کشمیر بزور شمشیر کا مرحلہ آن پہنچا

بدھ 5 اگست 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 کشمیر سے متعلق پانچ اگست کے مکروہ اقدام کو گزرے آج ایک سال مکمل ہوگیا ہے‘ پوری دنیا کشمیری عوام کے ساتھ ہے‘ پاکستان یوم مذمت منائے گا کہ موذی مودی نے پاکستان کی شہ رگ پر کاری وار کرکے اسے کاٹ دیا ہے مگر بات یہیں تک محدود نہیں ہے اب فیصلہ کن گھڑی آن پہنچی ہے کشمیریوں اور پاکستان کا کڑا امتحان ہے کمزوری دکھائی تو ذلت و رسوائی اورپسپائی ہمیں پاتال میں لے جائیگی۔

یہ وزیراعظم عمران خان اور سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی ذمہ داری ہے کہ اس نازک مرحلے پر قوم کو مایوس نہ کریں اور حتمی اقدام کی تیاری کریں مودی سرکار کا کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ اچانک تو نہیں ہوا کئی ہفتوں سے وہ کشمیر میں تازہ دم دستے تعینات کررہے تھے، آثار بتا رہے تھے کہ وہ کوئی خوفناک قدم اٹھانے جارہے ہیں۔

(جاری ہے)

ہماری وزارت خارجہ کہاں ہے ہمیں ”کامیاب سفارتکاری“ کا لالی پاپ دے کر بہلایا جاتا ررہے گا بنیا مذمت سے نہیں مرمت سے ٹھیک ہوگاہم اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسے، بصیرت اور اتحاد کی دولت سے فتح وکامرانی کی نئی تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔

مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی آئین میں درج آرٹیکل 370 کو ختم کردیاگیا ہے جموں وکشمیر اور لداخ کو الگ کردیاگیا ہے۔ جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی ہوگی لیکن لداخ اس حق سے محروم رہے گا۔ اسے بھارتی وفاق سے نتھی کرکے ’یونین ٹیریٹری‘ کا درجہ دیا گیا ہے ایک سال سے اب سری نگر میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہے اورخوف وہراس پھیلایا جاتا ہے جو بل راجیہ سبھا یا بھارتی ایوان بالا میں پیش کیا گیا ہے اس میں تحریر ہے کہ لداخ ڈویژن ریاست جموں وکشمیر کا بڑا حصہ ہے جو کم آباد ہے۔

اسے وفاقی علاقے کا درجہ دیاجارہا ہے۔ اس کی اسمبلی نہیں ہوگی۔ جموں وکشمیر کی الگ حیثیت رہے گی جس کی مقننہ یا اسمبلی ہوگی۔370 آرٹیکل کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کا بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کیاگیا تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت جموں وکشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی، اس کا آئین، الگ پرچم اور مجلس قانون ساز دی گئی تھی۔ آرٹیکل 35اے 1954ء میں بھارتی صدارتی فرمان کے تحت داخل کیاگیا تھا جس کے تحت مقبوضہ وادی میں جائیداد کی خریدوفروخت پر شرائط عائد کی گئی تھیں اس آرٹیکل کے تحت کوئی غیر ریاستی یعنی کشمیر کے قدیمی باشندوں کے سوا باہر کا فرد نہ جائیداد خرید سکتا تھا نہ اس کے نام پر کوئی جائیداد یا اراضی منتقل کی جاسکتی ہے۔

اس کے علاوہ کوئی غیرریاستی باشندہ باہر سے آکر مقبوضہ جموں وکشمیر میں آباد نہیں ہوسکتا۔ مقامی باشندوں کو وظائف کی فراہمی بھی اس آرٹیکل کے ذریعے مشروط کی گئی تھی۔ ماضی میں بھارت نے جب غیرمقامی ہندوو?ں کو مقبوضہ وادی میں آباد کرنے کی کوشش کی تھی تو پاکستان کی شکایت پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں کے ذریعے اس پر پابندی لگادی تھی اور قرار دیاتھا کہ جموں وکشمیر متنازعہ علاقہ ہے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت یہاں اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے انعقاد تک آبادی کے تناسب میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔

سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت کشمیر کے رہنے والے عوام نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کیلئے کیا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں سے وہ کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں یا پھر اپنے مستقبل کے لئے کوئی اور فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ اسے کشمیریوں کا جمہوری حق تسلیم کیاجاتا ہے۔لداخ، گلگت اور بلتسان کشمیر کا حصہ تھا۔ گلگت نے اپنی تحریک شروع کی۔

1948ء کی جنگ میں آزاد کشمیر آزاد ہوا اور لداخ بھارت کے پاس رہ گیا۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی لداخ کو جموں اور کشمیر سے الگ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جنگ کے نتیجے میں وہ اس حکمت عملی کے ذریعے لداخ کا علاقہ بدستور اپنے زیر قبضہ رکھ سکے۔لداخ کوہ قراقرم کے سلسلہ سے عظیم ہمالیہ تک پھیلے برفیلے سیاچن کے ساتھ واقع خوبصورت خطہ ہے جسے ’بلند دروں‘ کی سرزمین کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

یہاں انڈوآرین اور تبت نژاد آباد ہیں۔ جموں وکشمیر کا کم آباد خطہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ثقافت تبت سے زیادہ منسلک بتائی جاتی ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ بلتستان کا حصہ ہے جو پاکستان کا حصہ ہے۔اس کا حصہ چینی خطہ سنکیانگ سے بھی جڑا ہے۔عکسائی چِن کا علاقہ بھارت اور چین کے درمیان متنازعہ ہے قانونی ماہرین کے مطابق بھارت کے اس اقدام سے تنازعہ کشمیر کی قانونی حیثیت ختم نہیں ہوتی۔

یہ ایک مسلمہ عالمی تنازعہ ہے جس میں تین فریقین کو تمام عالمی دستاویزات میں تسلیم کیاگیا ہے۔ ایک طرف پاکستان، دوسری جانب بھارت اور اس تنازعہ کے سب سے اہم فریق کشمیری عوام ہیں۔ اس مسئلہ پر نہ صرف عالمی قراردادیں موجود ہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ معاہدات بھی شامل ہیں جن مین شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور بھی موجود ہے۔ جن میں خود بھارت نے تسلیم کررکھا ہے کہ یہ ایک متنازعہ معاملہ ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :