طیب اردگان،عمران خان اور اسلام

جمعہ 27 ستمبر 2019

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

حضرت علی  کا قول ہے کہ اگر ایک بھیڑ سو شیروں کی راہنما ہو تو شیر بھی بھیڑوں جیسی خصوصیات کے مالک ہو جاتے ہیں اور اگر ایک شیر ایک سو بھیڑوں کا راہنما ہو تو بھیڑوں میں بھی شیر جیسی خوبیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔گویا لیڈر میں اگر صلاحیتیں ہوں گی تو وہ بزدل اورنالائق قوم کو بھی شیر بنا دے گا اور اگر راہنما خود بزدل ہو تو قوم کبھی دلیرانہ خصوصیات کی حامل نہیں ہو سکتی۔

شائد اسی لئے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال نے ایسے ہی کسی خیال کو شعری پیراہن میں اس طرح بیان کیا ہے کہ
نگاہ بلند،سخن دلنواز،جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لئے
تاریخ پاکستان کے صفحات کا مطالعہ کریں تو ہما رے علم میں یہ بات آتی ہے کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح گول میز کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے انگلینڈ گئے توکچھ تحفظات کی بنا پر ہندوستان واپس نہ آئے،جب حضرت علامہ اقبال نے ان کی کمی اور ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے انہیں واپسی ہندوستان آنے اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کی استدعا کی تو انہوں نے وطن واپسی پر علامہ اقبال سے جاوید منزل میں ملاقات کی،جس پر علامہ اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار ایک شعر میں اس طرح سے کیا کہ
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
اب میرے رازداں اور بھی ہیں
اگرمسلمانوں کی حالیہ حالت زار کو دیکھا جائے تو عصر حاضر میں نیویارک میں جاری اقوام متحدہ کے74 ویں اجلاس میں ترکی کے صدر طیب اردگان اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے مسلمانوں کے موقف کو جس بے باکانہ اور مدلل انداز میں میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے عہد ماضی قریب میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

(جاری ہے)

سائیڈلائن ملاقاتوں کے علاوہ ترکی اور پاکستان کی”نفرت انگیز بیانیے کے خلاف“عالمی کانفرنس کا انعقاد مسلمانوں کے مثبت تاثر کو پیش کرنے کی ایک بڑی شاندار کاوش ہے۔عمران خان نے جس انداز میں مسلمانوں کے امیج کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دل میں اسلام اور آقا دوجہاں حضرت محمد ﷺ کے لئے کتنا عشق ہے۔انہوں نے کہا کہ مغرب نہیں سمجھ سکتا کہ جب کوئی اسلام کے خلاف بات کرتا ہے یا پھر ناموس رسالت کے خلاف بولتا ہے تو ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ہے کیونکہ ان کے مذہب کے ساتھ ویسا جذباتی لگاؤ نہیں ہے جیسا کہ مسلمانوں کا اپنے مذہب اور حضرت محمدﷺ کے ساتھ ہے۔

ہمیں جسمانی تکلیف سے کہیں زیادہ اذیت پہنچتی ہے جب کوئی توہین رسالت کا مرتکب ہوتاہے۔اصل میں نائن الیون کے بعد دنیا نے دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑا جبکہ اس سے پہلے ستر فیصد خودکش حملے تامل ٹائیگر کرتے تھے جو کہ ہندو تھے۔نیوزی لینڈ میں مسجد میں حملہ ہوا اس میں انچاس مسلمان مارے گئے لیکن اسے مذہب سے نہیں جوڑا گیا کیونکہ حملہ آور مسلمان نہیں تھا۔

دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے بھی خود کش حملے کئے اسے بھی مذہب سے نہیں جوڑا گیا بلکہ اس پر تو موویز بھی بنائی گئیں۔مغرب میں ہولوکاسٹ پر بات نہیں کی جا سکتی لیکن ناموس رسالت پر حملوں کو اظہار رائے کی آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔سلمان رشدی جیسے لوگ جب حرمت رسول ﷺ پر حملے کرتے ہیں تو ہمارے دلوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے،مجھے یاد ہے جب میں اٹھارہ سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنے انگلینڈ گیا تو وہاں میں نے monty pythonکی life of brian دیکھی جس میں عیسی  کا مضحکہ اڑایا گیا ہے ،انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں صرف ایک اسلام ہے جو ہمارے پیغمبر ﷺ نے ہمیں دیا ،کوئی اعتدال اور انتہا پسند اسلام نہیں ۔


طیب اردگان نے تو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے پورے عالم اسلام میں جہاں پر بھی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ گرائے جا رہے ہیں ان کا بطور خاص تذکرہ کیا جیسے کہ روہنگیا،افغانستان،کشمیر،فلسطین اور شام۔اسرائیل کا وہ نقشہ جو 1947 میں تھا اور اب ہے پوری دنیا کو دکھا کر ہاؤس میں ایک سوال رکھا کہ اسرائیل کیوں پھیلتا جا ریا ہے اور فلسطین کیوں سکڑتا جا رہا ہے،کیا ہم اسرائیل کے ساتھ جنگ کر سکتے ہیں وہ اب بھی فلسطین پر قبضہ جمائے ہوئے ہے،سیکورٹی کونسل کیا کر رہی ہے۔

جنرل اسمبلی اور اس کی قراردادیں کہاں ہیں؟ہم اس چھت تلے صرف قراردادیں پیش کر رہے ہیں اور کچھ نہیں۔آپ بتائیں کہ انصاف کہاں غالب آرہا ہے۔دونوں راہنماؤں کی دنیا کے سامنے اسلام کی اصل حقیقت بیان کرنا اتنا آسان کام نہیں،کیونکہ اس سے قبل ایسا تاریخ نے نہیں دیکھا۔اگرچہ ایک آواز ہے جو اٹھائی گئی ہے مگر میرا خیال ہے کہ ایک آواز ہی دراصل ایک انقلاب کی داعی بھی ہوسکتی ہے،بقول ظفر اقبال ظفر
حق تو یہ ہے کہ ایوانِ خوشامد میں یہاں
ایک آوازہ انکار بھی قربانی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :