قرض کی پیتے تھے مے۔۔۔۔

جمعرات 20 اگست 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

پاکستان معرض وجود میں آیا تو ہماری قیادت اور عوام پرجوش وپرعزم تھی کہ ہم مل کر اسے ایک فلاحی ریاست بنائیں گے۔جن مشقتوں،مشکلات اور مصیبتوں سے مسلمانان برصغیر نے پاکستان کے حصول کو ممکن بنایا تھا ان کی داستان تو ایسے لٹے ہوئے قافلوں کی زبانی ہی سنی جا سکتی ہے جنہوں نے اپنا تن من دھن اور عزت وناموس اس ارض مقدس پہ قربان کردی۔

اسی عزم کے پیش نظر ہی قائد اعظم نے کہا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو دنیا کے نقشہ سے نہیں مٹا سکتی۔یہ فیصلے تو زمین پر بسنے والے انسانوں کے ہوتے ہیں لیکن آسمانوں پر ہونے والے فیصلے کبھی کبھار آپ کی مرضی کے برعکس ہوتے ہیں۔ان فیصلوں میں قدرت کا عمل دخل یہ ہوتا ہے کہ وہ ہم لوگوں کو وارننگ دیتی ہے کہ اب بھی سنبھل جاؤ وگرنہ عہد رفتہ کی طرح تمہیں بھی مٹا دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

ہوا یوں کہ پاکستان کی تعمیر کے پہلے دس سال ہم یہ فیصلہ ہی نہ کر پائے کہ ہمارے لئے کون سا نظام حکومت بہتر ہوگا۔کبھی گورنر راج تو کبھی جمہوریت کا الاپ،کبھی سکندر تو کبھی چوہدری اپنی من مانیاں کرتے رہے۔ایسے میں ایوب خان کو موقع مل گیا کہ کیوں نہ اس ملک پہ مارشل لا کی قسمت کو آزمایا جائے۔ایوب خان نے 1958 میں ملک پاکستان میں فوجی حکومت کو نافذ کردیا اور اپنی اس حکومت کو گیارہ سالہ طویل دور حکومت میں تبدیل کیا۔

اگرچہ اس دور میں بے شمار ترقیاتی وفلاحی کام سرانجام دئے گئے لیکن کچھ طاقتیں جمہوریت کی آڑ میں اپنے گل گھلانا چاہتی تھیں۔خیر ملک میں مارشل لا کا دور ختم ہوا ،جمہوری اداروں کی حکمرانی آئی تو ساتھ ہی قرض کا تحفہ بھی لے آئی۔کیونکہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہونے اور دیگر مسائل کی بنا پرمعیشت کے پہیے کو گھمانے کے لئے کرنسی کی ضرورت تو تھی جسے قرض لے کر پٹڑی پر چڑھا یا گیا۔

اس طرح سے ملک میں بدیشی طاقتوں نے اپنے پنجے اسی طرح سے جمانا شروع کر دئے جس طرح جہانگیر کے دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے جمائے تھے۔
ْقرض کے بارے میں ہمارے ہاں ایک ضرب المثل مشہور ہے کہ دادا لے اور پوتا اتارے۔لیکن ملکوں کی صورت حال پہ شائد یہ بات صادق نہیں آتی کیونکہ یہاں تو سب دادا ہی ہیں نہ جانے پوتا کب آئے گا۔یہ بات میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ ملک پاکستان میں جو کوئی بھی تخت نشین ہوا اس نے دادا کا کردار ادا کرتے ہوئے قرض پر مزید قرض ہی لیا اسے اتارنے کا کوئی سبب پیدا نہیں کیا تو میرا یہ کہنا مبنی بر حقیقت ہے کہ یہاں جو بھی آیا دادا بن کر ہی آیا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ ملک اربوں ڈالر کا مقروض ہو گیا۔بلکہ نسل در نسل مقروض ہوتے جا رہے ،ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والا بچہ ڈیڑھ لاکھ کا مقروض ہوتا ہے۔گویا ہم ایک مقروض نسل پیدا کر رہے ہیں۔اور یہ سلسلہ مزید چلتا دکھائی دے رہا ہے۔کاش قرض کا لیا ہوا یہ پیسہ عوام کی فلاح وبہبود پر لگایا جاتا تو آج پاکستان کی عوام بھی دیگر فلاح یافتہ قوموں کی طرح ہوتی۔


اصل مسئلہ قرض لینا نہیں ہے بلکہ گھمبیرتا یہ ہے کہ آئی ایم ایف،ورلڈ بنک و دیگر اداروں سے حاصل کردہ قرض خرچ کہاں ہوا ہے۔اس لئے کہ عوام تو غریب سے غریب تر ہوتی جا رہی ہے۔اگر یہی سوال کسی بھی حکومتی نمائندے سے پوچھا جائے تو ن لیگ کے حامیوں کا جواب ہوگا کہ انفراسٹکچر یعنی موٹر وے کس نے بنائی،میٹرو کس نے بنائی،یہی سوال اگر پیپلز پارٹی کے کسی نمائندے سے کیا جائے تو پیپلز پروگرام اور بے نظیر انکم سپورٹ کا واویلا مچانا شروع کر دیتے ہیں۔

اور موجودہ حکومت کے حامی تو کہتے ہیں کہ ابھی ہم سے اس بارے میں سوال نہ کیا جائے۔اگر حالیہ حکومتی نمائندہ اس کا جواب دے بھی تو کہتا ہے کہ سابقہ حکومتوں کے قرض ادا کرنے کے لئے ہم مزید قرض لے رہے ہیں۔گویا اب تک سابقہ و موجودہ حکومتوں نے قرض محض اس لئے لئے کہ یا تو سابقہ اسقاط اداکر دی جائیں ،یا انفراسٹکچر پر خرچ کر دیا جائے ی اپھر ایسی اسکیموں کا اجرا پر خرچ کیا جائے جس میں اندھا بانٹے شیرنی وہ بھی اپنوں کو۔

یہ رقم عوام کی فلاح وبہبود پر کب خرچ ہوگی۔میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اشیائے ضروریہ میں سے کوئی ایک چیز ایسی نہیں جس کی قیمت ہوئی یا ان میں استحکام ہوا ہو۔جو ایک بار مہنگائی کی لسٹ مین آگئی پھر وہ طوفان میں اڑنے والے شاپروں کی طرح اوپر سے اوپر ہی گئی ہے واپس نہیں آئی ہے۔کیا قرض کا پیسہ عوام پر خرچ کرنے کے لئے نہیں ہوتا،موٹر وے ،میٹرو اور دیگر ایسے ہی پراجیکٹ پر کل آبادی کا کتنے فیصد غریب عوام استعمال کرتی ہے کبھی اس بات پہ کسی نے غور کیا۔

اشیائے صرف سے لے کر پاور سپلائی تک اور سوئی سے لے کر ہیوی مشینری تک وہ کون سی شے ہے جو عوام کی پہنچ میں ہو۔دو وقت کی روٹی کے چکروں میں ڈال کر ان سے توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ رنگ لائے گی فاقہ مستی ایک دن۔اسی لئے فیض احمد فیض یہ کہتے جان سے گزر گیا کہ
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر تھا جس کا انتظار یہ وہ سحر تو نہیں
یا پھر ایک پنجابی شاعر کی زبانی کہ
پوری روٹی لبھن لئی
برکی برکی ہوئیا میں
افسوس ایسے راہنماؤں پہ نہیں ہوتا کہ جنہوں نے سیاست کو کاروبار اور عوام کو ذہنی غلام بنا رکھا ہے۔

دکھ ایسی عوام کو دیکھ کر ہوتا ہے جو ظلم وبربریت ،تعصب،قیمتوں کا آسمانوں کو چھونا،ناانصافی ،بری صحت،آلودگی و کثیر مسائل کے باوجود انہیں گنے چنے راہنماؤں کے لئے نعرہ لگاتے دکھائی دیتے ہیں کہ آوے گا بھئی آوے گا،فلاں زندہ باد اور فلاں مردہ باد۔شخصیت پرستی کے ان جھوٹے نعروں کی حقیقت کو غریب عوام کب پہنچانے گی کہ یہ سب چہرے بدل بدل کر عوام کے نام سے قرض پہ قرض لئے جا رہے ہیں اور ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا کہ وہ دن دور نہیں جب عوام کا حقیقی معنوں میں پاکستان میں راج ہوگا۔

خدا کے لئے سیاسی راہنماؤں کی ان طفل تسلیوں،جھوٹے وعدوں اور فریبوں سے باہر نکل کر اپنی حالت آپ بدلنے کی فکر کریں۔اور ان پر ہرگز ہرگز نہ رہیں کیونکہ جب مشکل آتی ہے تو وہ ملک میں نہیں رہتے تو آپ کیوں ان کے لئے غلامی کا طوق گلے میں ڈالے زندگی برباد کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔اپنی حقیقت اور اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کو پہچانیں اور اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :