہے اس کے باوجود بھی حالیہ دنوں میں آٹے کی قمیتوں میں اچانک بڑا اضافہ سامنے آیا جس کی وجہ سے آٹے کا مصنوعی بحران پیدا ہوگیا صوبہ پنجاب ،سندھ ،خیبرپختونخواور بلوچستان میں لوگ متاثر ہوئے لیکن ذخیرہ اندوزں اور غیر قانونی منافع خوروں کی چاندی ،دوکان داروں نے منہ مانگی قیمتیں وصول کرنا شروع کر دی۔

جس پر عوام کی دھائی ۔ 20کلو آٹے کا ٹھیلہ 805سے بڑھ کر 1050روپے تک پہنچ گیا جب کہ دوکانوں پر کھلا آٹا 60روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے اس کے علاوہ چکیوں پرآٹے کی قیمت 70روپے فی کلو تک پہنچ گئی مجموعی طور پرپندرہ دنوں میں دیسی آٹا 20روپے فی کلو تک بڑھ چکا ہے اس حوالے سے آٹا چکی مالکان ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا ہے کہ غلہ منڈیوں میں گندم 2250روپے فی چالیس کلو تک فروخت ہورہی ہے فلورملز کے ساتھ ہمارا بھی کوٹہ مقررکیا جائے فلورملز کو 1375روپے میں فی چالیس کلو گندم فراہم کی جاتی ہے اگر ہمیں بھی اسی ریٹ پر گندم دی جائے تو ہم بھی سستا آٹا فروخت کریں گئے جب کہ آٹا چکی مالکان اوپن مارکیٹ سے گندم مہنگے داموں خرید کر سستے نرخوں پر آٹا فروخت نہیں کر سکتے ۔

(جاری ہے)

فلور ملز گندم سے آٹا ،میدہ ،فائن،سوجی،اور چوکر نکال لیتی ہیں جب کہ اس کے برعکس چکی مالکان اسی کندم سے غذائیت سے بھرپور دیسی آٹا فروخت کر رہے ہیں گندم اور بجلی کی قیمتوں میں مستحکم لانا حکومت کی ذمہ داری ہے اگر ہمیں حکومت نے ہراساں کرنے کی کوشش کی تو ہم مکمل شٹر داوٴن ہڑتال کرے گئے ابھی یہ بات حل نہیں ہوئی تھی کہ متحدہ نان ،روٹی ایسوسی ایشن بھی میدان میںآ گئی اور اس نے آٹاچکی مالکان ایسوسی ایشن کی جانب سے آٹے کی قیمتوں میں اضافے کو جواز بناتے ہوئے حکومت کو پانچ دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے مطالبات بھی نہ مانے گئے تو روٹی کی قیمت 10روپے جب کہ نان کی قیمت15روپے کرنیکا علان کر دیا اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فائن میدے کی قیمت 3700روپے سے بڑھ کر 4700ہوچکی ہے جب کہ شہروں میں آٹے کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے جس کی وجہ سے اب پرانی قیمتوں پر نان،روٹی فروخت کرنا ممکن نہیں رہا اگر حکومت آٹے کی قلت دور کرنے اور فائن میدے کی قیمتوں میں کمی کرنے میں ناکام رہی تو ہم از خود روٹی ،نان کی قیمت میں اضافہ کردیں گئے اوراگر ہمیں بھی ہراساں یا دبانے کی کوشش کی گئی تو ہم ملک گیر ہڑتال اور احتجاج کرنے پر مجبور ہونگے۔

جب کہ دوسری طرف پنجاب فلورملز ایسوسی ایشن کی طرف سے بلندوبانگ دعوئے کیے جارہے ہے کہ آٹے کی کسی جگہ پر کوئی قلت نہیں اور اسی صورتحال پیدا کرنیوالوں کے خلاف حکومت کاروائی عمل میں لائے اور نہ ہی آٹے کی قیمتوں میں کوئی اضافہ ہوا ہے آٹا اب بھی 40روپے 25پیسے فی کلو فروخت ہورہا ہے اور 20کلو کے آٹے کے ٹھیلہ کی قیمت بدستور 805روپے قائم ہے مہنگے آٹے کی خبریں آٹا چکی مالکان کی طرف سے گردش کر رہی ہیں فلور ملز ایسوسی ایشن کی طرف سے نہیں اور ساتھ یہ بھی کہہ ڈالا کہ پنجاب میں آٹے کا بحران مصنوعی ہے اور اس کے پیچھے صوبائی وزیر ہے جن کا اپنا میدے کا کاروبار ہے حکومت اس بات کا بھی نوٹس لے تاہم دیگر صوبوں میں گندم کے مسائل ہیں سندھ میں خراب موسم کے باعث گندم کی ترسیل کا مسئلہ ہے ۔

کے پی کے میں پنجاب سے گندم لے جانے پر پابندی ہے جبکہ بلوچستان نے گندم خریدی ہی نہیں اس ساری صورتحال پر قابوپانے کے لیے وزیر اعظم نے 3ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دے دی اور درآمدگی گندم کے نرخوں میں کمی کرنے کے لیے اس پر واجب ڈیوٹی میں 60فیصد چھوٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔سیکرٹری خوراک کا کہنا تھا کہ آئندہ چند دنوں میں صورتحال معمول پر آجائے گی ۔

سماجی حلقوں کی طرف سے اس بات کابھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر حکومت گندم اور آٹے کی افغانستان سمگلنگ کا سد باب نہیں کرتی تو یہ بحران آئندہ چند مہنوں میں مزید شدت اختیار کرجائے گا ۔دوسری طرف یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ آٹے کے بحران کی وجہ گندم کی قلت نہیں بلکہ فلورملز مالکان کی طرف سے ملنے والے کوٹہ کو مارکیٹ میں فروخت کرنا ہے حکومتی رپورٹ کے مطابق 19کے قریب ایسی فلورملز کا انکشاف ہوا ہے جو گندم کا کوٹہ لے کر مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کرتی تھی جس پر حکومت نے کاروائی کرتے ہوئے 376ملوں کو 9کروڑروپے جرمانے،15کے لائسنس معطل ،180فلور ملز کے آٹے کا کوٹہ روک دیا گیا4آفسران کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جو فرائض میں غفلت برتنے اور بے ضبطگیوں میں ملوث تھے جس میں ڈسٹرکٹ فوڈکنٹرولر سیالکوٹ نصراللہ خان ندیم اور ڈسٹرکٹ کنٹرولر گوجرانوالہ روحیل بٹ معطل اور ڈپٹی ڈائریکٹرمحکمہ خوراک فیصل آباد کامران اور ڈسٹرکٹ فود کنٹرولروہاڑی صغیر احمدکو عہدے سے ہٹا دیا گیا اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدارکی ہدایت پر مختلف شہروں میں آٹے کی سپلائی ۔

کو یقینی بنانے کے لیے 126کے قریب سیل پوائنٹ قائم کیے گئے ہیں جو حکومت ریٹ کے مطابق آٹے کی دستیابی کو یقینی بنائے گئے۔آٹے والی چکی کی میں گندم تو پیس نہیں رہی البتہ مہنگائی کی چکی میں عوام ضرور پیس رہی ہے ایک توحکومت کی نقص کارکردگی کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان برپا ہے دو وقت کی روٹی بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہے ، اور اوپر سے حکومتی نااہل وزاء مختلف بیان دے رہے ہیں جو کہ عوام کے جلے پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں جس طرح شیخ رشید کا بیان قابل مذمت ہے انھوں نے کہا کہ نومبر اور دسمبر میں لوگ روٹیاں زیادہ کھاتے ہیں اس وجہ سے آٹے کا بحران پیدا ہو گیا ہے عوام روٹی کو ترس رہے ہیں کراچی سے خیبر تک آٹے کی شدید قلت ہے اور اگر ملتا بھی ہے تو مہنگے داموں جو غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہے ۔

ایک وزیراعلی نے تو عوام کو اس بات کا مشہورہ ہی دے ڈالاکے عوام دو روٹی کی بجائے ایک روٹی کھاہیں تو آٹے کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔کیا یہ عوام کی بے بسی کا مذاق اڑانے اور ان کی تذلیل کرنے کے مترادف نہیں۔اور کیا یہ حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت نہیں۔ پہلے یہ تنقید اپوزیشن کیا کرتی تھی پھر اس کے حکومتی اتحادیوں کی چیخیں نکلی اور اب حکمراں جماعت کی اپنی ہی صف سے بغاوت کی سدائیں بلند ہو رہی ہیں اس ساری صورت حال سے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا انفسٹکچراور ادارے تباہ ہورہے ہیں پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اس زرعی ملک میں بھی آٹے کی قلت عروج پر ہے بات یہاں پر ختم ہو جاتی تو اچھا تھا لیکن آگے چینی کا بحران پیدا ہونے والا ہے کیونکہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی ایسا ہی کیا گیا تھا پہلے آٹا مہنگا پھر چینی مہنگی اب بھی تاریخ دہرانے کی تمام تر نشانیوں کے آثار مکمل واضع ہے یعنی چینی 54روپے سے 85روپے تک پہنچ گئی شوگر مافیا کی پہلے ہی چاندی ہے لیکن پھر بھی اس ساری صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بار پھر کمائی کرنے اور غریب عوام جن کے منہ سے پہلے ہی روٹی کالقمہ چھین لیا گیا ہے ان کو مزیدمہنگائی کی آگ میں جھلسانے کا منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے جنرل پرویزمشرف کے دور میں بھی گندم اور چینی کا بحران آیا تو جہانگیرترین،زبیدہ جلال،چوہدری پرویز الہی،شیخ رشید۔

عمر ایوب غلام سرور،شفقت محمود،طارق بشر چیمہ،فروغ نسیم، مخدوم خسرو بختاور،فواد چوہدری، خالد مقبول صدیقی،اعجاز شاہ،اعظم خان سواتی،میاں محمد سومرو،پیر انوارالحق قادری اورصاحبزادہ محبوب سلطان ،جیسے لوگ جنرل پرویز مشرف کی ٹیم کا حصہ تھے اور ابھی یہی شرفاء موجودہ حکمراں جماعت کا حصہ ہیں وزیر اعظم کو ان امور پر خصوصی توجہ دینا چاہئے تاکہ عوام کو ریلیف ملے ورنہ حکومت کی جانب بحران پر قابو پانے اورمعاشی استحکام کی جتنی باتیں کی گئی اور کی جارہی ہے وہ سب عوام کو دھوکہ دینے اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :