بلوچ قوم وفادار ہے

پیر 12 اکتوبر 2020

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

محمد ارشد ابڑو کا تعلق بلوچستان سے ہے۔یہ میرے ہم جماعت بھی ہیں،اور ہم کمرہ بھی۔یہ سندھی النسل ہیں،لیکن ان کا خاندان دو پشتوں سے بلوچستان میں مکین ہے۔اسی وجہ سے بلوچستان کےلئے محبت اس کے انگ انگ میں رچی ہوئی ہے۔یہ بلوچستان کے مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ہمارے دن کا بیشتر حصہ بلوچ قوم کے مسائل،ان کے تحفظات،اور پاکستان سے وابستگی کے موضوع پر بحث و مباحثہ کرتے ہوئے گزرتا ہے۔

بلوچستان کے مسائل اور ان کے حل کے بارے ارشد نے دو بڑی دلچسپ باتیں کیں ہیں۔یہ کہتے ہیں،"پاکستان دو اہم کام کر دے،بلوچستان سے علیحدگی پسند تحریکوں کی بو تک نہیں آئے گی۔پہلا کام یہ کہ،مقامی عوام کو نوکریاں دی جائیں۔دوسرا جو معدنیات،قدرتی وسائل پاکستان،بلوچستان سے نکلاتا ہے،پہلے وہ بلوچستان میں استعمال کیے جائیں۔

(جاری ہے)

ان کا فائدہ بلوچستان کی عوام کو دیا جائے۔

اس صورت میں یہ کبھی بھی پاکستان کے خلاف نفرتوں و کدروتوں کو پروان نہیں چڑھنے دیں گے۔بلوچ عوام اپنا جائز حق مانگتی ہے،بدلے میں پاکستان کےلئے جان بھی قربان کر دے گی"۔انھوں نے بتایا کہ جو لوگ بلوچستان علحیدگی کی باتیں کرتے ہیں،وہ انگلیاں پر گنے جا سکتے ہیں،جبکہ جو پاکستان سے پیار کرتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں،ان کی تعداد اکثریت میں ہے۔

لیکن اس کے باوجود،"ہمارے ساتھ بہت زیادتیاں کی جاتی ہیں۔ہمارے پاس کئی ایسے علاقے ہیں،جہاں صاف پینے کے پانی کی سہولت تک نہیں ہے۔تعلیم اور صحت کی سہولت بھی برائے نام ہے۔بجلی کا بحران ہے۔پورے پنجاب کی گیس بلوچستان سے جاتی ہے،لیکن بلوچستان کے شہروں میں گیس کی کمی ہے۔انھوں نے مزید بتایا،کہ بلوچستان کے بڑے بڑے شہروں میں سڑکوں کی حالت خراب ہے۔

جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب کے شہروں کی گلیاں بھی پختہ ہیں"۔انھوں نے بتایا کہ پنجاب کے لوگ سمجھتے ہیں،کہ بلوچستان کا اصل مسئلہ سرداری نظام ہے۔کسی حد تک یہ بات درست ہے لیکن اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔یہ کہتے ہیں،ایک طرف بلوچستان میں سردار اور نواب ہیں تو دوسری جانب غریب عوام بھی کافی تعداد میں ہے۔جن کو پیٹ بھر کے کھانا تک نہیں ملتا۔پھر ایسی صورتحال میں علاقے کے سرادر ایسے لوگوں کو اپنی زمینیں دیتے ہیں،جن پر وہ محنت کرکے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔

روزی روٹی کی کمی  جیسی صور تحال  میں انسان کو پہلے اپنا پیٹ بھرنا ہوتا ہے۔اس کےلئے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔اسی لیے ممکن ہے،سردار ایسے لوگوں کو اپنے مقاصد کےلئے غلط بھی استعمال کرتے ہوں۔جب ریاست اپنا کردار ادا نہ کرے تو شہری اپنے گزر بسر کےلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ان کا موقف ہے کہ بلوچستان سے سارے پاکستان کا نظام چل رہا ہے۔جتنے بھی بلوچستان کے قدرتی وسائل ہیں۔

وہ ریاست استعمال کررہی ہے۔لیکن اس کے بدلے میں بلوچستان کو کچھ بھی نہیں مل رہا۔ایک گوادار پورٹ پاکستان کی قسمت بدل کے رکھ دے گی۔لیکن یہاں بھی بلوچ قوم کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔یہاں بھی لیبر تک باہر کی استعمال ہورہی ہے۔حالانکہ یہ حق مقامی لوگوں کا ہے۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو بلوچستان میں ایک بھی جامعہ ایسی نہیں جو عالمی معیار کی تعلیم دے رہی ہو۔

جہاں پر طالبعلموں کو سہولیات دے جا رہی ہوں۔اور پھر پورے صوبے میں جامعات کی تعداد بھی بہت کم ہے۔جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔انھوں نے مزید بتایا کہ "مسینگ پرنس"بھی بلوچستان کا مسئلہ ہے۔آئے روز لوگ غائب ہو جاتے ہیں،جن کا سوراخ تک نہیں ملتا۔"یہ مسلسل بولتے رہے اور میں ورطہ حیرت میں ڈوبا سنتا رہا ہے۔میرے پاس جواب دینے کو کچھ نہ تھا۔بلوچ قوم کی اپنی منفرد سائیکی ہے۔

یہ کردوں کے بعد دوسری بڑی قوم ہے۔جو ایک سے زائد ممالک میں پھیلی ہوئی ہے۔یہ ایک جنگجو قوم ہے۔جو صدیاں سے مختلف طاقتوں سےجنگ لڑتی آرہی ہے۔اس قوم نے کبھی بھی ہار نہیں مانی۔اس قوم کو ہمیشہ دھوکے سے زیر کیاگیاہے۔طاقت سے اسے کوئی بھی مات نہیں دے سکا۔انگریز گورنر سنڈیمن نے بلوچ قوم کی نفسیات کے بارے کہا تھا"یہ وہ قوم ہے،جسے طاقت سے دنیا کی کوئی بھی قوم شکست نہیں دے سکتی،پیار سے یہ قوم اپنی جان تک حاضر کر دیتی ہے۔

"اب اگر ہم موجودہ صورتحال کے پس منطر میں بلوچستان کے مسئلہ کی بات کریں، تو جہاں تک بلوچستان علحیدگی پسند تحریکوں کی بات ہے۔وہ کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہے۔دنیا کی کوئی ریاست کسی کو یہ حق نہیں دیتی کہ اس ریاست میں بغاوت کی صورتحال پیدا کرکے حالات کو خراب کیا جائے۔جو بھی اس تحریک کا حصہ ہیں،ان کو سزا دی جائے تاکہ ان کا خاتمہ ہوسکے۔

لیکن دوسری طرف اگر بات کی جائے بلوچستان کے مسائل کی تو وہ کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔واقعی بلوچستان کو ریاست نے ہمیشہ نظرانداز کیا۔ہمیں ماننا ہوگا،ہم بلوچستان کو اس کا حق نہیں دے سکے،ہم وہاں کی عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات تک دینے میں ناکام رہے۔وہاں آج کی جدیدترین دنیا میں بھی لوگ تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔وہاں کے لوگ آج بھی علاج معالجے کےلئے سندھ جاتے ہیں۔

اگر کوئٹہ شہر کے علاوہ بلوچستان کے کسی علاقے میں بم دھماکہ ہو جائے،یا کوئی ہنگامی حالات پیدا ہو جائیں، تو مریضوں   کودوردراز سے سندھ لایا جاتا ہے،جن کی اکثریت راستے میں ہی دم توڑ جاتی ہے۔جوکہ قابل افسوس امر ہے۔ریاست کو اپنا رول پلے کرنا ہوگا،نئی جامعات  کی تعمیر کرنی ہوگی،لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانا ہوگا۔تعلیم ہی واحد راستہ ہے جو نہ صرف بغاوت کے جراثیم کو ختم کر سکتا ہے بلکہ سرداری نظام جیسے متروک سسٹم کا قلع قمع بھی کرسکتا ہے۔

دوسری طرف صحت جیسی بنیادی ضرورت کو جلد از جلد ممکن بنانا ہوگا۔نئے ہسپتالوں کی تعمیر کرنی ہوگی۔ایسے اقدام سے نہ صرف تعلیم اور صحت کی سہولیات میسر آئیں گی،بلکہ لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔اس کے علاوہ جتنے بھی بلوچ قوم کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے تحفظات ہیں،ان کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہوگا۔دونوں فریقین کو ذمےداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے،مسائل کے حل کی جانب قدم بڑھانا ہوگا۔

اسی میں سب کا فائدہ ہے۔پوری دنیا میں طاقت اور جنگ کبھی بھی مسائل کا حل ثابت نہیں ہوئے،بلکہ یہ مسائل میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔بلوچ قوم پاکستان سے پیار کرتی ہے۔اس کو اپنا وطن سمجھتی ہے۔بلوچ قوم وفادار ہے،انھوں قیام پاکستان میں بھی اپنا کردار ادا کیا تھا۔اور اب بھی کر رہے ہیں۔چند شرپسند عناصر حالات خراب کر رہے ہیں،ان کا مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔

جبکہ جو لوگ ملک سے وفادار ہیں، ریاست کو ان کے مسائل کا تدارک کرنا ہوگا۔تب جا کر ہم ایک مضبوط و مستحکام قوم بن سکتے ہیں۔اگر خدانخواستہ،اب بھی ریاست بلوچستان کے مسائل کے حل کو اپنی بنیادی ترجیحات میں شامل نہیں کرتی،تو ہمیں بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔ پہلے بہت نقصان ہو چکا،خدارا مسائل کے حل کی جانب آئیے،ہمارا پیارا پاکستان بہت گھاٹے برداشت کر چکا،اب مزید گھاٹے برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔پرامن اور مضبوط بلوچستان ہی مستحکام پاکستان کا ضامن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :