سترہ اگست پھر آرہا ہے

منگل 11 اگست 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

بالکل ان دنوں جیسا ہی موسم تھا جنرل ضیاء الحق کا دور کا عروج تھا ‘ لیکن طالب علموں، خواتین، وکیلوں اور سیاستدانوں کے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ اختلاف بڑھتے گئے محمد خان جونیجو حکومت کی برطرفی کو ابھی کوئی تین چار ماہ ہی ہوئے تھے‘ ملک میں بحران ضرور تھا مگر جنرل ضیاء الحق کا اعتماد تھا کہ وہ اس بحران کو حل کرلیں گے‘ آئی جے آئی کا سیاسی اتحاد اس وقت وجود میں نہیں آیا تھا اور پیلزپارٹی بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے بعد متحد ہورہی تھی اور نئی صف بندی کر رہی تھی‘ جنیوا معاہدہ ہوچکا تھا‘ یہی وہ معاہدہ تھا جس نے جنرل ضیاء الحق اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے مابین دوریاں پیدا کیں جنرل ضیاء الحق پانچ جولائی 1977 کو ایک فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار میں آئے اور انہوں نے اس ملک پر تقریباً گیارہ سال حکومت کی‘ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو پاکستان قومی اتحاد نے اپنے لیے سیاسی رحمت سمجھا اور پیپلزپارٹی کے ہر سیاسی مخالف نے اپنے لیے اسے نجات دھندہ خیال کیا‘ 1979میں افغانستان میں روسی مداخلت ہوئی اور روس نے اپنی فوج افغانستان میں داخل کردی‘ اورنور محمد ترکئی کو افغانستان کا صدر بنادیا گیا جب جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو حادثہ پیش آیا تو اس وقت ڈاکٹر نجیب اللہ افغانستان کے صدر تھے‘ یہ وہ وقت تھا کہ افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلاء کے لیے معاہدہ ہوچکا تھا لیکن افغانستان میں خانہ جنگی کی کیفیت تھی‘ جہاد افغانستان کے پورے دور میں روس کے خلاف مزاحمت میں جنرل ضیاء الحق اور اس وقت کی آئی ایس آئی کا کردارتاریخ کا حصہ ہے‘ سیاست میں جس طرح پیپلزپارٹی کے لیے یہ بات کی جاتی ہے کہ بھٹو کی سیاسی میراث ہے پورا سچ یہ ہے کہ اس وقت ملک میں دو ہی سیاسی میراث ہیں ایک بھٹو کی اور دوسری جنرل ضیاء الحق کی‘ نواز شریف بھی ضیاء الحق کی سیاسی میراث ہیں‘ بھٹو اور ضیاء الحق کی سیاسی میراث میں فرق یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی جگہ پر کھڑی ہے اور ضیا ء الحق کی سیاسی میراث بکھر چکی ہے ضیاء الحق کی سیاسی میراث مختلف سیاسی جماعتوں میں موجود پانہ لیے ہوئے ہے مسلم لیگ(ضیاء) کے سربراہ اور جنرل ضیاء الحق کے صاحب زادے اعجاز الحق‘ ضیاء الحق کی سیاسی میراث کو سنبھالے ہوئے ہیں‘ باقی سب نے اپنی اپنی راہ لے لی ہے ضیاء الحق کی سیاسی میراث کا بڑا حصہ نواز شریف کے پاس چلا گیا مگر اب نواز شریف بھی نئی راہ اپنا چکے ہیں اسی راہ نے انہیں اسلام آباد سے پہلے جدہ اور اب لندن پہنچایا ہے‘ نواز شریف اس ملک کا بہت بڑا سیاسی سرمایہ بن سکتے تھے اگر وہ اپنی نظریاتی بنیاد نہ چھوڑتے تو آج بھی اسلام آباد کا تخت ان کا ہی ہوتا‘ یہ ملک سب کچھ برداشت کر سکتا ہے مگر آئین میں جن اداروں کو تحفظ دیا گیا ہے ان کے خلاف کچھ بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا‘ بس یہی غلطی نواز شریف سے ہوئی اور وہ اپنی سیاست کے بحران کا شکار ہوئے‘ جنرل ضیا الحق کے سیاسی مخالفین کا موقف ہے کہ انہوں نے ملک کا سیاسی نظام تباہ کرکے رکھ دیا 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں انہوں نے ایک ایسی پود تیار کی جو ترقیاتی فنڈز کے کمیشن سے اپنی سیاسی راجد ھانی مضبوط بناتی رہے‘ یہی پود آج بھی کسی نہ کسی شکل میں اور ہر سیاسی جماعت میں موجود ہے‘ قومی اسمبلی کے تین سو بیالیس ارکان میں نصف تعداد ان کی ہے جنہیں ہر انتخاب میں کسی نئی سیاسی جماعت کا ٹکٹ چاہیے ہوتا ہے‘ سیاست میں کرپشن، کمیشن اور اجارہ داری جنرل ضیا الحق کے دور میں عام ہوئی سیاسی جماعتیں کمزور اور انتخابی گھوڑے مضبوط ہو گئے اور عوام تقسیم ہوئے ہیروئین اور کلاشنکوف جیسی وبائیں ان کے دور میں آئی‘ لیکن ان کے ہامیوں کا موقف ہے کہ انہوں نے ملک میں اسلام کے عملی نفاذ کی کوشش کی نظام صلوة اور زکوة کا نظام نافذ کیا‘ شرعی عدالتیں قائم کیں عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ بڑی قوت کے ساتھ لڑا‘ اور ایسی حکمت عملی بنائی کہ روس جیسی قوت افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوئی‘ یہ دونوں موقف ایسے ہیں کہ انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :