آگ کا کھیل

منگل 6 اکتوبر 2020

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

نواز شریف قسمت کے دھنی ہیں۔ ان پر قدرت نے ہر بار مہربانی فرمائی اور یہ بڑے سے بڑے بحران سے نکل گئے۔ یہ دو بار ملک کے اکثریتی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے، یہ اس سے پہلے وزیر خزانہ بھی رہے۔ اور اس نے تین بار ملک کے بڑے سیاسی عہدے کے مزے بھی لوٹے ہیں۔ جب یہ پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے، تو اس کے صدر غلام اسحق خان سے اختلاف ہو گئے اور صدر نے اس کو برطرف کر دیا۔

اس نے مہم چلائی، اور صدر کے وزیراعظم کو برطرفی کرنے والے آئینی اختیار "اٹھاون ٹو بی" کو ختم کروا لیا۔ یوں نواز شریف نے اپنے راستے میں آنے والے کانٹوں ہٹانے کا فیصلہ کیا۔
لیکن دوسری بار معاملہ زیادہ خراب ہو گیا۔ کارگل واقعہ پر نواز شریف کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے شدید اختلاف بن گئے۔

(جاری ہے)

جس پر نواز شریف کو برہمی ہوئی۔ اور اس نے مشرف کو معطل کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔


 نواز شریف کو اک مسئلہ در پیش ہے۔ یہ جب کسی کام کو کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، تو پھر وہ کام کر گزرتے ہیں۔ فیصلہ لینے کے بعد یہ کسی کی نہیں سنتے، چاہے اس کی ناؤ دریا برد ہی کیوں نہ ہو جائے۔ نواز شریف فطرتاً ضدی اور اکہڑ مزاج ہیں۔
 یہ ہمیشہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارتے ہیں۔ پھر زخم پر مرہم لگانے کی بجائے، یہ زخم کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔

اسے جیسے ہی موقعہ ملتا ہے۔ اپنے وار کا  بدلہ دوسروں سے  لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی نقصان اپنا ہی کرتے ہیں۔
نواز شریف نے مشرف کے معاملہ میں بھی ایسا کیا۔ جب جنرل مشرف سری لنکا کے دورے پر گئے، تو اس نے انھیں معطل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور ان کی جگہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو عسکری قیادت سونپ دی۔
مشرف کی برطرفی کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔


جنرل پرویز مشرف سری لنکا کے دورے پر تھے۔
انھوں نے 12 اکتوبر 1999ء کو واپس پاکستان آنا تھا۔ اس دن کولمبو میں شدید بارش اور طوفان تھا۔ ان کی فلائٹ پی کے 805 مقررہ وقت سے چالیس منٹ لیٹ ہو گئی۔ اس پرواز نے کولمبو سے شام کے چھ بج کر پنتالیس پر پاکستان کےلئے اڑان بھری۔
یہ پرواز جیسے ہی پاکستان پہنچی۔ اور پائلٹ نے کراچی ایئرپورٹ پر رابطہ کیا۔


 تو جواب میں پائلٹ کو آگاہ کیا گیا کہ یہ پرواز پاکستان میں نہیں اتر سکتی۔ اس کو احمد آباد ( انڈیا) ، بندر عباس (ایران) یا پھر ابو ظہبی لینڈ کی طرف موڑ لیں۔ اور جلد پاکستان کی حدود سے طیارہ کو نکالا لیا جائے۔ یہ بات سب کےلئے حیرت کا سبب بھی تھی اور پریشانی کا بھی، کیونکہ کمرشل ائر لائن کو اپنے ہی ملک میں لینڈ کرنے سے روکا جا رہا تھا ۔

اس کشمکش کی صورتحال میں جنرل مشرف کو کاک پٹ میں بلایا گیا۔ ساری کہانی ان کے گوش گزار کی گئی۔ مشرف نے پاکستان ائرلائن کے دفتر رابطہ کرنے کا آرڈر دیا ، وہاں سے بھی یہی جواب ملا کہ یہ طیارہ پاکستان میں نہیں اتر سکتا۔ جب کہیں سے سنوائی نہ ہوئی، تو کور کمانڈر کراچی میجر جنرل ملک افتخار خان سے رابطہ کیا گیا۔ جس نے کچھ ہی دیر میں کراچی ایئرپورٹ کو قبضے میں لے لیا۔

ایئرپورٹ کی تمام بتیوں کو  روشن کر دیا گیا۔ جیسے طیارے نے لینڈ کیا،  اس کے ساتھ ملک سے جمہوریت بھی نو سال کےلئے غائب ہو گئی۔
 نواز شریف کے غیر آئینی اور غیر اخلاقی اقدام کی وجہ سے ملک میں مارشل لاء نافذ ہو گیا۔ اور ملک طویل مدت تک آمریت کے آسیب میں چلا گیا۔
جس سے ملک کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ اٹھانا پڑا۔ اور ایک نواز شریف کی غلطی کی سزا پورے ملک کو بھگتنی پڑی۔

یہ مشرف کی وطن واپسی پر بھی انھیں معطل کر سکتے تھے۔ یہ وزیراعظم کے پاس اختیار ہوتا ہے۔
 لیکن نواز شریف کی ضد، انا اور ہٹ دھرمی آڑے آ گئی۔ اور یہ آئینی کام بھی غیر آئینی انداز سے کر بیٹھے۔ جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ بلکہ مشرف دور کے کچھ فیصلوں کی سزا ملک کو آج بھی بھگتنی پڑ رہی ہے۔ جس میں دہشتگردی، افغان مہاجرین کا مسئلہ تو سر فہرست ہیں۔

جبکہ ملک کی سلامتی اور استحکام کو جو ضرب لگی اور جو جگ ہنسائی ہوئی، وہ ایک اور درد ناک کہانی ہے۔
تو یوں ایک عجلت اور ذاتی خواہش پر کیا گیا نواز شریف کا فیصلہ ملک کےلئے اتنا بھاری ثابت ہوا۔ اب پھر نواز شریف کا بیانیہ خطرناک ہے۔ یہ ایسا بیانیہ ہے, جو ملک میں خون وکشت بہا سکتا ہے۔ نواز شریف براہ راست ملکی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

جو ان کا ہمیشہ سے وتیرہ رہا ہے۔ نواز شریف اپنے مفاد کےلئے اور اقتدار کی ہوس میں کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ نواز شریف کا یہ مؤقف درست ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔ لیکن یہ آج نواز شریف کو کیوں یاد آیا؟ یہ جب بھی خود اقتدار میں آئے، اس کے پیچھے انھی پس پردہ قوتوں کا ہاتھ تھا، جن کے خلاف یہ آگ کا کھیل کھیلا رہے ہیں۔

وہی بات جو کسی شاعر نے کہی تھی،  مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے۔ لیکن اب اس کو جب سارے راستے مفقود نظر آ رہے ہیں تو یہ ملکی سلامتی کے خلاف بیانیہ پر اتر آئے ہیں۔ جب یہ اقتدار میں ہوں، تو سب درست لیکن کوئی اور ہو تو وہ دھندلی، اور غلط راستے اقتدار پر آتا ہے۔ نواز شریف کو قوم تین بار آزما چکی ہے۔ اگر یہ واقعہ سمجھتے ہیں کہ ان پر جو کرپشن کے کیس ہیں، وہ غلط ہیں۔

تو وہ ملک آئیں اور عدالتوں کا سامنا کریں۔ یہ عدالتیں پہلے بھی ان کو ریلیف دے چکی ہیں۔ لیکن جن کیسز پر ان کو سزا ہو چکی ہے، ان کا سامنا جواں مردی سے کریں، لیکن جب دامن ہی صاف نہ ہو تو جواں مردی کاہے کو۔ اگر نواز شریف آپ نے مفرور رہنا ہے تو خدارا کم از کم ملک کے خلاف تو زہر نہ اگلیں۔ ان ماؤں کی دکھتی رگوں کو تو نہ چھیڑیں، جن کے لخت جگر اس ملک کی سلامتی کی خاطر اپنی جانیں قربان کرتے ہیں۔

خدارا اس ملک پر رحم کریں، وہ بیانیہ کیوں اختیار کرتے ہو، جس کا کل کلاں دشمن کو فائدہ ہو؟ حکومت بھی ہوش کے ناخن لے۔ ہر کسی کو غدار ڈکلیئر کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ کل کو  حکومتی عہدیداروں پر بھی یہ غداری کا ٹیگ لگ سکتا ہے۔ اور اگر حکومت سمجھتی ہے، نواز شریف واقعی غدار ہے تو عدالت سے رجوع کیا جائے۔ جو غدار ہیں ان کے خلاف ثبوت پیش کر کے کاروائی عمل میں لائی جائے۔

لیکن افسوس یہاں غدار تو بچ نکلتے ہیں، مگر حب الوطن آمر کے ہاتھوں  پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیے جاتے ہیں۔ غدار تو ایک سابق جنرل بھی قرار پا چکا ہے۔ کیا اس کے خلاف بھی کاروائی ہو سکے گی؟ غدار تو لنڈن میں بیٹھا الطاف بھی ہے، اس کو کون سزا دے گا؟
حکومت سے گذارش ہے کہ فری کا غدار سرٹیفکیٹ نہ بانٹیں ۔ یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ روایت درست نہیں ہے۔ ایسی روایات انتشار اور بد امنی کو جنم لیتی ہیں۔ ہاں جس کے خلاف غداری ثابت ہو جائے، پھر اسے عبرت ناک سزا دی جائے۔ لیکن کسی کو ٹھوس وجہ کے بغیر غدار کہنا، نامناسب اور بچگانا حرکت ہے۔ اس سلسلہ کو ختم ہونا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :