پی ڈی ایم تحریک کس طرف جا رہی ہے؟

جمعرات 11 مارچ 2021

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

حکومت مخالف تحریک پی ڈی ایم کا جب آغاز ہواتھا تھا تو اس کے چند عزائم و مقاصد یہ تھے کہ حالیہ حکومت یعنی عمران خان کے اقتدار کی طوالت کو روکنا،اسٹیبلشمنٹ کے خلاف معرکہ آرا ہونا،جس کا اظہار میاں نواز شریف سے لے کر مریم اور دیگر سیاسی اتحاد کی جماعتوں کے تمام راہنما اپنے اپنے بیانات میں کر چکے ہیں۔اسی جدو جہد کے لئے تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے غیر فطری اتحاد قائم کیا لیکن سینٹ کے انتخابات میں سید یوسف رضا گیلانی کو منتخب کروانے کے لئے پی پی کا سیاسی و معاشی زوراور جدو جہد سے یو ں محسوس ہوا کہ جیسے پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی شمولیت کا ایک ہی مقصد تھا کہ اپنے کسی امیدوار کو سینٹ کا چیئرمین بنا یا جائے۔

ویسے جس اندا ز میں یوسف رضا گیلانی کی انتخابی مہم چلی اس سے تو اندازہ ہو رہا تھا کہ جیسے پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ ہی سینٹ انتخابات ہیں اور اگر گیلانی صاحب چیئرمین سینٹ بن جاتے ہیں تو پاکستان کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔

(جاری ہے)


لیکن ہوا کیا کہ حکومتی حلقہ سے سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اور کہنہ مشق سیاستدان پرویز خٹک نے جمیعت العلمااسلام کے سینئر رکن اور بلوچستان کے منتخب کردہ سینٹیٹر عبدالغفور حیدری سے ملاقات کی اور انہیں ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے لئے عندیہ اور پیش کش کی۔

اگرچہ مولانا غفور حیدری کی طرف سے اس بیان اور ملاقات کے بعد تردید بھی آگئی ہے کہ میں اس پیش کش کو قبول نہیں کروں گا۔لیکن سوال تو اٹھنا شروع ہو گئے کہ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس ملاقات کا خاص کر اس وقت جب کہ پورے ملک کی نظریں سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب پر لگی ہوئی ہیں کا مقصد کیا تھا۔یہ بات بھی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں اسی منصب کے لئے غفور حیدری کا نام پیش کیا تھا جسے کچھ احباب نے رد کردیا۔

اور صادق سنجرانی اور پرویز خٹک سے ملاقات بھی اسی انکار کے بعد ہی ہوئی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے۔اس لئے کہ سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی،کہ آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست ہو سکتے ہیں۔اگر اس بیان کی حالیہ عملی شکل دیکھنا ہو تو پی ڈی ایم کی تحریک اور اس کی بنیاد سے لگا سکتے ہیں۔

کہ پی پی ،ن لیگ اور ق ؛یگ کے سابقہ ادوار میں کیا کیا اختلافات اور بیانات تھے جبکہ آج سب ایک ہی پیالہ میں پانی پی رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اپنے کسی امیدوار کو کیوں ڈپٹی چیئرمین بنانا چاہتے ہیں تو ظاہر ہے کہ مولانا کو تو ایسی کوئی نشست ہی درکار ہے جس کی کوئی اہمیت بھی ہو۔حکومت سے ان کا اتحاد تو ہے نہیں لیکن اگر کسی طرح وہ اس سیٹ پر کامیاب ہو جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ڈپٹی چیئرمیں کے پاس ایسے اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ کبھی سینٹ کا چیئرمین تو کبھی قائم مقام ملکی صدر بھی ہو سکتا ہے۔

جیسے کہ اگر سینٹ کا چیئرمین ملک میں موجود نہیں ہے یارخصت پر ہے تو قائم مقام سینٹ چیئرمین ،ڈپٹی چیئرمین ہی ہوگا۔اسی طرح جب کبھی ملک میں صدر موجود نہ ہو یا چھٹی پر ہو تو قائم مقام صدر سینٹ کا چیئرمین ہوتا ہے تو اگر دوراندیشی کا مظاہرہ کیا جائے تو مولانا عبدالغفور حیدری کومذکور مواقع میسر آسکتے ہیں۔یعنی مولانا صاحب بہت دور کی کوڑی لائے ہیں۔

اسے کہتے ہیں ملکی سیاست۔اور یہی پاکستانی جمہوریت کا حسن بھی ہے کہ جہاں سے مفاد پورا ہو، وہیں ڈیرے ڈال دئے جائیں۔
کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کو سیاست نہیں کرنا آتی،اس سے بہتر پاکستانی سیاست کیا ہو گی کہ حکومت نے حزب اختلاف میں پھوٹ ڈالمے کے لئے ایسی ڈائس پھینکی ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمن حکومت کے ساتھ مل جاتے ہیں اور مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینٹ منتخب کروا لیتے ہیں تو ظاہر ہے وہ حکومتی حمائت کے بنا ممکن نہیں ہ وپائے گا ۔

تو مولانا کے اس فعل سے دو نتائج سامنے آئیں گے ایک تو یہ کہ پی ڈی ایم کے بقیہ اراکین کا ان پر سے اعتماد اٹھ جائے گا اور دوسرا یہ بات بھی کھل کر سامنے آجائے گی کہ مولانا کو صرف اپنے اقتدار سے غرض ہے،اور وہ صرف اقتدار کے حصو ل کی سیاست ہی کرتے ہیں۔اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں میں پھوٹ بھی پڑ سکتی ہے اور حکومت کا مطمع بھی ہے۔

اگر اس بات کو سنجیدگی سے دیکھا جائے تو مولانا کے پی ڈی ایم سے نکل جانے سے یہ اتحاد ٹوٹ بھی سکتا ہے۔اسے کہتے ہیں پاکسیانی جمہوری روایات کی سیاست،جسے عمران خان جیسا نو مشق سیاستدان نہیں سمجھ رہا تھا۔اس پورے سیاسی کھیل سے تو لگتا ہے کہ اب عمران خان کو بھی پاکستانی سیاست کی سمجھ آتی جا رہی ہے۔اگر ایسا ہی سیاسی ماحول رہا تو عنقریب خان ،میاں اور زرداری میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا ۔


میری رائے میں اگر پی ڈی ایم ،جوڑ توڑ اور ذاتی مفاد پرستی کی سیاست کرنے کی بجائے شروع دن سے ہی عوامی مسائل کو ایشو بنا کر چلتی تو آج اس اتحاد کی اہمیت و وقعت کچھ اور ہی ہوتی۔جیسے کہ عمران خان حکومت کے آغاز سے ہی مہنگائی نے سر اٹھانا شروع کردیا تھا،لا قانونیت بھی آغاز سے ہی نظر آنا شروع ہو گئی تھی،پنجاب میں تو وزیر اعظم خاموشی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔

تو ایسی صورت حال میں حزب مخالف کو چاہئے تھا کہ وہ عوامی مسائل کو لے کر اپنی تحریک میں جان ڈالتے۔ایسا کرنے سے ان کو دو طرح کے فوائد حاصل ہوتے ایک تو یہ کہ حکومت سوچنے پر مجبور ہو جاتی اور دوسرا عوام بھی ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے۔لیکن پی ڈی ایم کے زیادہ تر جلسوں میں عوامی مسائل کم اور ذاتی مسائل زیادہ دیکھنے میںآ ئے ،جس کی وجہ سے حزب اختلاف عوام کو اپنے ساتھ ملانے اور انہیں سڑکوں پر نکالنے میں ناکام رہے۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم نے ابھی بھی اپنا قبلہ درست نہیں کیا۔ابھی بھی ذاتی مفادات اور اقتدار کے حصول کی سیاست ہی کر رہے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ انہوں خود بھی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کس سمت میں جا رہے ہیں۔کیونکہ وہی مسافر کامیاب ہوتا ہے جسے اپنی منزل کا تعین ہو۔پی ڈی ایم کو بھی جلد از جلد اپنی منزل کا تعین کر لینا چاہئے وگرنہ اسی طرح در در کے سفر پر ہی گامزن رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :