
بھرے مجمعے میں تُو بولا تو کیا بولا
جمعرات 22 اکتوبر 2020

مسز جمشید خاکوانی
سور کے بچے پرے جا کے مریں فوج نے نہیں کہا تھا یہ الفاظ بھٹو کے تھے جو ریکارڈ کا حصہ ہیں انہی سیاست دانوں نے کرسی کی خاطر عوام میں لسانیت اور رنگ و نسل کے بیج بوئے اسی نفرت کے بل پر مشرقی پاکستان بھارت کے قریب ہوا مکتی باہنی تشکیل پائی مغربی پاکستان کو بھٹو کی ضد کی وجہ سے غاصب سمجھا جانے لگا تب فوج کو مشرقی پاکستان بھیج دیا گیا جہاں کے اسکولوں میں پاکستان کے مخالف تعلیم دی جا رہی تھی جب عوام میں نفرت پیدا ہو جائے تو دنیا کی کوئی فوج اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور ایسی صورت میں تو بالکل نہیں جب آپ کی فوج بے سرو سامان رہ جائے فوج کے پاس سامان رسد نہ پہنچ سکے دو لاکھ بھارتی فوج اور ڈیڈھ لاکھ مکتی باہنی اور مقابل تھی پاکستان کی بے سروسامان پاک فوج اس ہار کے پیچھے جو بھی عوامل تھے اس سے قطع نظر ایک اور اینگل سے دیکھتے ہیں
1940میں فرانس کی حکومت نے ہتھیار ڈالے کیا فرانس کے وزیر اعظم نے طعنہ ذنی کی ؟جاپان کے وزیراعظم نے جاپان کی فوج کو 1945میں ہتھیا ڈالنے پر مجرم ٹھیرایا ؟ کیا جرمنی کے وزیر اعظم نے 1918.1945 میں ہتھیار ڈالنے پر جرمن فوج پر طعنہ ذنی کی ؟ کیا امریکہ بہادر کا ٹرمپ اپنی فوج کی افغانستان میں شکست پر میڈیا میں آکر اپنی فوج کی مذمت کرے گا ؟ ارے نہیں بھئی یہ اعزاز تو صرف پاکستانی سیاستدانوں کو حاصل ہے کہ وہ دنی کی نمبر ون فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کر کے دشمنوں کو خوش کر کے غداری کا ثبوت دیں گجرانوالہ کے نون لیگ کے رہنما جن کا نام غالبا میاں محمد اکرم ہے اس لیے نون لیگ سے علیحدہ ہو کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے عزم کا اظہار کر رہے تھے کہ ان کے مطابق وہ پکستان اور پاکستان کی فوج کے خلاف بکواس نہیں سن سکتے ،کوئی بھی محب الوطن انسان فوج کی مذمت نہیں کر سکتا کیونکہ ہر ملک جانتا ہے کہ ان کی افواج ہی ان کی سرحدوں پر ان کی بین الاقوامی عزت کی ضامن ہے نواز شریف نے اپنی تقریر میں کہا ڈکٹیٹروں نے سیاستدانوں کو غدار کہا ۔
(جاری ہے)
ویسے میاں صاحب بے نظیر کو غدار اور سیکورٹی رسک قرار دینے والا کون تھا ؟جب نواز شریف کا تختہ مشرف نے الٹا تو اس اقدام کو خوش آئیند قرار دینے والی بے نظیر تھیں اور مٹھائیاں بانٹنے والی عوام تھی بے نظیر نے نواز شریف کو سویلئن آمر قرار دیا نواز شریف نے کہا کہ فوج نے بلوچستان کے بزنجووں اور مریوں کو غدار کہا ،بلوچستان کی پہلی حکومت کا تختہ فوج نے نہیں بلکہ بھٹو نے الٹا اور CMعطا اللہ مینگل ،گورنر غوث بخش بزنجو اور خیر بخش مری کی گرفتاری کا حکم دیا ان سیاستدانوں نے اپنی لڑائیوں میں ہمیشہ ملک کا نقصان کیا ایک مشہور کہاوت ہے بندر آپس میں مل جائیں تو مل کر پورا باغ کھا جاتے ہیں اور اگر آپس میں لڑ پڑیں تو مل کر پورا باغ اجاڑ دیتے ہیں ان سیاستدانوں نے بھی خود ہی ایک دوسرے کو غدار قرار دیا ایک دوسرے کے خلاف مقدمے بنائے خود ہی ایک دوسرے کی کرپشن کا پیچھا کیا خود ہی ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کیس درج کروائے کیا کوئی یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ جتنے مقدمات ہیں ان سے متعلق کوئی جنرل یا فوجی افسر پٹیشن لے کر عدالت گیا ہو کوئی ایک مقدمہ بتا دیں ۔
نواز شریف نے ہمیشہ فوج کو تقسیم کرنے کی کوشش جاری رکھی ،جنرل مشرف کے بیرونی دورے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ضیا الدین بٹ کو آرمی چیف مقرر کیا ماچس کی تیلیوں سے رینک لگا رہے تھے جو گھبراہٹ میں لگ نہ سکے ) اس کے فورا بعد جنرل مشرف جو کہ پاکستان کے آرمی چیف تھے ان کے طیارے کا رخ بھارت کی طرف موڑنے کا حکم دیا (اس کی گواہی حامد میر نے اپنے کالم “آئین کس نے توڑا “ جو روزنامہ اوصاف میں چھپا تھا جو میں نے اپنی ان گناہگار آنکھوں سے خود پڑھا تھا جس میں اس نے جنرل مشرف سے نواز شریف کو پھانسی دینے کا مطالبہ بھی کیا تھا )بحر حال یہ زمین پر طیارہ ہائی جیکنگ کی انوکھی واردات تھی جسے فوج نے ماننے سے انکار کیا کارگل میں فوج کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا ابھی تازہ تھا کہ جو کہ نواز شریف کے تختہ الٹنے کی وجہ بنا اب ہر بار تو باندر کے ہاتھ میں استرا نہیں دیا جا سکتا
نواز شریف نے اپنی حکومت کا تختہ الٹنے پر مشرف کو غدار قرار دیا جبکہ آج جب جنرل قمر باجوہ کہتے ہیں ہم منتخب جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں تو اس پہ بھی نواز شریف فوج کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں ۔آخر فوج کیا کرے کہ ان شیطانوں کی تسکین ہو سکے میں اسی پاک فوج کے متعلق بین الاقوامی وقائع نگاروں کی آرا اور کچھ واقعات سناتی ہوں بین القوامی شہرت یافتہ امریکی ہفت روزہ ،ٹائمز کے نمائندے لوٹس کرار نے ستمبر 1965کے شمارے میں جنگ ستمبر کے محاذوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر لکھا تھا ۔میں پاک بھارت جنگ کو شائد بھول جاؤنگا لیکن پاک فوج کا جو افسر مجھے محاذ پر لے گیا تھا اس کی مسکراہٹ کبھی نہیں بھول سکونگا یہ مسکراہٹ مجھے بتا رہی تھی کہ پاکستانی نوجوان کس قدر نڈر اور دلیر ہیں جوان سے جرنیل تک میں نے اسی طرح آگ سے کھیلتا دیکھا ہے جس طرح بچے گولیوں سے کھیلتے ہیں لوٹس کرار نے اپنی رپورٹ اس فقرے کے ساتھ شروع کی تھی جو قوم موت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا جانتی ہو اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا برطانیہ کا مشہور اخبار ڈیلی میل کا جنگی وقائع نگار ایلفرڈ کک بھی پاکستان میں ہی موجود تھا اس نے لاہور کا آخری اور انتہائی خون ریز معرکہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اس نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے
لاہور کے محاذ پر بھارتیوں نے بھینی (باٹا پور سے پانچ میل شمال کی جانب )بی آر بی پل کے مقام پر تمام رات گولہ باری جاری رکھی پونے تین بجے یعنی صبح فائر بندی کے وقت انہوں نے بھینی پل پار کرنے کے لیے انفینٹری سے دو شدید حملے کیے ان حملوں کی پشت پناہی کے لیے بھاری توپ خانے کی جو گولہ باری کی وہ اس سیکٹر کی شدید ترین گولہ باری تھی معائدے کے مطابق جنگ بندی کے طے شدہ وقت کے پندرہ منٹ بعد تک گھمسان کی جنگ جاری رہی اور پاکستانیوں نے بھارتیوں کے یہ دونوں حملے پہلے حملوں کی طرح پسپا کر دیئے پھر کہیں جا کر فائر بندی ہوئی جنگ بندی کے بعد دور کہیں بھارتی سر زمین سے دھویں کے کالے سیا ہ بادل اٹھنے لگے میں نے پاک فوج کے افسر کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا وہ ہلکی سی ہنسی ہنس کر بولا ” ہندوستانی اپنی لاشوں کو جلا رہے ہیں “ تھوڑی دیر بعد انڈین آرمی کے بہت سے ٹرک میدان میں اہستہ اہستہ چلتے نظر آنے لگے وہ لاشیں اٹھانے آئے تھے جبکہ پاک فوج کے پیادہ اسٹریچر اپنے جوانوں کی لاشیں ڈھونڈ رہے تھے اس وسیع و عریض میدان میں شہدا کی کل تعداد چھپن تھی یہ گذشتہ رات کے شہدا تھے ان کے مقابلے میں بھارتی صرف ڈوگرئی کے علاقے سے لاشوں کے چودہ ٹرک بھر کر لے گئے وہ صرف تازہ لاشیں لے گئے گلی سڑی لاشوں کو وہ ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے وہ لاشوں کو ٹانگوں اور بازووں سے اٹھا کر لکڑی کے گٹھوں کی طرح ٹرکوں میں پھینک رہے تھے بلکہ لاشوں کو ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹ کر لے جاتے اور اندر پھینک دیتے ایک ایک ٹرک میں وہ نوے ،سولاشوں کو بھر کر لے گئے یہ لاشیں پسماند گان تک نہیں پہنچائی گئیں بلکہ واہگہ بارڈر کے قریب ہی ڈھیر لگا کر ان پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دیجاتی یہ سلوک ان سپاہیوں کے ساتھ ہو رہا تھا جو اپنے عیار حکمرانوں کی پاکستان دشمنی پر قربان ہو گئے تھے اس کے بر عکس پاک فوج اپنے جوانوں کی لاشیں اتنے احترام اور آہستگی سے اٹھاتی جیسے ان کو ھلکے سے جھٹکے سے بھی تکلیف ہوگی جب شہید کی میت آتی تو افسر اس کے ہاتھ چومتے چہروں سے مٹی صاف کرتے باری باری سیلیوٹ کرتے اس محاذ پر پاک فوج کے پانچ ہزار جوانوں نے دشمن کا چالیس ہزار کا لشکر روک رکھا تھا جو جنگوں کی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا ایک جوان سے میں نے پوچھا یہ کیسے کیا ؟ اس نے خون اور مٹی سے ملا ہوا پسینہ پونچھتے ہوئے کہا پہلے روز جب ٹینک گرجے اور توپوں کے دھماکے ہوئے تو خیال آیا ہندو اٹھارہ برسوں کی تیاری کے بعد پاکستان مٹانے آ گیا ہے اس وقت تھرڈ بلوچ رجمنٹ کے ایک جوان نے مورچے سے گلا پھاڑ کر نعرہ لگایا کہ ”پاکستانیو آج بے غیرت نہ ہو جانا “ کسی اور مورچے سے نعرہ اٹھا کہ ”مسلمانو آج پیٹھ نہ دکھانا “
بس ان نعروں کے بعد ہم نے مارنے یا مر جانے کی ٹھان لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آج ہم نے آٹے چینی کے لیے مرنے مارنے کی ٹھان لی ہے ،غیرت ہم سے منہ چھپائے پھر رہی ہے غدار وطن ہمیں تھپکیاں دے دے کر اکسا رہے ہیں بریانی کی ایک پلیٹ ہے اور ہم ہیں دوستو عمران خان نے صحیح فیصلہ کیا ہے جب تک سخت ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا یہ بے غیرتی بڑھتی جائے گی !
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مسز جمشید خاکوانی کے کالمز
-
صرف خواب دیکھنے والے
اتوار 12 دسمبر 2021
-
ہمیشہ ہی نہیں رہتے چہرے نقابوں میں
منگل 9 نومبر 2021
-
افغانستان کل اور آج
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
ان آنکھوں نے کیا کیا دیکھا
ہفتہ 12 جون 2021
-
مریم نواز کو ہر بات میں جلدی کیوں ہوتی ہے
بدھ 7 اپریل 2021
-
کیا سٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے حوالے کیا جا رہا ہے
منگل 30 مارچ 2021
-
ہائے اللہ یہ تو کتابیں تھیں
ہفتہ 13 فروری 2021
-
دھیرے دھیرے اب وہ مقام آگیا
بدھ 3 فروری 2021
مسز جمشید خاکوانی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.