اپوزیشن حکومت کی مدت پوری کرنے کی روایت ختم کرنے کے درپے

جمعرات 17 اکتوبر 2019

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

سابقہ وزیر اعظم کو جب عدالت عالیہ کی طرف سے آئین پاکستان میں درج دفعہ ۶۲۔۶۳ کے تحت امین وصادق نہ ہونے پر ملکی سیاست سے تاحیات نا اہل ہونے کی سزا سنائی تھی تو اس فیصلہ کو نہ مانتے ہوئے انہوں نے ایک سلوگن عام کیا تھا کہ ” مجھے کیوں نکالا گیا“ سارے ملک میں مظاہروں اور ریلیاں اور جلسے کر کے، اپنے ہی ملک کی فوج اور عدلیہ کو بدنام کر کے ہنگامہ کھڑا کیا تھا۔

آپ نے کہا کہ مقتدر حلقوں نے ۷۰ سالوں سے پاکستان کے کسی بھی وزیر اعظم کو پانچ سال کی مدت حکمرانی نہیں کرنے دی۔کوئی نہ کوئی الزام لگا کر عوام کے منتخب شدہ ویر اعظموں کوحق حکمرانی سے ناجائز طریقے سے ہٹا دیا گیا۔ آپ نے ملک کے دو ٹکڑے کرنے والے غدار پاکستان مجیب کو بھی مظلوم بنا دیا تھا۔ ملک کے خیر خواہ عناصرنے اسے سنجیدگی سے لیا اور یہ سوچنے پر مجبور ہوئے اور اپنے تجزیوں میں تبصرے کرتے رہے کہ ایسا کیوں ہوا اور آیندہ کیا ہونا چاہیے ،کہ ملک سیاست کی گاڑی اپنی صحیح سمت چلتی رہے۔

(جاری ہے)

۔ کوئی بھی کسی کو ناجائز نہ نکالے۔جیت کے آنے والا وزیر اعظم اپنی مدت حکمرانی پوری کرے۔ان تجزیوں میں ایک بات ہر کسی نے لکھی کہ ملک کے الیکشن کے نظام کو سیاست دان کیوں نہیں ایسا بناتے کہ جو جیت کر پارلیمنٹ میں آئے اسے اپنی مدت پوری کرنے کا موقعہ ملے۔ ہارے والا اس پر واویلا نہ کرے اور ملک میں اختلافات کو ہوا نہ دی جائے۔ جیتنے والا ملک کی ترقی میں یک سو ہو کر کام کرے۔

اپوزیشن اس حکومت کے غلط کاموں پر حق اختلاف صحیح طریقے سے استعمال کرے۔ سیاست کی گاڑی صحیح سمت پر چلتی رہے۔اس میں پہلا کام ملک کی الیکشن کے نظام میں تبدیلی لانا ہے۔ پڑوسی ملک میں ای لیکٹرونک سسٹم رائج ہے۔ جعلی ووٹنگ کا راستہ بند ہے۔ ہر ووٹر اپنے انگوٹے کا نشان لگا کر ووٹ کاسٹ کرتا ہے۔ا لیکشن جیتنے اورہارنے والے اس نظام سے مطمئن ہیں۔

پارلیمنٹ مقننہ ہے یعنی جوہرقسم کے قانون بنانے کی مجاز ادارہ ہے ۔ پھر ہمارے سیاستدان ا یسا قانون کیوں نہیں بناتے کہ ہر ہارنے ولا اپنی اپنی ہار کو مانے اورہر جیتنے والا اپنی مدت پوری کرے؟
دوسری بات پاکستان کے آئین کے اندر فوج، عدلیہ اور حکومتوں کے متعلق دفعات موجود ہیں۔ مہذب اور جدید حکومتیں اس پر عمل کرتی ہیں۔ پاکستان کے آئین کے اندر یہ بات موجود ہے اور سیاست دانوں نے خود اس آئین کوبنایا ہے۔

کہ اگرفریقین کے اندر کسی چیز پر اختلاف ہو جائے تو ملک کی عدلیہ آئین اورقانون کے مطابق اس کا فیصلہ کرے۔تاکہ ملک کی گاڑی صحیح سمت چلاتے رہے ۔یہ ہے ایک جدید جمہوری حکومتوں کا طریقہ ہے۔اگر سابق وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ مجھے کوکیوں نکالا تو صاحب آپ(سیاست دانوں) نے ہی ملک کے آئین میں فعہ ۶۲۔ ۶۳ رکھی ہے۔ آپ نے ہی خود سپریم کورٹ کو خط کو خط لکھا کہ آپ کا کیس سن کر فیصلہ دے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔

جب عدالت نے آپ کا کیس سنا اور آپ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق آپ کو سزادی تو پھر مہذب دنیا کے مہذب وزیر اعظموں کی طرح آپ کو کا فیصلہ ماننا چاہے تھا ۔مگر آپ نے اس کو نہ مان کر پورے ملک کے عوام کو اپنی ہی ملک کی قابل قدر سپریم کورٹ اورفوج کے خلاف اُکسایا ۔ آپ نے خودہی دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا اور ایک بار پارلیمنٹ میں کہا کہ اپوزیشن کے مطالبہ پر تحقیق ہونے چاہیے۔

تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔
۲۰۱۸ء کے الیکشن ہوئے۔ سارے دن الیکشن پر امن ہوتے رہے۔ جب گنتی کا وقت آیا اور الیکشن کمیشن نے نتائج کا اعلان کرنا شروع ہوا تو ہارنے والوں نے حسب روایت شور کرنا شروع کر دیا کہ خلائی مخلوق(فوج) نے دھاندلی کرائی ہے۔ نئی حکومت بنی تو اس نے پارلیمنٹ میں کہا کہ ہم نے تو سابقہ حکومت کو صرف چار حلقوں کے کھولنے کی بات کرتے تھے۔

اپوزیش جتنے حلقے چائے موجودہ حکومت کھلے کے لیے تیار ہے۔اس کے لیے پارلیمنٹ میں حکومتی اور اپوزیش کے ممبران پر مشتمل ایک فیکٹ فائنڈنگ ایک کمیٹی بھی بنائی گئی۔ مگر اپوزیشن کی ایک پارٹی ایم ایم اے کے سربراہ نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو نہیں چلنے دیں ۔ جیتنے والے حلف نہ اُٹھائیں۔ جیتنے والا منتخب وزیر اعظم نہیں بلکہ سلیکٹڈ وزیر اعظم ہے۔


 جتنے والی پی ٹی آئی پارٹی کے منشور میں کرپشن کو پاکستان سے ختم کرنے کا عوام سے عہد شامل ہے۔ اس کے مطابق وہ اپنے ایجنڈے پر عمل درآمند کرنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن کے لیڈروں کے خلاف نیب میں پرانے مقدمے چل رہے تھے۔ ان پر کاروائی شروع ہوئی ہے۔ حکومت کہتی ہے ہمارے دور میں یہ مقدمے قائم نہیں کیے گئے۔ اپوزیش لیڈروں کو اپنی سچائی عدالت میں ثابت کر کے کرپشن کے مقدموں سے جان چھڑانی چاہیے۔

کرپشن کو سیاست کی نذرنہیں ہونے دیں گے۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم کرپشن پر کوسمجھوتا نہیں کریں گے۔ جس نے بھی کرپشن کی ہے اور مقدمے عدالتوں میں ہیں ۔کرپشن ثابت ہوجائے تو وہ اس کو قانون کے مطابق لوٹا ہوا پیسا واپس غریب عوام کے خزانے میں جمع کراکر اپنی جان کی خلاصی کرا لیں۔ کسی قسم کا این ار او نہیں ہوگا۔
صاحبو!کیا یہ طریقہ صحیح نہیں کہ جس پر بھی کرپشن کے کیس ہیں وہ عدالتی کاروائی میں تعاون کریں اورقانون کا احترام کرتے ہوئے اپنی بے گنائی ثابت کر کے سرخ رو ہو جائیں۔

ملک کے نظام کو صحیح سمت میں چلنے دیں۔ ملک کے ارد گرد دملک سارے دشمن جمع ہو گئے ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی دفعہ ۳۷۰ اور۳۷۔ اے ختم کرکے غیر آئینی طور پر پاکستان کی شہ رگ کاٹ کر اپنے ملک میں شامل کر لیا ہے۔پاکستان پر جنگ مسلط کر دی ہے۔جنگ بندی لین پر روانہ کی بنیاد پر بغیر اشتعال انگیزی کے سرحد پرپاکستانی عوام کو شہید کر رہا ہے۔

کسی وقت بھی پاکستان پر حملہ کر نے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان تکمیل پاکستان کی جنگ کوآخری نجام تک پہنچانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پرشہید ہورہے ہیں۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ کو فوج بڑھا کر نو لاکھ کر دی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تین ماہ سے زیادہ وقت سے کرفیولگا ہوا ہے۔کشمیری اپنے بچوں کو پاکستان کے ہلالی پرچم میں لپیٹ لپیٹ کر پاکستان کو بچانے کے لیے دفنا رہے ہیں۔

ایسے حالات میں اپوزیش پاکستان کے دالخلافہ پر چڑھائی کر کے کیا دشمن کے مضبوط تو نہیں کرنا چاہتی ہے؟ پاکستان میں دو سابقہ حکومتوں نے اپنی اپنی ۵ سال کی مدت پوری کی،یہ ایک اچھی ریت بن گئی تھی۔کیااپوزیشن موجودہ حکومت کوگرا کر سابقہ حکومتوں کی ۵ سال پورے ہونے کی ریت کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :