مکرو فریبی چہرے

جمعہ 20 دسمبر 2019

Muhammad Abaid Manj

محمد عبید منج

ابن الوقت سب سے بڑا قصور وار تب گنا جاتا ہے جب رعایا کے اعمال میں ٹھوس پختگی پائی جاتی ہے۔اس کے گریبان میں ہاتھ تب ڈالا جاتا ہے جب ہاتھوں سے دوسرے لوگ محفوظ رہ رہے ہوں۔جب خود پیکر ساقی کہلانے کا شوق ہو تو غرباء کی جھونپڑیوں اور مساکین کی دو وقت کی روٹی کا زیادہ فکر ہوتا ہے۔خود کو لبادوں میں اوڑھ کر پیش کرنے سے بہتر ہوتا ہے کہ برہنہ پیش ہونا۔

۔۔ رعایا کو کوڈ آف کنڈکٹ اور خود آئین اور مسلمانیت کی دھجئیاں اڑائی جا رہی ہیں۔اپنے گھر کی حفاظت اور آئین کی بالادستی کے لیے قائد اور علامہ اقبال رح نے جان کی قربانیاں دی تھیں۔آج ان کے ہی منشور کو پامال کیا جا رہا ہے۔بنیاد کلمہ کی اور تہذیب وتمدن کے عقائد کی گرہ پارلیمنٹ میں ایسے کھولی جارہی ہیں جیسے یہ مملکت خداد پاکستان نہیں ہے۔

(جاری ہے)

۔ گورے آج بھی فخر سے مثالیں دیتے ہیں تہذیب وتمدن کی اور محنت و عظمت کی۔
 آج اس ملک کے حکمران و عوام تہذیب سے ناآشنا ہوتے جا رہے ہیں۔جب چاہا آئین کی پامالی خود ساختہ تہذیب و تمدن کے لئے کر گزرے۔کوئی آئین کی شق 6 کی بات کرتا ہے تو کوئی 62 اور 63 کی ماڈل ٹاؤن ہو یا ساہیوال کے سانحہ سب ایسے دب گئے جیسے مردوں کی تدفین کی جاتی ہے۔سڑکوں پہ حاملہ عورتوں کے بچوں کی پیدائش کو بھی تب دین کی سربلندی کا نام دیا جا رہا تھا۔

کیا یہ انسانیت کے منہ پہ طمانچہ نہیں تھا اگر یہی واقعہ کسی ہسپتال میں وقوع پذیر ہوتا تو کیا سیاست کی دُکانیں نہیں کھل جانی تھیں؟؟
کہاں گئے وہ پاکستان کے خیر خواہ جو ایسی نازیبا الفاظ کے بانی بنے آج انگلینڈ میں زندگی گزار رہے ہیں آخر کیوں؟؟ عوام کی تذلیل کے اور غریب کے چولہوں کو ٹھنڈا کرنے کے بعد عالی شان محلوں اور تختوں پہ بیٹھ کر بیان بازی اور مکر و فریب کا دھندہ کرنا آسان ہوتا ہے۔

ملکی سالمیت کے ڈھانچے اور عالمی طاقتوں کی تابع فرمانی سے جو عوام کی کھالیں اتاری جا رہی ہیں کیا یہ عوام برداشت کر پائے گی؟؟ یہ اکبر شہزاد،شبر زیدی اور حفیظ شیخ نے عوام کو مدنظر رکھا کہ غیر ملکی آقاؤں کی خوشامد میں بیروزگاری، قیمتوں اور ٹیکسوں سے عوام کو نظریاتی تذلیل ہی نہیں کیا بلکہ ایسی چکی میں پیس رہے ہیں جہاں زبانیں تو دارز تھیں۔

لیکن ذاتیات کے افسانے ایسے نقش کیے گئے کہ اسلام آباد کی سڑکیں گواہ بن گئیں جہاں عزت و آبرو اور الفاظ کی ایسی جنگ لڑی گئی کہ بات اب ملکی سالمیت کے مستحکم اداروں کو گلی نکڑ کے نشئی جتنی بھی اہمیت نہیں دی جا رہی۔عدالتیں ملکی خارجہ اور تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم اور ملکی سرمائے میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔جب عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے تو سرمایہ کار کا اعتماد بڑھتا ہے۔

ورنہ میکسیکو اور برازیل جیسی ریاستیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔جہاں لاقانونیت کی ایسی تاریخیں رقم ہیں کہ موجودہ زمانہ میں ہٹلر کی مثال ہے۔
 قوم کو یک جان کرنے کی ضرورت ہے ورنہ مودی جیسے کردار ہر ملک میں ہیں جو نسلی اور مذہبی تعصب میں مبتلا کر رہے ہیں۔لیکن یہاں بات کچھ الٹ ہے غریب کو ہتھیار بنا کر امیر کی تضحیک اور عزت نفس مجروح کیا جا رہا ہے کیونکہ اسٹیٹس کا تعصب سب سے جان لیوا ہوتا ہے۔

اسلام کے فروغ کے آڑے جو آپ اگلی نسل کو بیچ رہیں ہیں کیا مقروض قومیں سر اٹھا کر جی پاتیں ہیں؟ جس کی چھت نہ ہو وہی کراچی کی ریل پٹڑی پہ جھونپڑی لگائے گا!آپ تو بس حکم صادر کرنے والے ہیں۔یہ جھوٹی تسلیاں اور وعدے آپ کے اس انسان کو موت سے پہلے مار دیں گیں جو آپ نے اپنی ساکھ اور وقار کے لئے استعمال کی ہیں۔لوگ بھوک سے بلپ رہے ہیں۔آپ کہتے ہیں صبر رکھیں۔مہنگائی کا طوفان آپے سے باہر ہے آپ کہتے ہیں گھبرانا نہیں؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :