مائیک کے پجاری

جمعہ 27 دسمبر 2019

Muhammad Abaid Manj

محمد عبید منج

اللہ کی قسم میں اس ملک کا باسی ہوں میں اس ملک پہ اپنی جان نچھاور کر گزروں گا۔مجھے اپنے ملک سے اپنی جان پیاری نہیں دو کوڑی کے لوگ ہمیں لوٹ کر لے گئے خدا کی قسم ہم ان کو چھوڑے گے نہیں بلکہ ایک ایک پائی وصول کریں گے دیکھنا اب ہم اپنی عوام کی لوٹی ہوئی رقوم کو کیسے ان کے چنگل سے نکال باہر کریں گے۔ان کی اولادوں نے کیسے جائیدادیں بنائیں؟ ملکی روپے کی قدر و منزلت کیسے کالے روپے میں کی گئی؟ لندن میں کیسے فلیٹ خریدے گئے؟ پلوں اور میٹروں سٹیشنوں کی تعمیراتی منصوبوں میں کیسے دو دو ہاتھ لوٹا گیا؟؟گیس پائپ لائن کے منصوبے بیچ ہی کیوں رک گئے؟ ایک نعمت جو سمندری صورت میں 932 ارب ڈالر کا منصوبہ سی پیک کی صورت میں قدرت نے نوازا اس پہ بھی دلالیاں کیوں کی جا رہی ہیں؟؟ملکی املاک کو روندھا گیا ساتھ میں ان کو اندھوں اور لٹیروں کی بھیڑ میں اکیلے اور تنہا ایسے چھوڑ دیا گیا جیسے سوتیلے بچوں کو ! جس کا جی چاہا من مرضی سے بانٹا کھایا اور کھلایا۔

(جاری ہے)

کیمروں کے سامنے چیخنے چلانے والے یہ موصوف بس ایکٹنگ اور ماڈلنگ کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ایکٹنگ کی یہ باتیں آفریدی صاحب کے ساتھ مراد سعید ،فواد چوہدری،علی اور زرتاج گل جیسے  لوگوں نے تکیہ کلام کی صورت میں ایسے اپنایا جیسے پہلے پہل بولنے والے بچے کو سیکھایا جاتا ہے۔آخر ہوا کیا؟ اس کو دیکھنے کے لئے وہ ہزاروں عورتیں اور لاکھوں نوجوان بے تاب تھے کہ اس بار ہم نے صیحیح بندوں کو منتخب کیا ہے۔

اسمبلی میں بجلیوں کی طرح گرجنے والے اور کیمروں کے لینز پتلے کر دینے والوں نے چار بندوں کو اٹھا کر جیل میں ڈال کیا دیا کہ ملک سے کرپشن اور کرپٹ عناصر کو جیسے روندھ ڈالا ہو؟لیکن ان کے کاروباروں میں منافع دوگنا کر دئیے آخر یہ معاملے کیا ہیں؟ عوام کو حوصلے دیتے دیتے لگ بھگ دو سال کا عرصہ جیل کے خدوخال ہی یادکروائے ہیں۔جیل کی سلاخوں سے لے کر روانگی کے سفر تک کیڑے نکانے والے بھی انسانیت کو سمجھنے لگے! کرپشن کی اشیاء کو استعمال کرنے کےطریقے اور سلیقے سیکھنے کا ہنر سیکھنے سے بہتر تھا اس کے لئے اصول و ضوابط کا ایک کتابچہ دیا جاتا۔

آفریدی صاحب پریس کانفرنسز میں مدینہ کہنے سے دھرتی اور کام وہ نہیں ہو جاتے؟ چیزوں میں شفافیت پیدا کریں فیصلے کرنے آسان ہو جائیں گے ورنہ آزادی کے وقت کا سائیکل چوری کا مقدمہ دو ہزار اٹھارہ میں ہی حل ہونگے۔آج میڈیا کا شکریہ ادا کر رہیں ہیں کہ اللہ کے بعد آپ لوگوں نے ہمیں ہیرو بنایا۔بات افسوس کی ہے کہ ایک وزیر اپنی محنت اور پارٹی کے منشور کو چھوڑ کر میڈیا کا مرہون منت ہے۔

لیکن میڈیا کا رول سنسنی خیزی اور زبان کی چالاکیوں،باتوں سے منحرف لوگ ان کے نمایاں شکار ہوتے ہیں۔کیا اب یہ تمام باتیں ان کو باشعور ظاہر  کر رہیں ہیں یا پسماندہ سوچ کی عکاسی کر رہی ہیں۔خود اعتمادی یا کادگردگی پہ یقین سے زیادہ میڈیا کوریج پہ مر مٹنے کا تماشا بپا کر رکھا ہے۔راستوں کے کانٹے چننے سے زیادہ زخموں کی جگہ تلاش کرنا ارباب اختیار  کا مشغلہ بن چکا ہے۔

ان مشاغل میں عوام قصاب کے اس پھٹے کی مانند ہے جس پہ گوشت بھی کیا جاتا ہے بیچا جاتا ہے لیکن فائدہ قصاب اور بیوپاری کی جیب کو ہی ہوتا ہے۔مقدر کے فیصلے بدلے نہیں جاتے بلکہ عملوں کی درستگی کو کوسا جاتا ہے۔لفاظی اور خطاطی سے بدلاؤ ممکن ہوتا تو پینٹرز ہی دنیا کے مالک ہوتے لیکن ہماری مثال کوے جیسی ہے انڈوں کی پرواہ میں ایک ہنستا کھیلتا ہوا گھر اجاڑ پھینکتے ہیں کہ بچے میرے ہی نکلیں؟ کسی کی کوک اجڑ جائے گی تنکوں سے بنا ہوا گھر تنکے والے ہی جانتے ہیں۔

پیٹ کی اس لڑائی میں ناکوں چنے چبوائے ضرور کسی کے گھر کی چھت اور پیٹ کی انتڑیوں کے آپریشن کئے بغیر۔۔ورنہ اس نعرے کی ضمانت میں گرفتار ہو گئے تو محشر کی دنیا دیکھے گی۔مدینہ اور مکہ کی حرمت پہ اللہ پاک بھی سمجھوتا نہیں کرے گا!
بات اب اس تبدیلی والی سرکار کی ہے جس کے سامنے یہ سب چیزیں عیاں تھی نقطوں سے جملوں تک کی تکمیل کا سفر ان کے سامنے ہوا۔

جذباتی اور مشتعل انگیزی کی زبان نے ان کے گرد گھیرے ایسے تنگ کر دئیے اوردینے ہیں کہ آنے والے چالیس سالوں تک کوئی تبدیلی کا نعرہ نہیں لگے گا نا ہی تبدیلی والوں کو سنا جائے گا۔ اس نعرے کی گونج نے ملکی نہیں عالمی سطحوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔شاید یہ لوگوں کے لئے ایک امید اور روشنی کی کرن ثابت ہوتی۔معاملہ کچھ الٹ ہی ثابت ہوا۔مائیک سے لے کر ٹی وی تک کی اس سیاست میں تاریں ہی خود کو ملک کا وزیراعظم  اور بجلی ریڑھ کی ہڈی  سمجھتیں ہیں۔

مائیک والا ٹیبل اور کپڑا ملکی ستون اور دستور کے ضامن کی علامت گردانے جاتے ہیں۔اگر سیاسی معیار ایسا رہا تو آنے والے دور میں ملکی نہیں٫علاقائی نہیں،گلی محلے کے بھی وزیر اعظم اپنے ٹیبل،مائیک اور تاریں لئے پھریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔پھر آوازوں کی پہچان اور اعمال کی بنیاد کی قدر ہو گی۔۔۔۔۔۔ذرا رکیے۔۔۔۔ذرا سوچے۔۔۔۔۔ایک عارفی کی ضرورت ہے ہر انسان کے اندر کے انسان کو۔۔۔۔۔ پھر کام بنے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :