ہم ،اسلام اور پاکستان

جمعرات 8 اپریل 2021

Muhammad Kamran Khakhi

محمد کامران کھاکھی

پاکستان بننے کا مقصد مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ ریاست کا قیام تھا  کہ جہاں مسلمان اپنے رب سے رشتہ استوار کر سکیں اور ملک میں اسلامی قوانین کا نفوظ  عمل پذیر ہوسکے   اور ہم ایک  اسلامی معاشرہ تشکیل دے سکیں جو کہ دنیا کے لیے ایک مثال ہو۔ بانی پاکستان کو اتنی مہلت ہی نہ ملی کہ آزادی کے بعد کچھ اس معاملے میں قانون سازی کر سکتے  اور ابتدائی طور پر جو اس ملک کا قانون بنا وہ انگریزوں سے مستعار لیا گیا قانون تھا  ۔

ان انگریزوں نے تو اس میں بہت سی تبدیلیاں کر لی ہوئی ہیں مگر ہم نے اس اثاثے کو ابھی تک ویسے ہی سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ مجھے اب اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ انگریزوں سے ہم نے آزادی لی یا وہ ہم سے آزاد ہو کر چلے گئے۔ بہرحال  یہ بات مان لیتے ہیں کہ شروع کے کچھ سال تو ملکی سالمیت کے ساتھ اور بھی کئی مسائل درپیش تھے جس کی وجہ سے اس طرف توجہ نہیں کی جا سکی ہوگی مگر اس کے بعد سال پہ سال گزرتے گئے اور ہم اسلامی قانون یا شریعت اس ملک میں نافذ نہ کر سکے مگر ہم نے اسلام کو ویسے نہیں چھوڑا بلکہ اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کا فن خوب سیکھ لیا۔

(جاری ہے)

جی ہاں ، آج اسلام ہمارے لیے لوگوں کو اپنے ساتھ کھڑاکرنے اور اپنی مقبولیت حاصل کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔اس ملک کی بھولی بھالی عوام کی اسلام سے محبت اس قدر شدید ہے کہ ایک اسلامی نعرہ انہیں سڑکوں پہ نکال کے ہم آواز کر سکتا ہے مگر عملی طور پر ہم سب انگریز کے بنائے اصول ہی مد نظر رکھتے ہیں چاہے زبان سے انہیں لاکھ برا بھلا کہتے رہیں ۔

مطلب ہم مکمل طور پر انگریز کی پیروی کر کے بھی سینہ تان کے خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ہماری قومی زبان تو اردو ہے مگر سرکاری زبان انگریزی، ہم ہیں تو مسلمان لیکن رہن سہن انگریزوں جیسا چاہتے ہیں، ہمارا قومی ترانہ فارسی زبان میں اور مذہب عربی زبان میں ہے مگر ہم ان دونوں زبانوں سے نابلد ہیں اور نہ ہی انہیں سیکھنے کی کوئی کوشش کرتے ہیں ہاں مگر انگریزی ضرور سیکھتے ہیں کہ دنیا ہی تو کمانی ہے ہم نے اور اس کے لیے انگریزی زبان بہت ضروری ہے۔


دنیاوی اعتبار سے کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی اس کی اسٹیبلشمنٹ پہ منحصر ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے چار عناصر سیاستدان،فوج،عدلیہ اور بیوروکریسی ہوتے ہیں جو کہ اگر ایک ساتھ مل کر کام کریں تو ہی ملک ترقی کر سکتا ہے اور اگر ان میں سے ہر ایک صرف اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کرے گا تو ملک کا نظام بے ہنگم  ہو جائے گا اور یہی کچھ حال ہمارے ملک پاکستان کا ہے۔

ہمارے سیاستدان چاہتے ہیں کہ ملک کے سیاہ و سفید کے وہ مالک بن جائیں اور ان کا کوئی حساب لینے والا نہ ہو اسی طرح پھر باقی ادارے بھی اپنی خودمختاری اور آزادی کا نعرہ مار کے میدان میں آجاتے ہیں اور پھر بات اس سے بھی آگے کو نکلتی جاتی ہے۔ ان میں سے کوئی یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ مالک و خودمختار تو وہ ہے جس نے اس پاک سرزمین جیسی نعمت ہم جیسے بے قدروں کے حوالے کردی تو اسکا قانون کیوں نہیں نافذ کرتے ۔

ایسی بات کرنے یا نعرہ مارنے کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر عملی طور پر بہت مشکل کیوں کہ اگر اسلامی نظام نافذ ہوگیاتو کرپشن ختم ہو جائے گی ، پھر ہم اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ کیسے بھریں گے؟، اگر اسلامی نظام نافذ ہو گیا تو سود کا نظام بند کرنا پڑے گا پھر ہمارے بینک  کیسے چلیں گے؟ اور ان کے ذریعے ہم قرض کیسے لیں گے؟ اسلامی نظام نافذ ہوا تو ہماری سیاست کیسے چلے گی جو کہ چلتی ہی جھوٹ اور منافقت پر ہے  جس کو ہم  نےایک نیا نام دے دیا ہے کہ جی وہ تو"سیاسی بیان" تھا۔

اگر اسلام نافذ ہوا تو مولوی مسجد کے باہر آجائے گا پھر ہم اسے قابو میں کیسے رکھیں گے، مسجدوں پر پابندی، اپنی مرضی کے فتوےکیسے لیں گے؟ اگر اسلام نافذ ہوگیا تو عورت کو تو عزت و مرتبہ والا اعلی مقام مل جائے گا پھر ہم نیم برہنہ عورتوں کے جسم کی نمائش کیسے دیکھ پائیں گے جو کہ ہرسال سڑکوں پر اپنا حق مانگنے نکلتی ہیں۔
  ان  کے جیسے اور بھی  بہت سے سوالات  ہیں اور جب تک ان کے جوابات نہیں مل پاتے  ہم مسلمان تو رہیں گے مگر اسلام کو اپنی زندگی میں دخل اندازی نہیں کرنے دیں گے بلکہ ہم خود اسلام میں دخل اندازی کر یں گے اور اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے رہیں گے کیوں کہ اسی میں ہماری بھلائی ہے اور ملک کی بھلائی یا دین اسلام کی بھلائی سے ہمارا کچھ لینا دینا ہی نہیں۔

ہم اسلام کو دوسروں کو کافر ثابت کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کریں گے، جس پر مرضی غداری کا فتوی لگائیں گے اور خود کو اسلام کا ایک ہیرو بنا کر پیش کریں گے۔ ہم مسلمان بننا نہیں بلکہ مسلمان نظر آنا پسند کرتے ہیں اور وہ بھی عملی طور پر نہیں بلکہ زبانی طور پر۔ہم اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے تو بہادر بن جاتے ہیں جس کے سامنے ہماری اوقات کسی مچھر سے بھی کم ہے مگر دنیاوی خداوں کے سامنے  ہم سجدہ ریز ہو جاتے ہیں کہ ہمیں ان سے دنیا میں کچھ فوئد حاصل ہو سکیں۔


ہم بحیثیت قوم برائیوں میں مبتلا ء ہو چکے ہیں اور جب کوئی قوم اجتماعی طور پر برائیوں کا شکار ہو جائے تو پھر ان کا وہی حشر ہوتا ہے جو قوم عاد و ثمود کا ہوا ، جو  بنی اسرائیل کی تاریخ ہے، جو سقوط اندلس و غرناطہ میں مسلمانوں کی تاریخ ہے اور جس سے انسان نے کبھی بھی  سبق لینے کی کوشش نہیں کی  اسی لیے پاکستان کو پہلی تنبیہ سقوط ڈھاکہ کی شکل میں کی گئی مگر ہم پھر بھی نہیں سمجھے اور اپنی روش تبدیل نہیں کی  ہاں مگر اپنے 73ء کے آئین میں کچھ اسلامی دفعات ڈال کر خود کو مسلمان اور ملک کو اسلامی سلطنت بنانے کی خوب کوشش کی۔

ہم نے انگریزی درخت پہ دیسی پھل لٹکا دیے اور انتظار میں ہیں کہ خوب پھلے گا پھولے گا۔کچھ عرصہ تو گزر گیا مگر اب  کشمیر کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے۔ مگر ہم ابھی بھی اپنے انفرادی مقصد کو ہی اولیت دیتے نظر آتے ہیں۔ہم ابھی بھی رجوع کرنے کے بارے میں سوچ ہی نہیں رہے بلکہ جھوٹ  کا سہارا لے رہے ہیں جو کہ تمام  نیک اعمالوں کو برباد کر دیتا ہے۔

ہم  ببانگ دہل کہتے ہیں کہ جو زیادہ جھوٹ بولے وہ اتنا ہی بڑا لیڈر ہو تا ہے۔مگر کہلواتے   ہم خود کوصادق ہیں۔ میری تو فکر ہی جواب دیتی جارہی ہے کہ ہم  کس طرف جارہے ہیں  ابھی بھی وقت ہے توبہ کا دروازہ  کھلا ہے تو کیوں نہ اس دروازے میں داخل ہو جائیں ، اسلام کو اپنا دین بنائیں اور اسے اپنے ملک اور اپنی زندگیوں  میں نافذ کر دیں اور اپنی سمت درست کر لیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :