پاکستان اورایسٹ انڈیا کمپنی کا ”جمہوری ماڈل“

جمعہ 23 جولائی 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

ہم اس دین کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں جو صفائی کو نصف ایمان قراردیتا ہے مگر روزمرہ کی زندگی ہو یا عیدین کے مواقع ہر طرف گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نظر آتے ہیں مساجد ہماری تربیت گاہیں تھیں لیکن مبنروں سے فرقہ بندی تو سکھائی جارہی ہے معاشرت نہیں عید الااضحی کے موقع پر وفاقی دارالحکومت سمیت وطن عزیزکے چھوٹے بڑے شہروں سے لے کر قصبوں اور دیہاتوں تک کئی ماہ تک ماحول بدبودار رہتا ہے ہر جگہ سڑتی ہوئی اوجڑیوں اور الائشیوں کے انبار نہ ہوں تو ہماری عید قرباں مکمل نہیں ہوتی جس طرح ہر سال رمضان میں حکومتیں اور انتظامی مشنری ایسے بوکھلائی نظرآتی ہیں جیسے اچانک کوئی آفت ان پر آن پڑی ہو اسی طرح کی بوکھلاہٹ بکرا عید پر نظرآتی ہے -شہریوں کی بجائے حکومتوں اور انتظامی مشنری پر ذمہ داری اس لیے عائد ہوتی ہے کہ وسائل اور منصوبہ بندی ان کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور قوم کی تعلیم وتربیت بھی ان کی ذمہ داری ہے یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی پاکستان میں ہر طرف منصوبہ بندی کا فقدان ہے 73سالہ قومی زندگی میں ہماری پالیسی ”ڈنگ ٹپاؤ“رہی ہے -دیوار پر صفائی نصف ایمان لکھا ہوتا ہے اور اس کے عین نیچے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا کوڑے دان اور اس کے گردکوڑے کے انبار ہماری حکومتوں ‘سرکاری اداروں اور قومی فکر کا نوحہ بیان کررہے ہوتے ہیں ہم بچوں کے سامنے اپنے گھر کا گند دوسروں کے دروازوں کے سامنے ڈالتے ہیں یا قریب کے خالی پلاٹ میں تو بچوں سے بہتری کی توقع کیسے کرسکتے ہیں کہ وہ بڑے ہوکرملک کے ذمہ دار شہری بنیں گے- عیدالااضحی پر سب سے تکلیف دہ مناظر مساجد ومدارس کے باہر نظرآتے ہیں جنہیں معاشرے کے لیے رول ماڈل ہونا چاہیے وہاں اگر اوجڑیوں اور الائیشوں کے ڈھیر ہونگے تو عام شہری پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونا یقینی ہے نجی چینلزکی جانب سے عید کے دن سے لے کر آج تک مختلف شہروں کے جو مناظردکھائے جارہے ہیں انہیں ٹی وی سکرین پردیکھ کربھی ابکائی آتی ہے مگر آفرین ہے وہاں رہنے والوں پرجو آگے بڑھ کر گندگی پھیلانے والوں کا ہاتھ نہیں روکتے ایسا شاید اس لیے نہیں ہوتا کہ پہلی اوجڑی انہوں نے خود وہاں ڈالی ہوتی ہے لہذا باقی کارثواب سمجھ کر وہیں گندڈالنا شروع کردیتے ہیں انفرادی حیثیت میں بھی قربانی کا چھوٹا ساجانور بھی ہزاروں روپے میں آتا ہے مگر ہم چند سو روپے آلائیشوں اور اوجڑیوں پر خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے -مویشی منڈیوں میں جانوروں کے ریٹس سے بھی ایک بڑا مسلہ ہیں جس کی وجہ سے ہر سال قربانی کے جانوروں کی فروخت میں کمی واقع ہورہی ہے کورونا وائرس کی عالمی وبا سے پہلے سعودی عرب میں ہرسال پچیس سے تیس لاکھ حاجی قربانیاں کرتے تھے اور سعودی حکومت قربانی کے جانور مختلف ممالک سے درآمدکرکے یکساں قیمت پر ہرحاجی کے لیے قربانی کے جانورکی فراہمی یقینی بناتی رہی ہے سعودی عرب دنیا کا 33واں جبکہ پاکستان ساتواں بڑا زرعی ملک ہونے کے باوجود ایسا کرنے میں ناکام ہے دوسری جانب عیدقرباں پرعید الفطراور رمضان بازاروں کی طرح حکومتیں اورانتظامی مشنری کاغذوں میں مستقل اور عارضی مویشی منڈیوں کے لیے اربوں روپے کے فنڈزخرچ کرتی ہیں ان منڈیوں سے بھی اربوں روپے مختلف ٹیکسوں کی مدمیں بھی وصول کیئے جاتے ہیں مگر پورے ملک میں قائم کسی بھی منڈی میں رفع حاجت کے لیے بیت الخلا تک دستیاب نہیں مستقل منڈیوں میں بھی بیوپاریوں نے اپنی مددآپ کے تحت انتظامات کررکھے ہیں ہر سال کی طرح امسال قربانی کے جانوروں کے لیے پورے لاہور میں قائم عارضی منڈیوں اور مستقل منڈیاں سرکاری اہلکاروں کے لیے ”کمائی“کا ذریعہ بنی رہیں کورونا وائرس کے بعد سے تو سرکاری اہلکاروں کی چاندی ہوگئی ہے ایس او پیزپر عمل درآمد کے نام پر ان کی ”آمدن“ملک کی مجموعی آمدنی سے زیادہ نہیں تو برابرضرورہوگی -سبزی اور پھلوں کی منڈیوں میں صورتحال مویشی منڈیوں سے بھی ابترہے میں عموما لاہور کے علاقے علامہ اقبال ٹاؤن میں قائم سبزی اور پھلوں کی منڈی میں خریداری کے لیے جاتا ہوں جہاں ہرطرف بدبو‘ابلتے گٹر اور گندگی کے ڈھیر نظرآتے ہیں گٹروں کا پانی یہاں پورا سال نظرآتا ہے کیونکہ یہ منڈیاں آبادی کے سب سے نشیب والے علاقے میں قائم ہیں لہذا اگر بارش ہوجائے تو بارش اور گٹروں کا پانی مل کر دونوں منڈیوں کے دو سے تین فٹ اونچے تھڑوں تک پہنچ جاتا ہے لہذا کئی روزتک جہاں تک ان منڈیوں سے سبزیاں اور پھل سپلائی ہوتے ہیں شہریوں کو گندے پانی سے آلودہ سبزیاں اور پھل کھانے پڑتے ہیں لاہور کی مرکزی سبزی اور پھل منڈی میں بھی صورتحال اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے مگر حکومتوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی جبکہ ”کافروں“کے ملکوں میں انسا نوں کے حفظان صحت کے قاعدے وقوانین کا موازانہ تو دور جانوروں کے کھانے کی منڈیاں اسلام آباد‘کراچی اور لاہور کے بڑے بڑے شاپنگ مالزسے بہتر نہیں تو کم ازکم ان کے برابر ضرور نظرآتی ہیں کیونکہ وہاں آپ سرکاری اہلکاروں کو رشوت دے کرنہیں بلکہ عملی طور پر قاعدے اور قوانین پر عمل کیئے بغیرکوئی لائسنس یا سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کرسکتے پاکستان میں قائم انسانوں کی اشیاء خوردونوش کی منڈیاں کی حالت کا موازانہ تو شاید افریقی ممالک سے بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے بازی لے جانے کا خدشہ موجود ہے-پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ آج تک کوئی حکومت کرپشن کو ناسورکے لیے”ایس اوپیز“ووضع کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی موجودہ حکومت کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ لے کرمیدان میں اتری لیکن تین سال میں کوئی ایک اقدام بھی ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والی اس دیمک کے خلاف نہیں اٹھایا گیایہ دیمک ملک وقوم کی رگوں میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ عام شہری کا کوئی کام بغیر رشوت کے ہوجائے تواسے یقین نہیں آتا ایسا اس لیے ہے کہ ہمارا پورا انتظامی ڈھانچہ رشوت ستانی کی بنیادوں پر کھڑا ہے پہلے صرف تھانوں کی نیلامی کے چرچے سننے میں آتے تھے اب ہر اس سرکاری ونیم سرکاری ادارے میں پوسٹوں کے ریٹ مقررہیں جن کا واسط براہ راست عوام سے ہو- فوجی حکومتیں ہوں یا سول ہر حکومت کرپشن کے خلاف جنگ کے بلند وبانگ دعوے لے کرآتی ہے اور کرپشن کے الزامات میں لتھڑکراقتدار سے جاتی ہے وزیراعظم عمران خان کی اپنی جماعت کے اراکین پارلیمان یا مشیروں ‘وزیروں کی اکثریت پر کرپشن کے الزامات ہیں لفظ ”الزامات“اس لیے کہ ملک میں رائج کالونیل جمہوری نظام میں کرپشن کو ثابت کرنا ممکن ہی نہیں ہے اور اگر ثابت ہوبھی جائے تو بچ نکلنے کے اتنے چور دروازے موجودہیں کہ شمار ممکن نہیں ایک سرکاری افسرتعیناتی کے پہلے ہفتے ہی رنگے ہاتھوں رشوت لینے کے باجود ایک ماہ بعد اسی پوسٹ پر دوبارہ بحال ہوجاتا ہے ایسی کوئی مثال ایسٹ انڈیا کمپنی کے ووضح کردہ ”جمہوری ماڈل“کے علاوہ دنیا کے کسی نظام میں ملنا ممکن نہیں -چینی کمیونسٹ پارٹی کی صدسالہ تقریب کے سلسلہ میں یکم جولائی کو ایک خطاب میں صدر شی جن پنگ نے کہا تھا کہ چین نے اپنے جمہوری ماڈل سے اس مقام تک پہنچا ہے ‘چین نے اپنے معروضی حالات ‘محل وقوع‘سیاسی وسماجی مسائل کو سامنے رکھ کر شوری پر مشتمل ایک ایسا جمہوری ماڈل مرتب کیا جو اسلامی خلافت کے ماڈل سے قریب تر ہے امریکا کا جمہوری ماڈل بھی ہمارے کالونیل جمہوری ماڈل سے کہیں بہتر ہے مگر ہماری حکمران اشرافیہ ہو یاسول وملٹری افسرشاہی انہوں نے آج تک ہمیں ذہنی ومعاشی غلامی سے آزاد نہیں ہونے دیا-وطن عزیزکا باوا آدم ہمیشہ ہی سے نرالا رہا ہے نصف صدی زائد تک ہم سوچتے رہے کہ ہم ابھی ”بڑے“نہیں ہوئے لہذا ہر طرح کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو ”بچے“کی غلطیاں سمجھ کر نظراندازکیا گیا حتی کہ آدھا ملک گنوا کر بھی ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور آج تک اسی ڈگرپر چل رہے ہیں ہم کسی بھی لحاظ سے چار صوبے نہیں سنبھال پارہے مگر دنیا کے رقبے کے لحاظ سے دنیا کاچوتھا بڑا ملک امریکا 50ریاستوں اور درجنوں براہ راست وفاق کے ماتحت چھوٹے ‘بڑے علاقوں کو سنبھال کربیٹھا ہے اگر امریکا نے بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ”جمہوری ماڈل“کا طوق گلے میں پہنا ہوتا تو آج نجانے کتنے ٹکڑوں میں بٹ چکا ہوتا ایک مثال 2020کے صدارتی انتخابات کے موقع پر دیکھنے میں آئی انتخابات سے پہلے ہی امریکا سیاسی کشیدگی کا شکار ہوا مختلف ریاستوں میں کرفیو‘فوجی اور نیم فوجی دستوں کی تعیناتی ‘انتخابی نتائج پر تنازع سے کیپٹل ہل پر حملے تک کے واقعات تک کے ہلا دینے والے جھٹکے یہ ملک امریکی قوم پرستی کی مظبوط بنیادوں قائم نظام اور اپنے جمہوری ماڈل کی وجہ سے سہہ گیا اگر امریکا کا نظام بھی ہماری طرح کرپشن کی بنیادوں پر کھڑا ہوتا تو امریکا کب کا تاش کے پتوں کی طرح بکھرگیا ہوتا-ہماری سیاسی جماعتیں 1973کے آئین کی مالا جپتی ہیں اور ”نظام“کی بات کرتی ہیں مگرنہ آج تک آئین ڈیلیور کرپایا نہ ہی نظام کیونکہ ہم اکیسویں صدی میں دوسوسال پرانے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نظام سے آج کی دنیا کا مقابلہ کرنے کی ایسی کوشش کررہے ہیں جس کا نتیجہ یقینی ناکامی کے علاوہ کچھ نہیں اب ہم قومی تاریخ کے ایسے فیصلہ کن موڑپر پہنچ چکے ہیں جہاں یہ فیصلہ کرنا ہماری آنے والی نسلوں کی بقاء کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ ملک زیادہ ضروری ہے یاآئین اورنظام؟ کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک بے رحم آپریشن لازم ہوچکا ہے اس ناسور کا زہرہماری رگوں تک پھیل چکا ہے مگر ابھی تک یہ ”جسم“قابل علاج ہے کیا ہم اس کے ”ناقابل علاج “ہونے کے انتظار میں ہیں؟اگر حکمران اشرافیہ اور افسرشاہی اقدامات نہیں بھی کرتی تو عوام کو اس اقلیت کے خلاف پرامن جدوجہد کے لیے نکلنا ہوگاخاموش رہ ظلم سہنے کو دین اسلام بھی گناہ قراردیتا ہے دنیا میں ملکی قومیت کی بناپرترقی کی بنیاد پر رائج نظام کو تو ہم اس کی اصل جگہ یعنی امت کی بنیاد پر لانے کے قابل نہیں ہیں لہذا ہمیں کسی” مسیحا“ کامزید73سال انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ خود اٹھ کراپنے ملک کے لیے موزوں جمہوری ماڈل کی پرامن جدوجہد شروع کرنی چاہیے آج جو قومیں دنیا پرراج کررہی ہیں وہ اس مقام تک اپنی جہد مسلسل سے پہنچی ہیں اگر وہ کسی ”مسیحا“کا انتظار کرتیں تو آج وہ بھی ہماری طرح ذلت ورسوائی کا شکار ہوتیں-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :