بٹ سے خان تک

منگل 10 مارچ 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کہا تھاکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے تو اس کے پیچھے ایک مکمل فلسفہ سیاست اور پاکستان کی معاشی پالیسی مضمر تھی،اور اگر اس شہ رگ کو کاٹنے کی کوشش کی جائے یا خاکم بدہن کٹ جائے تو یاد رکھئے گا کہ پاکستان کا معاشی قتل ہوجائے گا کیونکہ پاکستان کی تین بڑے دریا اسی وادی خلد سے آتے ہیں اور پانی کے بغیر زندگی بے معنی اور شاداب زمین بنجر ہو جاتی ہے۔


کشمیر اپنی خوبصورتی اور بٹوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔میاں نواز شریف صاحب کا تعلق بھی چونکہ کشمیری خاندان سے ہونے کی بنا پر بٹ ہی خیال کیا جاتا ہے تو کشمیر کو مقبول کرانے میں اس خاندان کا بھی کچھ ہاتھ ضرور ہے اگرچہ تین بار منتخب وزیراعظم بننے کے باوجود انہوں نے کشمیر کے لئے اتنی آواز نہیں اٹھائی جتنی کہ اٹھانی چاہئے تھی۔

(جاری ہے)

اس کی شائد بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ میدانِ سیاست میں ایک لمبی اننگز کھیلنا چاہتے تھے،یہی وجہ ہے کہ جیسے غلام ابنِ غلام ہوتے ہیں ویسے ہی بادشاہ کا بیٹا بادشاہ کے مصداق اس خاندان کی بھرپور کوشش رہی کہ اپنوں اور صرف اپنوں کو ہی جانشین بنایا جائے۔جس کی واضح مثال سیاست میں جانشینی اور اپنوں کو نوازنے کی پالیسیاں تھیں،جس کا خمیازہ اب بھگت رہے ہیں،کہ اپنے ہاتھ سے نہ صرف حکومت چھن گئی بلکہ ملک بدری اور بیماری کو ایک ساتھ لئے پھر رہے ہیں۔

اب جبکہ بٹ خاندان کی حکومت قومی و صوبائی سطح پر نہیں ہے تو انہیں ہر وہ مسئلہ یاد آرہا ہے جو حکومت کو ناکام کرنے کے لئے بطور سیاسی حربے ہر سیاستدان آزماتا ہے جیسے کہ ملک کی معیشت تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے،مہنگائی کا منہ زور جن منہ کھولے عوام کی زندگیوں کو کھائے جارہا ہے اور حکومت بھنگ کے پکوڑے کھائے سو رہی ہے،نظم وضبط کا مکمل فقدان نظر آرہا ہے ،لاقانونیت کا راج ہے،ملک کرپٹ ہاتھوں میں چلا گیا ہے،عوام کو دو وقت کی روٹی بھی دستیاب نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔

عرصہ پنتیس سال حکومت کرنے والوں کو یہ سب مسائل اور عوام کا پست معیارِ زندگی چار دہائیوں سے کیوں نظر نہیں آرہا تھا۔
عوام کو توپٹرول سے لے کر دال آٹے کی قیمتیں ہر دور حکومت اور ہر سال آسمانوں کو ہی چھوتی ملی ہیں اور ہر حکومت زمام ِ اقتدار سنبھالتے ہی واویلا مچانا شروع ہوجاتی رہی ہے کہ ہمیں خزانہ خالی ملا ہے،ملکی کی معیشت بیمار ہے۔

حکومت کی طرف سے کبھی بھی عوام کے لئے خیر کی خبر نہیں آئی،جب بھی کوئی خبر آئی یہی آئی کہ مہنگائی آرہی ہے،مہنگائی ہو رہی ہے،اگر ایسا نہیں تو پھربیس روپے من بکنے والا آٹا چالیس روپے فی کلو کیسے ہوگیا۔گویا مہنگائی جس تسلسل سے ہوتی رہی اس رفتار سے عوام کو رزگار کی سہولیات فراہم کرنے اور ان کی آمدن بڑھانے میں ہر حکومت ناکام رہی ہے۔جن ممالک میں بھی فی کس آمدن کم ہوگی وہاں عوام کبھی بھی خوش حال نہیں ہوسکتی۔

خوش حالی لانے کا ایک ہی حل ہوتا ہے کہ پس اندازی کو بڑھایا جائے اور اخراجات کو کم کیا جائے،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بچت تو تب ہوگی نا جب لوگوں کے پاس پس اندازی کے لئے مناسب پیسیہ ہوگا۔
بٹ خاندان کی من مانیاں اور پی پی کی عیاشیوں سے سوئی ہوئی عوام بیدار ہوئی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نا اس بار ایک نئی پارٹی جس کی سربراہی خان کر رہا ہے جو ہمارا قومی ہیرو بھی ہے،ظاہرا ًایماندار دکھائی دیتا ہے،اس کے سینے میں غریب عوام کا درد بھی محسوس ہوتا ہے،ہو سکتا ہے کہ غرباکے مسائل کا مداوا یہی شخص کرے،اس نئی سوچ نے تحریک کی صورت اختیار کرتے ہوئے خان کو ملک کا وزیراعظم بنا دیا۔

اب ملک اور عوام کے مسائل کے حل کا امتحان یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ ایک سو دن سے بات چلتی چلتی دو سال تک پہنچ چکی ہے۔دو سالوں میں مہنگائی،ٹیکس،قانون کے اطلاق کا فقدان اور چیک اینڈ بیلنس کے نہ ہونے کے سوا عوام کے لئے کچھ خاص ہوتا نظر نہیں آیا۔آئی ایم ایف کے پاس یہ حکومت گئی،مہنگائی اس دورِ حکومت میں ریکارڈ ہوئی،وزرا،سیکرٹریوں اور قائمہ کمیٹیوں کی ایک فوج ظفر موج اسی طرز پر سرکاری عیاشیوں میں مصروف ہیں جیسی کہ بٹ خاندان کے دور حکومت میں ہوتے تھے۔

گویا چہرے ہی تبدیل ہوئے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ صرف ایک چہرہ ہی تبدیل ہوا ہے جو کہ وزیر اعظم کا اپنا چہرہ ہے باقی سب تو وہی چہرے ہیں جنہیں اسمبلی میں عوام ہر حکومت میں دیکھتی ہے لیکن ہربار کسی اور جماعت میں۔
برقی وگیس بل سے عوام بلبلا رہی ہے،آٹا دال اور چاول عوامی دسترس سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ حکومتی نمائندے روزانہ شام ٹاک شوز میں آٹے کی فی من قیمت بتا کر چین کی بانسری بجاتے سو جاتے ہیں لیکن انہیں یہ پتہ نہیں کہ جس ملک کا وزیراعظم لاکھوں تنخواہ اور مراعات لے کر کہتا ہے کہ میرا گزارہ مشکل سے ہوتا ہے ، تووہ اس بات سے بے خبر کیسے ہے کہ چند ہزار روپے مزدوری والا مُزد کیسے اپنے زندگی احسن طریقے سے گزار سکتا ہے۔

اسے ریاست مدینہ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت عمر فاروق کا وہ تاریخی جملہ کیوں یاد نہیں آتا ”اگر دریائے دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرگیا تو اس کا جواب بھی عمر کو دینا ہوگا“۔
اس لئے خان صاحب سے التجا ہے کہ بٹ نہ بنیں بلکہ خانوں والی روایات کو اپناتے ہوئے حقیقی معنوں میں ریاست مدینہ نہیں تو اس کی ایک جھلک ہی دکھا دیں کہ جس میں بھلے امیروغریب برابر نہ کھڑے ہوں تاہم غریب اپنی منشا ومرضی کے مطابق اپنی زندگی معاشی بت فکری سے گزار سکے۔یقین کریں لوگ بٹ خاندان کو خود ہی بھول جائیں گے وگرنہ عوام کے لئے تو بٹ اور خان میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :