صرف آدھا گھنٹہ

اتوار 27 ستمبر 2020

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

ونسٹن چرچل برطانیہ کے نامور وزیراعظم تھے۔انھوں نے دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی قیادت کی تھی۔یہ ایک نامور سیاست دان اور ایک مشہور ادیب بھی تھے۔ان کو ادب پر 1953ء کا نوبیل انعام بھی دیا گیا۔جب برطانوی فوجیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ دوسری جنگ عظیم میں لڑ رہی تھیں تو اک وقت وہ بھی آیا جب واضح  نظر آرہا تھا کہ،جرمنی اور اٹلی کی فوجیں برطانیہ،فرانس کو شکست دے کر ان پر قبضہ کر لیں گی۔

تو اس وقت چرچل نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا جو ان کی ذہانت کا عکاس بھی تھا اور بہت بڑی حقیقت بھی۔چرچل نے کہا تھا"اگر ہماری عدالتیں انصاف دے رہی ہیں تو برطانیہ کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہیں۔"یہ چرچل کا حوصلہ اور انصاف پر ایمان تھا۔قانون اور انصاف ملک،قوم اور معاشرے کےلئے آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ آکسیجن جس معاشرے کو نہیں ملتی،وہ معاشرہ نیست و نابود ہو جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں نہ تو وسائل کی کمی ہے اور نہ مسائل کی۔یعنی ہمارے لیے بہت زیادہ ترقی کے مواقع بھی موجود ہیں۔لیکن وہ کرپشن،بد دیانتی اور بد انتظامی کی نظر ہوجاتے ہیں اور مسائل بھی جو شروع دن سے  اس ملک کے ساتھ تھے اور آج تک وفا نبھا رہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں،ایک مثالی معیشت ہوئے بغیر یہ ملک ستر سال سے چل رہا ہے۔تو اگلے ستر سال بھی چلتا رہے گا۔

لیکن انصاف کے بغیر یہ ملک نہیں چل سکتا۔سرعام بچیوں کی عصمتیں پامال ہوں۔ درندے دندانتے پھرتے ہوں۔دن دھاڑے لوگ قتل ہو جاتے ہوں۔اور قاتل کو کوئی ہاتھ بھی نہ ڈالے۔ہزاروں لوگوں کو صرف اس لیے غائب کردیا جاتا ہو کہ وہ ملکی اداروں کی ناقص پالیساں پر سوال اٹھاتے ہوں۔کسی کو بولنے کی اجازت تک نہ ہو۔ان کی بنیادی آزادی سلب کی جاتی ہو۔تو ایسے معاشرے خاک ترقی کرتے ہیں۔

اس وقت ملک کا اہم اور بنادی مسئلہ انصاف ہے۔ہماری عدالتیں انصاف نہیں کر رہیں۔ہمارا انصاف کا نظام بھی درست نہیں،بلکہ بہت سست ہے۔ایک بے گناہ جیل میں پڑا مر جاتا ہے۔اور عدالت دس سال بعد فیصلہ دیتی ہے۔وہ بندہ بے گناہ ہے۔ایک اداکارہ سے شراب کی بوتلیں پکڑیں جاتی ہیں۔ان پر کیس چلتا ہے۔وہ دس سال عدالتوں کے دھکے کھاتی ہے۔اس دوران درجن سے زائد چیف جسٹس تبدیل ہوجاتے ہیں۔

اس کے بعد فیصلہ آتا ہے۔"عدالت ان کو باعزت بری کرتی ہے۔"
یہ ہمارے عدالتی نظام کی سنجیدگی اور کارکردگی ہے۔دنیا میں کوئی  ملک ایسا نہیں ملتا جہاں ظلم،اور ناانصافی ہو۔اور وہ دیر پا قائم رہ سکے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا تھا۔"دنیا میں کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں۔" انصاف اور رول آف لاء نام کی کوئی چیز ہمارے ہاں نہیں ہے۔

یہ نہ قائد کا پاکستان ہے۔اور نہ وہ پاکستان جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا۔مسلسل ناانصافی اور جبر کا نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑا ہے۔جسے کوئی نکیل  ڈالنے والا نظر نہیں آتا۔ بلوچستان میں کچھ عرصہ قبل ایک وارڈن کو ایم پی اے کی گاڑی کچل دیتی ہے۔سی سی ٹی وی فوٹیج سےصاف نظر آتا ہے۔ ایم پی اے صاحب نشے میں مستغرق تھے۔اور اس نے ٹریفک وارڈن کو جان بوجھ کر کچل دیا۔

لیکن عدالت ملزم کو رہا کردیتی ہے۔کیوں،کیونکہ عدالتیں ثبوتوں پر چلتی ہیں۔اور یہاں کیمرے کی ویڈیو ثبوت نہیں ہے۔کیونکہ مرنے والا  غریب تھا۔اس خبر نے جہاں غم اور غصے کی لہر کو سوشل میڈیا پر ہوا دی،اور عدالتی سسٹم پر سوال اٹھائے جارہے تھے۔وہی پر لاہور موٹروے پر درندگی کا واقعہ سامنے آ گیا جس نے اس واقعے سے عوام کی نظریں ہٹا دیں۔قصور بچارے ایم پی اے کا نہیں بلکہ وارڈن کا تھا وہ ڈیوٹی کیوں سرانجام دے رہا تھا۔

اسے معلوم کیوں نہ تھا کہ صاحب کی گاڑی آرہی ہے۔سائید پر ہو جاوں۔افسوس،افسوس اور صد افسوس۔لاہور موٹروے کے واقعے کے بعد مسلسل ایک کرب اور دکھ میرے اندر سرایت کر چکا ہے۔ بے حد افسوس کی بات ہے۔ایک اسلامی ملک میں ایک ماں کو اس کے بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ان بچوں پر تو قیامت سے پہلے قیامت گزر گئی۔وہ ماں تو مرنے سے پہلے مر گئ اور شاید موت کے بعد انسان کو اتنا کرب اور اذیت نہیں ہو گی جتنی اس ماں کو برداشت کرنا پڑی اور اس معاشرے میں آئند بھی کرنا پڑے گی۔

جو بے گناہ کو گناہ گار اور گناہ گار کو مسلسل نیک اور پارسا کرنے میں مشغل رہتا ہے۔ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں۔جو بے حیا کو خوبصورت اور روایت پسند عورت کو "اولڈ فشن" کے طعنہ دیتا ہے۔ہم تو وہ لوگ ہیں۔جن کو اپنی برائی اپنا کردار نظر نہیں آتا لیکن دوسروں پر انگلی اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔اور اگر کوئی شخص اس معاشرے کے مائنڈ سیٹ اپ سے ہٹ کر بات کرتا ہے۔

اور سچ بات کرتا ہے۔تو وہ ہمیں درد دیتی ہے۔وہ ہمیں چبھ جاتی ہے۔کیونکہ ہم میں ظرف نہیں ہے۔اور  نہ ہی ہم اسلام کی پیروی کرتے ہیں۔جہاں پوری زندگی کے آداب سکھا دیئے گئے ہیں۔اور نہ ہی مغرب کو مانتے ہیں۔جن میں کچھ تو انسانی قدروں کا خیال رکھا جاتا ہے۔کہاں کھا گئی ہماری مشرقی اقدار؟ کہاں گیا ہمارا ظرف؟ کس کی نظر لگ گئی اس امن پسند اور باحیا اقدار سے مزین معاشرے کو؟ سب کھو گیا۔

سب بکھر گیا۔ہم مادیت پسند ہو گئے۔اخلاقیات نام کی چیز باقی نہیں رہی۔ہمیں کردار سازی کی ضرورت ہے۔ہمیں انفرادی طور پر درست ہونا ہو گا۔ہمیں اپنی ذات پر توجہ دینا ہوگی۔کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے نتائج کو دیکھنا،سوچنا ہو گا۔ہمیں سوچنا ہو گا اگر کسی جوہڑ کے گندے پانی میں پتھر مار رہے ہیں تو وہ گندا پانی اچھل کر ہمارے منھ پر آئے گا۔

ورنہ تو ہم گوبر پر بھی پاوں رکھ کر ادھر ادھر دیکھیں گے۔کوئی دیکھ تو نہیں رہا اور جلدی سے پاوں صاف کر لیں گے۔ارے صاحب ایک کیمرہ اور ایک پہرہ دار آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔وہ کیمرہ ایک دن ساری ویڈیو چلائے گا اور وہ پہرہ دار جو آپ کا ضمیر ہے۔وہ تب تک مرنے نہیں دے گا۔جب تک اپنے ساتھ وہ سب کچھ ہوتا نہیں دیکھیں گے۔جو افعال اور اعمال کیے تھے۔جو بیج بویا تھا۔

وہ کاٹنا پڑے گا۔ہمیں روشنی چاہئے،ہم اندھیروں میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔اور یہ روشنی آسکتی ہے۔صرف آدھ گھنٹہ  تنہائی میں بیٹھ کر اپنی ذات سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہے۔اپنے ضمیر سے بات کرنے کی دیر ہے۔سب درست ہو سکتا ہے۔اندھیرا روشنی میں بدل سکتا ہے۔اور یہ روشنی بہت سے اور بجھے دیوں کو بھی روشن کرسکتی ہے۔ماضی کو بھول جائیں کہ یاد ماضی عذاب ہے یارب۔

کل کیا ہوا،اس کو چھوڑ دیں۔آج کیا ہو گا اس پر توجہ دینا شروع کردیں۔کیا کل کی طرح یہ دن بھی اکارت جائے گا۔کیا یہ اندھیرے اور گمرایاں ہمارا مقدر ہیں۔نہیں بلکل بھی نہیں۔وقت اچھا آتا ہے۔بس کل کو بھول کر آج کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے۔"وہ شخص بد بخت ہے،جس کا آج اس کے  گزرے کل سے بہتر نہ ہو۔" آج کو بہتر نہ کیا تو،ہمیں نہ آج روشنی کی خیرات ملے گی۔اور نہ ہی آنے والے کل۔اور ہمارے کشکول یوں ہی خالی رہیں گے۔اور ایک دن وہ کشکول ٹوٹ کر بکھر جائیں گے۔مٹی ہوجائیں گے۔اور ہماری کہانی ایک دردناک نتائج چھوڑے اختتام پذیر ہو جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :