شرم تم کو مگر نہیں آتی--

ہفتہ 31 جولائی 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

وفاقی حکومت کے وزیرپیٹرولیم مصنوعات سمیت ملک میں اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا دفاع جس بھونڈے اندازمیں کررہے ہیں وہ شرمناک ہی نہیں بلکہ قابل مذمت ہے وفاقی کابینہ کے اراکین انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے حکومت کی ناکامیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہتے سنائی دیتے ہیں کہ کھانے پینے کی اشیاء سے لے کربجلی‘گیس‘تیل وغیرہ کی قیمتیں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہیں - ہماری حکومتی اشرافیہ چونکہ امریکی ڈالروں اور برطانوی پاؤنڈزمیں سوچتی ہے تو ممکن ہے وزیروں ‘مشیروں نے بھی ڈالروں اور پاؤنڈ میں جمع تفریق کرکے بیان داغے ہوں موجودہ کابینہ میں بڑی تعداد ڈالروں اور پاؤنڈ اسٹرلنگ میں پلنے بڑھنے والوں کی ہے اس لیے قوی امکان ہے کہ انہوں نے قیمتوں کا تقابل پاکستانی روپے کی بجائے ان ملکوں کی کرنسی سے کیا ہو جہاں وہ پلے ‘بڑھے - وزیراعظم عمران خان کا زیادہ وقت پاکستان میں گزرا اور بلاشبہ وہ ایک مخلص انسان ہیں مگر کیا وہ اپنی کابینہ کی کارگزاری اور بیانات پر بھی نظررکھتے ہیں؟پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ہر حکومت میں مختلف ”کوٹوں“سے وزیرآتے ہیں یہاں بھی وزیروں ‘مشیروں کی بونگیاں اور نالائقی پکڑی جاتی ہے کہ وہ پاؤنڈ اور ڈالر میں سوچتے ضرور ہیں مگر آئی کیو لیول اوسط سے بھی کم رکھتے ہیں - قیمتوں کا تقابل ڈالروں میں کیا جاتا ہے جبکہ عام پاکستانی اس روپے میں کماتا ہے جس کی قدر گھنٹوں کے حساب سے کم ہوتی ہے اب ہمسایہ ممالک کا جائزہ لیتے ہیں چین میں ڈالر کی قدر6اعشاریہ 46ین ‘روسی روبل 73اعشاریہ 15‘بھارتی روپیہ74 اعشاریہ 38پیسے‘بنگلہ دیشی ٹکا84اعشاریہ89 یہاں تک کہ افغانستانی کرنسی ہمارے روپے سے تگڑی ہے جس کی قدر79اعشاریہ82افغانی ہے تو وفاقی کابینہ کے اراکین کس خطے سے تقابل کرتے ہیں؟ وہ خط جس میں پاکستان واقع ہے یا جہاں ان خطوں کی جن میں وہ پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ؟ اگر اس خطے کی بات کی جائے جہاں فزیکلی پاکستان واقع ہے تو ڈالر کی خطے کے ممالک کی کرنسیوں کے مقابلے میں قدرکے اعدادوشمار 31جولائی کے ہیں جس وقت یہ تحریرلکھی جارہی ہے - ان ملکوں میں مہنگائی کی شرح کے اعدادوشمار بھی باآسانی گوگل پر سرچ کیئے جاسکتے ہیں مگر ہماری بیوروکریسی کی ذہنیت اور سوچ جمود کا شکار ہے وہ1947سے آج تک ایک ہی ہے ان کے نزدیک عوام ہر اس بات پر یقین کرلیں گے جو وہ اپنی بے ہودہ اور سطحی قسم کی سمریوں میں لکھ کر وزارتوں کو بجھواتے ہیں اور وزارتوں میں بیٹھے ”طوطے“عوام کے سامنے ان سمریوں کو دہرادیتے ہیں ہماری حکومتی اشرافیہ کی سوچ بھی ایک جگہ پر رکی ہوئی ہے افسرشاہی کی طرح کہ عوام کے پاس کاؤنٹرچیک کے لیے کون سے ذرائع موجود ہیں لہذا ہم جو کہیں گے وہ آنکھیں بند کرکے اعتبار کرلیں گے- اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکمران اشرافیہ اور افسرشاہی عوام کو اتنا بیوقوف کیوں سمجھتے ہیں ؟اس کا جواب ہے کالونیل عہد کی ذہنیت ‘جی ہاں ہماری سول سروس‘ملٹری اور عدلیہ کی اکیڈیموں میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اور تربیت دی جاتی ہے وہ تاج برطانیہ کی مرتب کردہ ہے یعنی ڈیڑھ سے پونے دوسوسال پرانی ہماری حکومتی اشرافیہ اور سیاسی قیادت بھی آج تک تاج برطانیہ کی عطا کردہ سوچ سے نجات حاصل نہیں کرپائی بلکہ شاہی جاہ وجلال کے تڑکے سے اس سوچ میں وقت کے ساتھ مزید تنزلی آئی- یہ کامن سینس کی بات ہے کہ عام پاکستانی شہری کی آمدن پاکستانی کرنسی میں ہے ہماری کرنسی امریکی ڈالرنہیں جیسا کہ حکمران اشرافیہ سمجھتی ہے کیونکہ حکومت میں آتے ہی افسرشاہی سب سے پہلے ان کا رابط عوام سے کاٹتی ہے تاکہ انہیں زمینی حقائق کا کبھی علم نہ ہوسکے اور وہ سیکشن افسروں کی بنائی سمریوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتے جائیں میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ بیوروکریسی کے ان ”افلاطونوں“کے آئی کیولیول ٹیسٹ کروائے جائیں تو اکثریت اوسط سے بھی کم والوں کی نکلے گی -وفاقی ادارہ شماریات کی تازہ ترین ہفتہ وار رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی کی قیمت ایک روپے 55 پیسے فی کلوبڑھ گئی ہے جس کے بعد ملک میں چینی کی اوسط قیمت 105 روپے24 پیسے فی کلوتک پہنچ گئی ہے‘ 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت میں 6 روپے 58 پیسے کا اضافہ ہوا ہے‘اڑھائی کلو گھی کے ڈبے کی قیمت 20 روپے 57 پیسے بڑھی ہے جب کہ تیل کی قیمت میں بھی 20 روپے کا اضافہ ہوا ہے‘بکرے کے گوشت کی قیمت میں ایک ہفتے میں 2 روپے 24 پیسے فی کلو کا اضافہ ہوا ہے جب کہ ٹماٹر4 روپے 46 پیسے فی کلو ، پیاز ایک روپے 5 پیسے فی کلو اور انڈے پانچ روپے 56 پیسے فی درجن مہنگے ہوئے ہیں‘ پیٹرول 5 روپے 38 پیسے اورڈیزل 2 روپے64 پیسے فی لیٹرمہنگا ہوا ہے ایک ہفتے میں ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 172 روپے 11 پیسے مہنگا ہوگیا ہے‘ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چاول، بیف، گڑ، دال مسور، دودھ اور دہی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ مجموعی طور پر 15 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا یہاں ایک بات نوٹ کرلی جائے کہ سہ ماہی کی بجائے وفاقی ادارہ شماریات اب ہفتہ وار رپورٹ جاری کرتا ہے یعنی ضرورت کی تمام اشیاء کی قیمتوں میں ہفتہ وار ردوبدل ہورہا ہے سرکاری ادارے کے مطابق جبکہ مارکیٹ کو دیکھا جائے تو گھنٹوں کے حساب سے قیمتوں میں ردوبدل ہورہا ہے- پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن بڑے پیمانے پر کھانے پینے کی اشیا درآمد کر رہا ہے وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے آٹھ ماہ میں حکومت نے کھانے پینے کی اشیاء کی درآمد پر867ارب روپے خرچ کیئے جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 56.48 فیصد زیادہ ہیں‘ اعداد و شمار کے تحت گزشتہ سال جولائی تا فروری کے درمیانی عرصے میں کھانے پینے کی اشیاء کی درآمد پر 554 ارب14کروڑ 40لاکھ روپے خرچ کیئے گئے تھے جولائی تا فروری چینی کی درآمد میں 6 ہزار فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا اور اسی عرصے میں 20 ارب 63 کروڑ 50 لاکھ روپے کی چینی درآمد کی گئی جب کہ گزشتہ سال اسی عرصے میں 33 کروڑ 40 روپے کی چینی درآمد کی گئی تھی۔

(جاری ہے)

وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی تا فروری147 ارب 26 کروڑ30 لاکھ روپے کی گندم درآمد کی گئی جب کہ گزشتہ سال اس عرصے میں گندم کی درآمد نہیں ہوئی تھی ‘8 ماہ میں 257 ارب 44 کروڑ 60 لاکھ روپے کا خوردنی تیل درآمد کیا گیا جب کہ گزشتہ سال اسی عرصے میں 184 ارب 24 کروڑ 90 لاکھ روپے کا خودرنی تیل درآمد کیا گیا تھا‘ مصالحہ جات کی درآمد میں 36.76 فیصد جب کہ چائے کی درآمد میں 22.11 فیصد اضافہ ہوا اور جولائی تا فروری 61 ارب 72 کروڑ روپے کی چائے درآمد کی گئی ہے مالی سال کے 8 ماہ میں 61 ارب 40 کروڑ 80 لاکھ روپے کی دالیں درآمد کی گئیں جب کہ گزشتہ سال اسی عرصے میں 58 ارب43 کروڑ40 لاکھ روپے کی دالیں درآمد کی گئی تھیں۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کا آٹھواں بڑا زرعی ملک چینی‘گندم اور دالیں درآمدکرنے پر مجبور کیوں ہے جبکہ چند دہائیاں قبل ہم یہ اجناس برآمد کیا کرتے تھے 1980کی دہائی میں زرعی زمینوں پر رہائشی کالونیاں بنانے کا چلن عام ہوا بدقسمتی سے پنجاب میں اس بربادی کا سہرا شریف بردران کے سرجاتا ہے مشرف کی آمریت کے دور میں یہ اپنے عروج تک جاپہنچاآباد زرعی رہائشی کالونیاں نگلتی جارہی ہیں مگر حکمران اور منصوبہ سازخاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ایک تحقیقی مقالے کے لیے چند سال قبل مجھے پنجاب کے آبادزرعی رقبے کے اعدادوشمار کی ضرورت تھی محکمہ زراعت‘خوراک‘مال‘آبپاشی سب سے رابط کیا مگر سب کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ اس قسم کے اعدادوشمار کا انہیں کوئی علم نہیں پھر ایک دوست کام آئے وہ ایک عالمی مالیاتی ادارے کے ملازم رہے ہیں جو پنجاب کے محکمہ زراعت کے ساتھ زرعی ترقی میں معاونت کے منصوبوں پر کام کرتا تھا ان سے کچھ غیرسرکاری اعدادوشمار ملے جن کے مطابق آج سے ایک دہائی قبل صرف صوبہ پنجاب میں سالانہ37ہزارایکٹرآباد زرعی رقبہ رہائشی کالونیوں کی نذرہورہا تھا-موجودہ حکومت اور وزیراعظم عمران خان بھی زمینوں کے درپے نظرآتے ہیں شہبازشریف کی وزارت اعلی کے دور میں دریائے راوی کے دونوں کناروں پر ایک نیا شہربسانے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا اب تحریک انصاف کی حکومت نے اسی منصوبے کا دوبارہ اعلان کردیا ہے لاہور شہر جو پہلے ہی ڈیڑھ سو مربع کلومیٹر تک پھیل چکا ہے اس کے گرد پچھلے30سالوں میں بننے والی رہائشی کالونیاں لاکھوں ایکٹرزرخیززرعی رقبہ اور ہزاروں دیہات نگل چکی ہیں ایسے میں راوی کے کناروں پر رہائشی منصوبہ لاہور کے ”ڈیتھ وارنٹ“پر دستخط ہوگا اگر حکومت میں تھوڑی سی بھی سمجھ بوجھ ہے تو اس منصوبے کو ”اربن گارڈن“کے منصوبے میں بدل دیا جائے اور اسے لاہورکو سبزیوں ‘پھل دار درختوں اور دودھ وگوشت کی سپلائی کا ہب بنادیا جائے -صرف لاہور یا پنجاب ہی نہیں پورے ملک میں ہمیں حکمران اشرافیہ کی سرپرستی میں لینڈمافیا دھندناتا نظرآتا ہے جو پاکستان کی زرخیززرعی زمینوں کو اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے مستقل طور پر برباد کررہا ہے حال ہی ملتان میں آموں کے باغات کی بڑے پیمانے پر کٹائی کی تصاویر اور ویڈیوزسامنے آئیں اگر یہ معاملہ عدالت میں نہ جاتا تو کسی کو کانوں کان خبربھی نہ ہوتی اعلی عدلیہ سے دست بدستہ درخواست ہے کہ اس پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے سارے صوبوں سے جواب طلبی کی جائے کہ کتنا زرعی رقبہ کالونیوں کی نذرہوا؟کتنے جنگلات برباد ہوئے ؟دالوں کی پیدوار کے علاقوں کے کسان دوسری اجناس کی پیدوار پر مجبور کیوں ہوئے؟دالوں کی پیدوار کے علاقوں میں اضافہ کیوں نہیں کیا گیا؟منصوبہ سازی کے ذمہ دار محکموں نے اپنی ذمہ داریاں کیوں پوری نہیں کیں؟ یاد رکھیں اگرآج ہم نے آگے بڑھ کر ان مافیازاور کارٹیلز کے ہاتھ نہیں روکے تو ہماری آنے والی نسلیں بھوک سے بلک بلک کر مرجائیں گی رہی حکمران اشرافیہ یا افسرشاہی تو یہ اپنے بریف کیس اٹھا کر اختیاری ملکوں کی راہ لیں گے اگر اعلی عدلیہ ازخو دنوٹس نہیں لیتی تو ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے خود نہ صرف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکانا ہوگا بلکہ ہر شہری وزیراعظم اور اپنے حلقے کے اراکین پارلیمان کو خطوط لکھے -

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :