ن سے ش نکالتے نکالتے اپنی 'ج' نکلوا رہے ہیں

جمعہ 21 مئی 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

پاکستان تحریک انصاف جہانگیر ترین گروپ کے رکن پنجاب اسمبلی نذیر چوہان نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں یہ انکشاف کیا کہ آٹھارہ مئی کی شام جہانگیر ترین کی جانب سے دئیے گئے اعشایہ میں 40 کے قریب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے قرآن مجید پر یہ حلف دیا کہ انکا جینا مرنا جہانگیر ترین کیساتھ ہے اور جہانگیر ترین جو بھی فیصلہ چاہے وہ اسمبلی سے بائیکاٹ کرنے کا ہو یا اسمبلی چھوڑنے کا فیصلہ ہو وہ انکے لئے قبول ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر انکے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ آنیوالے بجٹ اجلاس کا بھی بائیکاٹ کریں گے۔ اسی ٹی وی پروگرام میں جہانگیر ترین گروپ کے ہی ایک اور ایم پی اے سلمان نعیم نے بھی نذیر چوہان کے بیان کی تائید کی کہ ان سب نے قرآن مجید پر حلف لیا ہے کہ مستقبل قریب میں ہونے والے تمام فیصلوں کا اختیار جہانگیر ترین کے پاس ہوگا اگر وہ کہیں گے کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیں تو وہ سب استعفیٰ دے دیں گے۔

(جاری ہے)

سب سے حیران کن بات یہ بھی ہے کہ اس گروپ میں عمران خان کے 2018 کے الیکشن کی رات تک  political secretary  رہنے والے اور عمران خان کے نکاح کے گواہ عون چوہدری بھی شامل ہیں۔جہانگیر ترین ہم خیال گروپ نے پنجاب اسمبلی میں سعید اکبر نوانی کو علیحدہ سے پارلیمانی لیڈر مقرر کردیا ہے۔ دوسری طرف 19 مئی کو عدالت میں پیشی کے موقع پر جہانگیر ترین نے اک مرتبہ پھر اپنے اس موقف کا اظہار کیا کہ وہ ابھی بھی پاکستان تحریک انصاف کا حصہ ہیں اور ہمیشہ حصہ رہیں گے، مگر وہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے انصاف کے طلب گار ہیں۔

یاد رہے جہانگیر ترین وہی ہیں جن کے بارے میں تحریک انصاف کے بانی منحرف اراکین حامد خان اور جسٹس (ر)  وجیح الدین و دیگر بانی اراکین نے کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف پارٹی کو جہانگیر ترین جیسے افراد نے hijack کرلیا ہے۔ جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کے باقاعدہ منظر عام آنے کے بعد عمران خان کی کابینہ کے اکثر اراکین بھی کھل کر عمران خان کیساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں۔

اور  I Stand with Imran Khan   اور Imran Khan is PTI and PTI is Imran Khan   جیسے ٹیوٹس اور سوشل میڈیا ٹرینڈ چلا رہے ہیں۔ احتساب اور انصاف کا نعرہ لگاتے ہوئے اقتدار میں آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف بظاہر اس وقت دوراہے پر کھڑی نظر آرہی ہے۔ جہاں ایک طرف آئے روز انکی اپنی حکومت میں کسی نہ کسی وزارت میں اربوں روپے کی کرپشن کے سکینڈلز منظرعام پرآرہے ہیں چاہے وہ ادویات سکینڈل ہو ، گندم،  چینی اسکینڈلز،  پٹرولیم و گیس کی کرپشن کے سکینڈلز یا پھر حال ہی میں منظر عام پر آنے والا رنگ روڈ کرپشن سکینڈل،  وہیں دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کو ایک سے زائد مختلف محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے جیسا کہ اپوزیشن کے خلاف کرپشن کیسز میں مسلسل ناکامی کا سامنا، 30 ماہ سے زائد اپوزیشن احتساب میں سوائے اپوزیشن لیڈران کی  جیل یاترا کے انصافی حکومت عدالتوں میں  ایک پیسے کی نہ تو کرپشن ثابت کر پائی اور نہ ہی قومی خزانے میں کرپشن بیانئے کے تحت لوٹی گئی رقم  واپس جمع کرپائی بلکہ الٹا احتساب کے نام پر اربوں روپے کی رقم بیرون ملک میں جرمانے کے نام  پر جمع کروانی پڑی، صحیح معنوں میں تحریک انصاف حکومت کا احتساب کا راگ اور نعرہ بری طرح سے پٹ چکا ہے۔

اسی طرح حکومت وقت مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناصرف ناکام رہی بلکہ مہنگائی کا جن حکومت وقت کے ہاتھوں سے نکل کر کوسوں میل دور جاچکا ہے، حکومت وقت کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ضمنی الیکشن میں مسلسل پے درپے شکست پاکستان تحریک انصاف کا مقدر بن رہی ہیں۔ بہت سے مالی اسکینڈلز اور مہنگائی کے جن کی بدولت مشکل ترین حالات میں گھری ہوئی تحریک انصاف کی حکومت کی مشکلات میں اضافہ خود انکی اپنی پارٹی کے جہانگیر ترین ہم خیال گروپ پیدا کررہے ہیں۔

اگر مستقبل قریب میں جہانگیر ترین گروپ کو قابو نہ کیا گیا  (جو کہ ظاہر ہے جہانگیر ترین کے خلاف بننے والے کرپشن مقدمات کے لئے NRO دینے ہی کی صورت میں ممکن ہے)  تو پارلیمنٹ میں انتہائی سادہ اکثریت کی حامل جماعت پاکستان تحریک انصاف کے لئے جہانگیر ترین گروپ اک انتہائی ڈراؤنہ خواب ثابت ہوگا۔ چونکہ جہانگیر ترین اکثر مواقعوں پر یہی کہتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں کہ انکو عمران خان سے انصاف کی توقع ہے،  بظاہر تو جہانگیر ترین کو انصاف عدالتوں سے ملنا ہے اور انکو یہی کہنا چاہئے کہ وہ عدالتوں سے انصاف کے لئے پرامید ہیں مگر جہانگیر ترین کا بار بار یہی کہنا کہ وہ عمران خان سے انصاف کی امید رکھتے ہیں بہت ہی معنی خیز ہے، شاید وہ یہی سمجھتے ہیں کہ انکے خلاف ہونے والے احتساب کی کاروائی کے پیچھے وزیر اعظم عمران خان کا ہاتھ ہے۔

دوسری طرف عمران خان  نے بھی کچھ مواقعوں پر کہا ہے کہ وہ جہانگیر ترین کے خلاف بے انصافی نہیں کریں گے۔ ویسے ہے نہ حیران کن بات کہ جہانگیر ترین اور عمران خان دونوں ایک دوسرے کو انصاف دینے کے لئے پرامید ہیں۔ ان دونوں کی جانب سے آپکو یہ کہتے ہوئے نہیں ملے گا کہ پاکستان میں عدالتیں آزاد ہیں وہ جہانگیر ترین کے ساتھ انصاف کریں گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف چلنے والے دھاندلی، کرپشن، میڈیا ٹرائل، عدالتی ٹرائل اور مذہبی تحاریک کی بدولت انکی حکومت تو چلی گئی اور چن چن کر انکے لیڈران کو پابند سلاسل بھی کیا گیا، جسکا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے، بہت عرصہ تک یہ دعوے کئے گئے کہ پاکستان مسلم لیگ ن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے، کبھی چوہدری نثار، کبھی زعیم قادری تو کبھی شرقپوری جیسے سیاستدانوں کو پارٹی لیڈرشپ کے خلاف بیان بازی پر لگایا گیا، کبھی ن  لیگ سے شہباز شریف تو کبھی ن لیگ سے حمزہ شہباز کو نکل جانے کے بیانات اور مفروضے منظر عام پر لائے گئے، آج چوہدری نثاروں، زعیم قادریوں جیسے سیاستدانوں کو عوام الناس نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔

حقیقت تو یہی ہے کہ آج بھی پاکستان مسلم لیگ ن اسی طرح فولاد کی مانند پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے جبر کا مقابلہ کرتی دیکھائی دے رہی ہے، آج بھی پاکستان مسلم لیگ ن میں نواز شریف ہی کا بیانیہ چل رہا ہے۔  درحقیقت یہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لئے مقافات عمل ہے کہ  اقتدار میں رہتے ہوئے وہ پاکستان مسلم لیگ ن کو نہ توڑ سکے اور ''ن'' سے ''ش'' نکالتے نکالتے اپنی ''ج''  (جہانگیر ترین)  کھسکا چکے ہیں۔

اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر جہانگیر ترین کو عمران خان کی جانب سے انصاف  (کرپشن مقدمات میں NRO)  نہ دیا گیا تو جہانگیر ترین گروپ (جو کہ جہانگیر ترین کیساتھ اپنی وفاداری نبھانے کا عہد قرآن مجید پر کرچکا ہے)  پاکستان تحریک انصاف کی حکومتی کشتی  (جوکہ پہلے ہی اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں پر چل رہی ہے) کو ڈبونے کے لئے کافی ثابت ہوگا۔

کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بنوانے میں جہاں غیبی ہاتھوں کی بہت مہربانیاں شامل حال ہیں وہی پر جہانگیر ترین کے جہاز پر سفر کرنے والے electables   اور آزاد حیثیت  میں ممبر اسمبلی بننے والوں کو تحریک انصاف کے لال اور سبز جھنڈے گلوں میں لٹکانے والی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ بظاہر اب جہانگیر ترین اپنے جہاز پر بیٹھا کر لائی گئی سواریوں کو واپس لیکرجہاز میں دوبارہ بیٹھاکر رن وے پر کھڑے ہیں۔

اب  NRO  نہ ملنے کی صورت میں جہاز کو رن وے سے اُڑا دیں گے۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ ماضی قریب میں اپنی ہی حکومتی وزارتوں میں ہونے والے کرپشن اسکینڈلز کے معاملات کو بخوبی احسن (مٹی پاؤ) طریقہ سے حل کرنے والی سابقہ روایات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جہانگیر ترین کو NRO ضرور دے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :