امریکا اور افغانستان کی دلدل۔(قسط نمبر5)

جمعہ 30 جولائی 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

اقتدار ہاتھوں سے جاتا دیکھ کر افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو براہ راست مذاکرات کی پیش کش کر دی ہے یہ پیشکش طالبان کے ملک کے بڑے حصے پر قبضے اور نیٹوکے سیکرٹری جنرل کی جانب سے کسی قسم کی مددسے معذوری کے اظہار کے بعد کی گئی ہے جن سے اشرف غنی نے چند روز قبل ہی رابط کیا تھا. افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا کہ ہم طالبان سے براہ راست مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں اور افغانستان کے تنازع کا فوجی حل نہیں ہے انہوں نے کہا کہ لویہ جرگہ نے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کی مثال قائم کی لویہ جرگہ کی جانب سے 5 ہزار طالبان کی رہائی امن کے لیے ہماری کوشش کا ثبوت ہے.

اشرف غنی نے کہا کہ آج کی جنگ خانہ جنگی نہیں بلکہ نیٹ ورکس کی جنگ ہے امریکہ اور نیٹو سے فوجی انخلا کا فیصلہ واپس لینے کو کبھی نہیں کہاانہوں نے کہا کہ ہم امریکہ اور نیٹو کے فوجی انخلا کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اب افغان عوام کو مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہیے. دوسری جانب عبدالغنی برادر کی سربراہی میں افغان طالبان کے وفد نے چین کا دورہ کیا افغان طالبان کے وفد نے چینی وزیر خارجہ سے ملاقات بھی کی ملاقات میں افغانستان کی موجودہ صورت حال اور امن عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا برسلزمیں موجود معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کے سیکرٹری جنرل جینزاسٹولنٹبرگ نے ٹوئٹرپیغام میں ایک مرتبہ پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے تنازع طے کیا جائے.

بیان میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ جنگ زدہ ملک میں غیرملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد سیکورٹی کی صورت حال بہت ہی چیلنج والی بن چکی ہے جینزاسٹولنٹبرگ نے اپنے بیان میں لکھا ہے کہ افغانستان میں سیکورٹی کی نازک صورتحال کے پیش نظر مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کے حل کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ نیٹو اتحاد افغانستان کی فنڈنگ ، سویلین موجودگی اور بیرون ملک فوجیوں کی تربیت سمیت معاونت جاری رکھے گا نیٹو چیف نے افغان صدراشرف غنی سے ٹیلی فون پر بات چیت بھی کی ہے جس میں افغانستان کی تازہ صورتحال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا ہے اگرچہ اشرف غنی امریکا یا نیٹو سے مددمانگنے سے انکاری ہیں لیکن ایک امریکی جریدے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان صدر کی جانب سے واشنگٹن اور نیٹو سے فوجی مددفراہم کرنے کی بارہا درخواست کی گئی ہے مگردونوں فریقین نے اشرف غنی حکومت کو مددفراہم کرنے سے انکار کردیا ہے رپورٹ کے مطابق بڑی فوجی طاقتوں سے مایوسی کے بعد اشرف غنی طالبان کو براہ راست مذکرات کی پیشکش کررہے ہیں جبکہ گزشتہ سال وہ دوحہ میں منعقدہ مذکرات میں بھی شامل ہونے کے لیے تیار نہیں ہوئے تھے.

افغان امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اشرف غنی اور ان کی حکومت میں شامل کئی وزیروں نے صدر ٹرمپ کو ورغلا کر کیمپ ڈیوڈ مذکرات کو عین موقع پر منسوخ کروادیا تھا اشرف غنی ‘بھارت اور امریکی محکمہ دفاع کے کچھ عہدیدران نے ڈونلڈ ٹرمپ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ امریکا فاتح بن کر افغانستان سے نکلے گا لہذا وہ فتح کو معاہدے پر دستخط کرکے شکست میں نہ بدلیں.

ماہرین کا کہنا ہے یہ واضح ہوچکا ہے کہ اشرف غنی حکومت نے اپنے اقتدار کی خاطر معاہدے کو موخرکروایا یہی وجہ ہے کہ آج پینٹاگان یا وائٹ ہاؤس ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں انہوں نے کہا کہ اگر اشرف غنی نیک نیتی سے 2018یا2019لویہ جرگہ منعقدکرکے معاملے کا حل نکالنے کی کوشش کرتے تو انہیں آج سبکی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کل تک اشرف غنی اور ان کی حکومت نئی دہلی کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا رہے تھے اور بھارتی خفیہ اداروں کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے اڈاے فراہم کررہے تھے آج جب امریکی وزارت دفاع اور خفیہ ادارے ان کی حکومت کی رخصتی کی تاریخیں دے رہے ہیں تو کبھی وہ پاکستان سے مدد مانگ رہے ہیں‘کبھی ترکی‘نیٹو اور امریکا سے.

طالبان کے سیاسی دفتر دوحہ کے انتہائی معتبر ذرائع نے ”اردوپوائنٹ“کو بتایا کہ افغان طالبان اگست تک امریکہ کے درمیان مفاہمت ہے کہ وہ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ نہیں کریں گے یہی وجہ ہے کہ طالبان ملک کے اسی فیصد سے زائدعلاقے پر قابض ہیں مگر ابھی تک انہوں نے کسی بڑے شہر پر قبضہ نہیں کیاستمبر میں ایک بڑی تبدیلی کی شروع ہوگی اور کابل میں ”قومی حکومت“قائم ہوگی اس حکومت کو ایرانی طرزکے شوری نظام کے ذریعے چلایا جائے گا .

ملا برادر کی سربراہی طالبان کے اعلی سطحی وفد کا حالیہ دورہ چین اور چینی قیادت سے ملاقاتوں پر کابل کی اشرف غنی حکومت اور واشنگٹن کو شدید تشویش ہے دوحہ سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ طالبان قیادت کی جانب سے چین کو یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ افغان سرزمین چین مخالف تحریکیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ملاقات کے بعد چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بیجنگ امید کرتا ہے کہ افغان طالبان اس تنظیم اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے اپنے راستے بالکل جدا کرلیں گے ہم امید ہے کہ طالبان افغانستان کے قومی مفاد کو ترجیح دیں گے اور امن مذاکرات کا وعدہ برقرار رکھیں گے اور امن کے مقصد کو اپنائیں گے، اپنا مثبت تاثر بنائیں گے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی سیاست اختیار کریں گے .

چینی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے تجزیات اور تبصروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان میں بدلتی صورتِ حال اور بالخصوص طالبان کی پیش قدمی کو چین میں کس انداز سے دیکھا جا رہا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کی حالیہ صورتِ حال میں چین کے لیے خطرات اور مواقع دونوں پوشیدہ ہیں اور اپنے داخلی حالات اور معاشی مفادات کی وجہ سے خطے میں استحکام بیجنگ کی ضرورت ہے چین اپنے بین الاقوامی معاشی و تجارتی منصوبے ”بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو“ کو افغانستان اور اس کے ذریعے پورے وسطی ایشیا تک وسعت دینا چاہتا ہے جس کے لیے لامحالہ کابل میں ایک معاون اور مستحکم حکومت ہونا ضروری ہے ماہرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے انخلا کے بعد جنم لینے والی صورتِ حال میں چین افغانستان کے کسی مقامی فریق کے پلڑے میں اپنا سارا وزن نہیں ڈالنا چاہتا.

یورپ کے معروف نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین کو یقین ہے کہ کابل میں طالبان کی حکومت بنے گی افغانستان کے ساتھ چین کی صرف 76 کلومیٹر طویل سرحد ہے دنیا کے قدیم ترین بین الاقوامی تجارتی راستوں میں شامل شاہراہِ ریشم یا سلک روڈ بھی افغانستان ہی سے ہوکر گزرتی تھی اور اسی راستے سے بدھ مت چین اور جاپان تک پہنچا تھاافغانستان 1885 میں چین کا پڑوسی بنا جب اس وقت کی دو بڑی عالمی قوتوں روس اور برطانیہ کے درمیان ہونے والی حد بندی کے نتیجے میں واخان راہداری وجود میں آئی.

یہ مختصر زمینی پٹی افغانستان کو چین، تاجکستان اور پاکستان سے ملاتی ہے چین کو ہمیشہ سے افغانستان کی جانب سے خطرات لاحق رہے ہیں چین کو کبھی افغانستان میں حریف ممالک کی فوجی قوت سے تشویش رہی ہے تو وہاں کبھی عسکری تنظیموں سے متعلق خدشات کا سامنا رہا ہے تاہم بیس سال پہلے طالبان حکومت کے آخری دنوں میں چین اور طالبان کے درمیان کئی انفاسٹریکچر کے کئی معاہدے ہوئے تھے .

گزشتہ دہائیوں میں آنے والی تبدیلیوں کے باعث افغانستان مسلسل چین کے لیے اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے یکم اکتوبر 1949 کو جب ماؤزے تنگ نے ”عوامی جمہوریہ چین“ کے قیام کا اعلان کیا تھا تو افغانستان نے چند ماہ بعد ہی جنوری 1950 میں اسے تسلیم کرلیا تھا افغانستان نے عوامی جمہوریہ چین کو جلد تسلیم کرلیا تھا لیکن چین نے افغانستان سے تعلقات بڑھانے میں سست روی دکھائی اور 1955 میں دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہوئے .

مستقبل میں بیجنگ‘ماسکو ‘تہران اور اسلام آباد کے درمیان ایک بڑا علاقائی اتحاد بنتا نظرآرہا ہے جس میں کئی مغربی طاقتوں کی شرکت کا امکان ہے پاکستان سے1960کی دہائی میں ”شاہین ایکسپریس “کے نام سے ایران اورترکی کے راستے بریڈفورڈ برطانیہ جاتی تھی 12دن کے اس سفر میں یہ بس کئی ملکوں سے ہوتی ہوئی روالپنڈی سے بریڈ فورڈ60پاؤنڈ کے دو طرفہ ٹکٹ میں مہینے میں چار سے چھ بسیں چلتی تھیں اسلام آباد‘بیجنگ‘تہران اور ماسکو اس روٹ کو بھی بحال کرنا چاہتے ہیں اس روٹ سے مشرق وسطی اور افریقہ تک رسائی حاصل کی جاسکتی تھی یہ روٹ چین کے لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ایران کے راستے تین براعظموں تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے اسی طرح ایک دوسرا روٹ پاکستان سے افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں اور مشرقی یورپ تک رسائی کے لیے تجارتی روٹ بنانا ہے -----جاری ہے�

(جاری ہے)


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :