خان جی چیک اینڈ بیلنس کب ہوگا؟

جمعرات 29 اگست 2019

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

کمپوچیہ نامی ملک فارس کا بادشاہ گزرا ہے جسے تاریخ کے صفحات میں نوشیرواں عادل کی سی شہرت تو نصیب نہ ہو سکی لیکن اس کا عدل روز روشن کی طرح عیاں اور چمکدار ہے۔اس کے دور میں عدالتیں عدل،سفارتی تعلقات،وزارتیں اور عمْال فرائض منصبی کی ادائیگی، سیاسی دانشوراور مذہبی زعمااپنے اپنے حلقہ اختیارات میں عدل وانصاف سے کام لیتے تھے،گویا ہر سو عدل کی حکمرانی تھی۔


انصاف کا بول بالاکیوں کر نہ ہوتا جب خود کمپوچیہ کا نظام عدل کچھ اس طرح کا تھا کہ ایک بار اس کے دربار میں قتل کا ایک مقدمہ پیش کیا گیا جس میں جج پر یہ الزام تھا کہ اس نے مالی رشوت لے کر فیصلہ ایک امیرزادے کے حق میں کردیا ہے۔بادشاہ نے تحقیق کا حکم نامہ جاری کیا،تحقیق و تفتیش کے بعد جج کو مالی رشوت میں ملوث پایا گیا تو اس پر کمپوچیہ نے عجب فیصلہ صادر فرمایا کہ جج کو فوری طور پر برخواست کر کے عدالتی شہ نشین پر اس کے بیٹے کو بطور منصف بٹھا دیا جائے،دربار میں موجود وزرا کی ایک جماعت حیران وششدر بادشاہ کے اس فیصلہ پر حیرت کی تصویر بنے بیٹھے تھے کہ بادشاہ نے اپنے ادھورے فیصلہ کو تکمیلی کلمات سے اس طرح نوازا کہ معزول جج کو کھال اتار کر بیٹے کو کرسی انصاف پر بٹھانے سے قبل اس کی پوشش باپ کی کھال سے کر دی جائے تاکہ جب معزول باپ کا بیٹا اپنے ہی باپ کے غلط فیصلہ کی وجہ سے اتروائی کھال کی پوشش پر بیٹھ کر کوئی غلط فیصلہ صادر کرے گا تو اسے اپنے باپ کا انجام ضرور روکے گا کہ کہیں میری کھال بھی کرسی کی پوشش کا سامان نہ بن جائے۔

(جاری ہے)

پی ٹی آئی کی حکومت کو ایک سال گزر چکا ہے ابھی چند روز قبل ہی تعطیلات گرما پاکستان میں گزارنے کا اتفاق ہوا تو پاکستانی کی موجودہ سیاسی،معاشی اور عوامی صورت حال کا صحیح اندازہ ہوا،عوامی اور کاروباری لوگوں سے حال احوال اور ملاقاتوں ،شاپنگ اور مشاہدات و تجربات سے جو نتائج میری سمجھ میں آئے قارئین کی نذر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔

سب سے پہلا مشاہدہ جس سے واسطہ پڑا وہ عام آدمی کے لئے روزمرہ اشیا کی خریداری میں مشکل بوجوہ قیمتوں میں گرانی ہے،کوئی مانے نہ مانے یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔پٹرول پمپ کے مالکان پٹرول بے خطر من مانی قیمتوں پر فروخت کر رہے ہیں مثلا حکومت پاکستان نے پٹرول کی قیمت 17.80 1 روپے مقرر کی ہے تاہم ہر پمپ والا 120 روپے کھلے عام فروخت کر رہا ہے۔عوام خاموش تماشائی بنے مہنگائی کے اس سیلاب کو پہلے کی طرح برداشت کئے جا رہے ہیں۔

ٹیکسز کی بھرمار اور سرکاری اہلکاروں کا عام آدمی کو بلیک میل کر کے ٹیکس اور ذاتی وصولی عام فیشن بنتا دکھائی دے رہا ہے۔پولیس کا نظام بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ہسپتالوں میں عام ٹیسٹ پر بھاری فیس عائد کر دی گئی ہے،الغرض تیل نہ مٹھائی چولھے دھری کڑھائی۔
اب وہ عوامی خیالات جس سے تھوڑی امید بندھی کہ نہیں نظام بہتری کی طرف مائل ہے اس میں محکمہ تعلیم کے دو پرنسپلز سے ملاقات کا احوال ہے کہ جن کا کہنا تھا کہ محکمہ تعلیم میں اب سفارش اور رشوت کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی کیونکہ پورا سسٹم کمپیوٹرائزڈ ہونے کی بنا پر ٹرانسفر اور ریٹائرمنٹ کے معاملات اب آپ کی دہلیز پر مل رہے ہیں،دل خوش ہوا کہ چلیں ابھی بھی نظام کی بہتری کے چانسز ہیں۔

مزید محکمہ ڈاک کے ساتھ میرا ذاتی تجربہ یہ ہوا کہ ملازمین کے رویوں سے لے کر پارسل فیس تک خاطر خواہ تبدیلی اور بہتری دکھائی دی۔
یہ سب آپ تک پہنچانے کا مقصد یہ تھا کہ شدید الاحساس ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ حالیہ حکومت سے مایوس ہوکر عوام کو تصویر کا ایک ہی رخ دکھاؤں نہیں بلکہ دونوں پہلو میں نے ایمانداری کے ساتھ اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے آپ تک پہنچائے ہیں۔

اب مسئلہ کا حل ماسوا اس کے اور کوئی نہیں کہ گربہ کشتن روز اول،یعنی بلی کو پہلے دن ہی مار دیا جائے۔اور عمران خان یہ کام کرنے میں تاخیر پہ تاخیر کئے جا رہے ہیں۔خان صاحب جس یورپ کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے ان ممالک میں چیک اینڈ بیلنس سسٹم سب سے مضبوط ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ عوام اور سرکاری اہلکار کوئی عوام دشمن یا ملک دمن کام کرتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں،خود اس عمل سے ابھی تک کوسوں دور دکھائی دیتے ہیں۔

میرا مشورہ یہ ہوگا کہ ایک سال میں ہم نے کافی مانگ لیا،خارجہ تعلقات پر بھی کافی توجہ دے لی اب انہیں ہاتھ دھو کر داخلی معاملات پر بھی بھرپور توجہ دینی پڑے گی تاہم ملکی داخلی حالات بہتر ہو پائیں،ان تمام معاملات کو کنٹرول میں کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ چیک اینڈ بیلنس سسٹم سے کرپٹ لوگوں کو آہنی ہاتھوں سے ٹھیک کیا جائے یہی حکومت کی کامیابی ہوگی۔لیکن خان صاحب یہ عمل کب شروع کیا جائے گا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :