امریکا اور افغانستان کی دلدل۔ قسط نمبر1

ہفتہ 10 جولائی 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

پانچ اور چھ جولائی کی درمیانی شب افغانستان میں امریکا اور نیٹواتحادیوں کے 20سال ہیڈکواٹررہنے والے بگرام ایئربیس کی لائٹس اچانک بند ہوگئیں اس کے بعد کچھ جہازوں کے اڑنے کی آوازیں آئیں یہ کہنا ہے بگرام کے نئے افغان کمانڈر جنرل میراسداللہ کوہستانی کا ہے انہوں نے یہ بات ”وائس آف امریکا“سے بات کرتے ہوئی کہی بگرام ایئرفیلڈ 32ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے جس کے دو رن ویزمیں سے پرانا رن وے 3ہزار3میٹرجبکہ نیا رن وے 3ہزار602میٹر لمبا ہے-عالمی معیار کے مطابق عمومی طور پر کمرشل‘کارگو سمیت ہر قسم کے چھوٹے بڑے جہازوں کے لیے 2438میٹرسے لے کر3ہزار962میٹرتک ہوتی ہے بگرام ایئربیس پربڑے فوجی ٹرانسپورٹ طیارے سی5گلیکسی سے لے کر بوئنگ 747تک کے اترنے اور اڑنے کی گنجائش ہے چند روزقبل کراچی میں لینڈ کرنے والاانتونو این225 دنیا کا سب سے بڑا کارگو جہازہے جو بگرام سے ہی اڑا تھا بیس میں ہزاروں افراد کی رہائش کے لیے عمارتیں‘شاپنگ سنٹراور افغانستان میں امریکیوں کا سب سے بڑا قیدخانہ بھی موجود ہے- پاکستان اور افغانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک سے گرفتار القاعدہ کے مبینہ اراکین کو پہلے بگرام ایئربیس میں تفتیش کے لیے لے جایا جاتا تھا اور پھر وہاں سے کیوبا کے گوانتاناموبے قید خانے میں منتقل کردیا جاتا تھا پاکستان میں طالبان کی امارات اسلامیہ افغانستان کے سفیرملاضعیف کو بھی مشرف دور حکومت میں اسلام آباد سے گرفتار کرکے سرحد کے قریبی علاقے میں امریکیوں کے حوالے کیا گیا تھا جہاں سے انہیں ہیلی کاپٹر میں ڈال کر بگرا م ایئربیس پہنچایا گیا تھا جس کی تفصیلات ملاضعیف نے اپنی کتابMy Life with the Talibanمیں بیان کی ہیں-اس وقت ہمارا موضوع ملا عبداسلام ضعیف نہیں لہذا اس پر پھر کبھی تفصیل سے بات ہوگی لیکن ایڈیٹرانچیف ”اردوپوائنٹ“علی چوہدری اور میں نے ملا ضعیف کا آخری انٹرویو جن حالات میں کیا تھا وہ کسی جاسوسی فلم سے کم نہیں تھے اس انٹرویو کے بعدملا عبداسلام ضعیف کو گرفتار کرکے امریکیوں کے حوالے کردیا گیا اس لیے یہ ان کا آخری انٹرویوتھا جو ہم نے مشترکہ طور پر کیا اس کی تفصیل پھر کبھی سہی-افغان عسکری قیادت کے بیان کو دیکھیں تو وہ امریکا کے ہی نشریاتی ادارے”وائس آف امریکا “کے سامنے کھڑے ہوکر کہہ رہے ہیں کہ امریکی رات کی تاریکی میں بغیر کسی کے علم میں لائے بگرام بیس چھوڑکر بھاگ نکلے اور انہیں صبح 7بجے اس کا پتہ چلا امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان نے اگرچہ تردید کی ہے مگر اس میں جھنجلاہٹ صاف ظاہرہوتی ہے جبکہ افغان عسکری حکام اپنے دعویٰ پر قائم ہیں کہ امریکہ نے بگرام ایئربیس رات کی تاریکی میں خالی کیا اور اس ضمن میں بیس کے نئے کمانڈر تک کو آگاہ نہیں کیا گیا جنرل کوہستانی اور بگرام میں سیکورٹی ڈیوٹی پر موجود افغان فوجی اہلکاروں کا بھی کہنا ہے کہ انہیں علم نہیں ہوا کہ کب امریکی بیس خالی کرکے نکل گئے ایئربیس کے اچانک اندھیرے میں ڈوبنے کی تصدیق سیکورٹی اہلکاروں نے بھی کی ہے -دنیا کی واحدسپرپاور کہلانے والے امریکا کے لیے اس طرح فرار ہونا شرم کی بات ہے 20سال پہلے جب انہیں خبردار کیا جارہا تھا کہ اس دلدل میں نہ اتریں تو اس وقت کی امریکی قیادت نے رعونت سے سب کے مشوروں کو ٹھکرا کر کہا تھا کہ We are Americans ہم معاملات کو اپنے حساب سے ہینڈل کرتے ہیں افغانستان کو گوندکا پیالہ بھی کہا جاتا ہے جس میں مکڑی ایک بار پھنس گئی تو اس کا نکلنا ناممکن ہے -امریکا نے افغانستان کے سیاسی حل کے مشورے کو بھی اس قابل نہیں سمجھا کہ اس پر غور کیا جائے بلکہ امریکا فوجی طاقت کو بڑھاتا گیا اور کوئی ایسا ہتھیار یا ٹیکنالوجی نہیں جو دنیا کے پسماندہ ترین ملک میں استعمال کی گئی 20سالوں کی طویل گوریلا وار میں دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی‘ہتھیاروں‘طاقتورترین فضائی فوج کلاشنکوف اور راکٹ لانچرزسے زمین بوس ہوگئی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اختلاف رائے اپنی جگہ مگر انہوں نے فوجیں نکالنے کے معاملے میں دلیری دکھائی ان سے پہلے صدر اوبامہ صرف اعلانات تک محدود رہے بلاشبہ اس جنگ نے امریکی معیشت کو بھی ہلاکررکھ دیا -دنیا بھر کے اہل نظرکہہ رہے تھے مذکرات کے ذریعے معاملات طے کیئے جائیں مگر امریکا 20سال تک طاقت کے نشے میں رہا اور نشہ اترتے ہی رات کی تاریکی میں راہ فرارحاصل کی اب دنیا میں امریکا واحدسپرپاورہونے کا سٹیٹس برقراررکھ پائے گا؟افغانستان سے فرارویت نام سے بھی زیادہ شرمناک ہے صدر بائیڈن کا یہ کہنا کہ افغانستان میں امریکیوں کی ایک اور نسل نہیں مروا سکتا اگرچہ قابل ستائش ہے مگر افغانستان کی تعمیر نو سے راہ فرار بزدلانہ ہے امریکا جارح تھا اس نے ایک ملک پر حملہ کرکے اس کا سارا انفاسٹریکچرتباہ کردیا لاکھوں افراد مارے گئے امریکا کی اس جنگ میں70ہزار پاکستانیوں نے جانیں گنوائیں ‘اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کیا بم دھماکے اور ڈرون حملے سہے اس کا ازالہ کرنا امریکا اور اس کے اتحادیوں کی اخلاقی ہی نہیں بین القوامی قوانین کے مطابق قانونی ذمہ داری بھی ہے- -باقی آئندہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :