بھوک سے بلکتا پاکستان اور معاشی دہشت گردی

بدھ 9 دسمبر 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

 ”گلوبل کلائمیٹ رسک“ کی فہرست میں پاکستان تین درجے تنزلی کے بعد سب سے زیادہ متاثر ہونے والے پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں گیا ہے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تباہی کے علاوہ خوارک کا بحران بھی پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے اس سے قبل پاکستان اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر تھا۔ ماہرین کے مطابق اس صورت حال میں ملک کی معیشت کا زیادہ انحصار زراعت پر ہونے کی وجہ سے اسے شدید معاشی بحران سے بھی دو چار ہونا پڑ سکتا ہے پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے ہائیڈرو لوجیکل سائیکل متاثر ہونے سے بارشیں کم ہو رہی ہیں اور پانی کی کمی سر اٹھا رہی ہے جبکہ دوسری جانب گرمی بڑھنے کی وجہ سے یا تو فصلیں وقت سے پہلے تیار ہو رہی ہیں یا پھر گرمی سے وہ تباہ ہو رہی ہیں۔

(جاری ہے)

اس صورتحال میں جلدی تیار ہونے والی فصلوں پر حشرات کے حملوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور حال ہی میں ٹڈی دل جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک میں فصلوں پر حملہ آور ہو چکا ہے اس کے علاوہ بے وقت بارشوں سے بھی فصلوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور غیر معمولی بارشیں بھی فصلوں کی تباہی کا موجب بن رہی ہیں چاول اور گنے کی فصلیں جن میں پانی کی بے تحاشا ضرورت ہوتی ہے یہ فصلیں پانی کی کمی کی صورت میں کیسے بہتر اگ سکیں گی؟یہی وجہ ہے کہ ملک میں خوارک اور اجناس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

ادھر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سورج کی روشنی پڑنے سے سمندر میں جذب ہونے والی توانائی اور حدت میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے اور کرہ ارض پر پائے جانے والے سمندروں کے 80 فی صد حصے نے رواں سال ”میرین ہیٹ ویو“ کا سامنا کیا ہے اس ہیٹ ویو سے آبی حیات اور آبی ماحولیات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جو پانی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب ہونے کے باعث پہلے ہی بہت زیادہ تیزابیت کا شکار ہے کئی عالمی تنظیموں اور ماہرین کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ کے مطابق شدید گرمی کی لہر، جنگلوں میں لگنے والی آگ، سیلاب اور بحر اوقیانوس میں سمندری طوفانوں نے نہ صرف لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ انسانی صحت، تحفظ اور پھر کورونا وبا سے معاشی استحکام کو بھی شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کورونا وبا کے پیش نظر لاک ڈاؤن کے باوجود ماحول میں گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اضافے کا رحجان برقرار رہا جس سے آنے والی نسلوں کے لیے زمین زیادہ گرم ہونے کا سلسلہ جاری ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ گرین ہاؤس گیسز جو ماحولیاتی درجہ حرارت بڑھانے اور شدید موسمی تبدیلیوں کی اصل وجہ قرار دی جاتی ہیں ان کا اخراج کورونا وبا کے دوران صنعتی پہیہ سست ہونے کے باوجود کوئی خاص کم نہیں ہوا۔

ان حقائق کی بنیاد پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنعتی ترقی کے دور سے قبل یعنی 1850 سے 1900 کے دوران ریکارڈ کیے گئے درجہ حرارت کے مقابلے میں 2020 میں اوسط عالمی درجہ حرارت 1.2 سینٹی گریڈ بڑھا ہے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس بات کا خدشہ ہے کہ 2024 تک یہ درجہ حرارت اس معیار سے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ جائے گا۔ سائنس دان اس ریکارڈ گرمی کے سال کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سال بحر اوقیانوس اور اس کے اردگر آباد ممالک میں شدید درجہ حرارت نوٹ کیے گئے اسی طرح سائبیریا سے لے کر آسٹریلیا اور پھر امریکہ کے مغربی ساحل اور جنوبی امریکہ کے جنگلات میں لگنے والی آگ کے دھوئیں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا گرم موسم کے سب سے زیادہ اثرات شمالی ایشیا میں نمایاں نظر آئے ہیں خاص طور پر سائبیریا کے علاقوں میں جہاں درجہ حرارت اوسط سے 5 سینٹی گریڈ اوپر ریکارڈ کیا گیارپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بحر منجمد شمالی کے برف سے ڈھکے حصے کا رقبہ 42 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے برف سے ڈھکے اس سمندر میں جولائی سے اکتوبر 2020 کے دوران برف تاریخ کی کم ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی اسی طرح دنیا میں سطح سمندر کی بلندی میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے رپورٹ میں دنیا بھر خصوصاََ جنوبی ایشیا کے ممالک میں آنے والے سیلابوں کو بھی موسمی تغیرات سے تعبیر کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1994 کے بعد بھارت میں رواں سال سب سے زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئیں جبکہ پاکستان میں بھی اگست کے مہینے میں سب سے زیادہ بارشیں ریکارڈ ہوئی رپورٹ کے مطابق دنیا کے کئی خطوں میں گرمی میں اضافہ ہوا جس سے قحط اور غذائی قلت کے خطرات بڑھ گئے یہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں طوفانوں کی تعداد اور شدت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے نتیجے میں تقریباََ ایک کروڑ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے جن میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے تھا۔

گرین ہاؤس گیسز بالخصوص کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن گیسز کا مسلسل بڑھتا ہوا اخراج، آبادی میں اضافہ اور قدرتی عمل میں بے جا انسانی دخل اندازی معاملے کو گھمبیر بنا رہے ہیں موسمیاتی تبدیلی اب ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے عالمی درجہ حرارت بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ تو گرین ہاؤسز گیسز کا اخراج ہے اور دوسری جانب جنگلات کی کٹائی تیزی سے جاری ہے اس وجہ سے جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو بارشوں کا نظام متاثر ہوتا ہے ان کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ غیر پائیدار صنعت کاری ہے۔

ہندوستان کو پالنے والا پنجاب کی سرزمین رکھنے والا پاکستان آج دانے دانے کا محتاج ہوررہا ہے کبھی ہمیں گندم کی قلت کا سامنا ہوتا ہے تو کبھی دالوں‘چینی اور کبھی سبزیوں کی کمی کا اس صورتحال کے ذمہ دار ہم خود ہیں ہمارے ہاں سرے سے منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے ہوس زرکا شکار طاقتور اشرافیہ نے بڑے شہروں کے نواحی دیہات جو کہ ان شہروں کو خوراک مہیا کرتے تھے ان کو ختم کرکے رہائشی کالونیاں بنادیں جوکہ یہ اس قوم کے ساتھ ایسا ظلم ہے جس کا خمیازہ آنے والی کئی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔

شہروں کے قریب دیہی علاقوں کو رہائشی کالونیوں میں بدلنے کا عمل ابھی تک پورے ملک میں جاری ہے سب سے پہلے حکومت نئی رہائشی کالونیوں پر پابندی لگائے اگر ہم لاہور کی مثال سامنے رکھیں تو آدھے سے زیادہ رہائشی کالونیاں ابھی تک بے آباد ہیں لاہور ڈیلوپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)کی 1980کی دہائی میں بنائی گئی سبزہ زار ہاؤسنگ سکیم میں ابھی تک ہزاروں پلاٹ خالی پڑے ہیں اسی طرح ایل ڈی اے کی ہی سکیم ایل ڈی اے ایونیوون اور جوبلی ٹاؤن بھی ابھی تک بے آباد پڑی ہیں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پالیسی بنائے کہ جب تک پہلے سے بنائی گئی رہائشی سکمیں مکمل طور پر آباد نہیں ہوجاتیں اس وقت تک کوئی نئی رہائشی سکیم بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

نمبر دو چھوٹے کا شتکاروں کو بلاسود قرضے اورسہولیات دی جائیں جاگیردار اربوں کے قرض لے کر معاف کروالیتے ہیں تو چھوٹے کاشتکاروں کو آسان اقساط پر غیر سودی قرضے کیوں نہیں دیئے جاسکتے؟بارانی علاقوں میں جوکہ دالوں کی پیدوار کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں وہاں حکومت کنویں بناکردے اور مصنوعی بارشوں کا بندوبست کرئے کیونکہ دالوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ مقامی طور پر دالوں کی پیدوار ختم ہوجانے اور دالیں درآمد کرنے کی وجہ سے ہوا ہے لہذا حکومت بارانی علاقوں کے کاشتکاروں کو سولر سے چلنے والے ٹیوب ویل لگا کر دینے کے علاوہ انہیں دیگر سہولیات فراہم کرئے اس سلسلہ میں سنیئرصحافی وکالم نگار محترم عبدالقادر حسن صاحب کی خدمات حاصل کرسکتی ہے کیونکہ وہ کئی دہائیوں سے بارانی علاقوں کے کاشتکاروں کا مقدمہ پیش کرتے آرہے ہیں اور انہیں ان کے مسائل کے علاوہ اس بات کا بھی علم ہے کہ بارانی علاقوں کے کاشتکاروں کے مسائل کے حل کے لیے کن اقدامات کی فوری ضرورت ہے(میں جب یہ کالم لکھ رہا تھا اس وقت تک استاد محترم عبدالقادر حسن صاحب حیات تھے ان کی شخصیت اور خدمات پر آئندہ کسی کالم میں -میں نے شعوری طور پر اس مضمون میں سے ان کا نام ان کے انتقال کی خبر ملنے کے باوجود نہیں نکالا)۔

عبدالقادر حسن صاحب کے بعد کوئی شخصیت فوری نظر نہیں آتی مگر ان کے مضامین اس سلسلہ میں حکومت کی راہنمائی کرسکتے ہیں بہت سارے ذہنوں میں سوال ہوگا کہ میں عالمی امور پر بات کرتے کرتے زراعت کے موضوع کو کیوں لے کر بیٹھ گیا ہوں تو یہ دونوں آپس میں جڑے ہوئے ہیں ”کارپوریشنز“دنیا میں 70کی دہائی سے ایسے کمائی کے ذریعے پر غور کرررہی تھیں جو کبھی ختم نہ ہونے والا نہ ہو تو طویل تحقیق کے بعد ”کارپوریشنز“کے لیے کام کرنے والے تھنک ٹینک اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ پانی اور خوراک وہ ذرائع ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوسکتے(دنیا بھر میں اس پر کئی کتابیں‘مضامین اور تحقیقاتی مضامین لکھے جاچکے ہیں اور کئی دستاویزی فلمیں موجود ہیں) ۔

یہی وجہ ہے کہ خوراک اور پانی باعث کا موضوع ہیں یہاں ایک مثال دینا چاہونگا کہ سال2000کے آغازتک پاکستان میں بوتل بند پانی کا تصور بھی نہیں تھا پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ آج بوتل بند پانی اربوں روپے کی انڈسٹری بن چکا ہے ڈبہ پیک دودھ کی طرح یہی معاملہ خوراک کے ساتھ ہے کئی ملکوں میں اس پر ”عمل درآمد “شروع ہوچکا ہے یہ سارا کھیل اسی عالمی معاشی دہشت گردوں کے منصوبے کا حصہ ہے لہذا ہمیں اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اربوں ڈالرمحض تشہری مہمات پر خرچ کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہار ٹیلی ویژن پر اشتہارات دے رہی ہیں کہاں مرا ہوا ہے مسابقتی کمیشن؟ ایک ہزار جانوروں کا ڈیری فارم رکھنے والا زمیندار بھی ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پراپپگینڈا مہم کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو چھوٹے کاشتکار کی کیا حیثیت ہے؟۔

اسی طرح ”فوڈاتھارٹی“ اور حکومتی اداروں کی جرات نہیں کہ وہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پلانٹس کو چیک کرسکیں لہذا وہ انہی کے ”مشن “کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے ہی ہم وطنوں کی حوصلہ شکنی کررہی ہیں کہ وہ چھوٹے کاروبار بند کرکے اپنی جمع پونجی لے کر بیرون ملک چلے جائیں اور یہ ہورہا ہے ہمارے چھوٹے کاروباری یہاں سے اپنا کاروبار سمیٹ کر براعظم افریقہ اور دیگر چھوٹے علاقوں کی جانب ہجرت کررہے ہیں کیونکہ حکومتی ادارے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔

رواں ہفتے کے دوران ہی 2020الائنس نے گلوبل ہنگر انڈیکس کے نتائج پاکستان میں شائع کیے ہیں جن کے مطابق107 ممالک میں پاکستان بھوک اور غذائی تحفظ میں 88 ویں نمبر پر ہے اس سلسلے میں الائنس 2015 جو کہ 8 یورپین ممالک کا مشترکہ منصوبہ ہے نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں غذائت کے بحران کی وجہ سے انسانی اور معاشی ترقی متاثر ہو رہی ہے جس کہ وجہ سے ملکی سالمیت کو بھی خطرات پیش ہو سکتے ہیں رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ حکومت، پرائیوئٹ سیکٹر، سول سوسائٹی، عوام اور افراد کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگاتا کہ اس بحران سے بچا جا سکے۔

یو این ریزیڈنٹ کو آرڈینیٹر اینڈ ہیومینیٹیرین آفیسر پاکستان نے کہا کہ صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ میں بھوک اور غذائی قلت انتہائی زیادہ ہے اور ان صوبوں میں بہتری لانے کے لیے لازمی ہے کہ گورنمنٹ، سائنسدانوں، سماجی اور مقامی ادراروں کے ساتھ مل کر جدید اور تکنیکی ترجیحات کو نافذ کر ے اور ایسی حکمت عملی مرتب کرے تاکہ مقامی لوگوں کی بھوک اور غذائی قلت کو کم کیا جا سکے اور ان کے معا شی حالات کو مستحکم کیا جا سکے‘رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ فوری عمل کا وقت ہے اور ہر کسی کو آئندہ پانچ سالوں کے دوران حکمت عملی میں موثر کردار ادا کرنا ہوگا کورونا کے با عث پاکستان میں غذائی تحفظ کی صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے اورغذائی اجناس کی نقل و حمل نہ ہونے، اشیائی خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ اور لوگوں کے ذرائع آمدن میں خطرناک حد تک کمی کی وجہ سے سینکڑوں پاکستانی متاثر ہورہے ہیں۔

آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں غربت کی سطح سے نیچے جانے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک کورونا کی وباء ہے آئی ایم ایف نے مزید کہا ہے کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر17 ملین بچوں کو ہرسال ویکسین فراہم نہیں کی جا رہی ہے اور کورونا کی وبا کی وجہ سے ان کی صحت کو زیادہ خطرات درپیش ہے رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر 690 ملین افراد غذائی کمی کا شکار ہیں 144 ملین بچے اپنی عمر کے لحاظ سے چھوٹے قد کے ہیں 47 ملیں بچوں کو انتہائی کم غذا میسر ہے اور 2018 میں 5.3 ملین بچے اپنی سالگرہ سے پہلے فوت ہوگئے اگرچہ 2000 سے عالمی سطح پر بھوک میں کمی آئی ہے تاہم بہت سے جگہوں پر اس کی رفتار بہت سست ہے اور وہاں شدید غربت ہے ان ممالک میں غذا اور غذائت کا عدم تحفظ بڑھ رہا ہے رپورٹ میں خبردارکیا گیا ہے کہ 2020 میں صحت، معیشت اور ماحول کا بھی بحران پیدا ہورہا ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غذائی بحران اور بھوک سے تحفظ کے لیے ممالک حکومتوں اور افراد کو جامع حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی اور انہیں غذا، صحت اور معاشی نظام کو بہتر کرنا ہوگاتا کہ غذائی پیداواراور تقسیم کو منصفانہ انداز میں ترتیب دینا ہوگا تا کہ بحران سے بچا جا سکے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ37 فیصد پاکستان غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :