بے لگام اسرائیل ،خاموش امت ِ مسلمہ

منگل 5 مئی 2020

Naeem Kandwal

نعیم کندوال

کچھ دن پہلے اسرائیل کے وزیر اعظم بنیا مین نتن یاہو اور بنی گانتر نے اتحادی کابینہ کی تشکیل کے معاہدے کا اعلان کیا جس میں کہا گیاکہ جولائی سے غرب اردن کے بعض علاقوں کو مقبوضہ فلسطین میں ضم کرنے کے منصوبے پر عمل شروع کر دیا جائے گا۔ یہ کوئی اچانک نہیں ہوا بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے سوچے سمجھے منصوبے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

جس کے بعد اقوامِ متحدہ میں شعبہ انسانی حقوق کے عہدے دار مائیکل نے اس اقدام کو قانونی ، سیاسی اور اخلاقی طور پر نا قابلِ قبول قرار دیا ۔ برطانیہ کی کنزریٹو سمیت 120سے زائد سابقہ اور موجودہ ممبرانِ پارلیمینٹ نے اسرائیلی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔لیکن بد قسمتی سے اسرائیلی وزیر اعظم کے اس اعلان کے بعد امت مسلمہ کی طرف سے کوئی خاص رد عمل نہیں آیا۔

(جاری ہے)


1945ء میں برطانیہ نے فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی جسے اسرائیل کا نام دیا گیا۔یہودی بیت المقدس پر ہیکل سلمانی کا دعویٰ کرتے آئے ہیں۔ اُن کے اس دعوے کا مقصد یہودیوں کی ایک ریاست قائم کرنا تھا۔ تا کہ عرب ممالک کا کنٹرول حاصل کیا جائے ۔جنوری میں امریکی صدر ٹرمپ نے مشرق وسطی کا امن منصوبہ پیش کیا جسے ” ڈیل آف سنچری “ کا نام دیا گیا۔

اس گھناؤنے منصوبے میں کہا گیا کہ مشرقی یرو شلم پر مکمل اسرائیلی قبضہ تسلیم کیا جائے گا۔ شہر کے ایک حصے میں فلسطین کا دارالحکومت بنایا جائے گا۔چار سال کے لیے یہودی بستیوں کی آباد کاری پر پابندی عائد ہو گی۔ اور جو یہودی بستیاں اب تک تعمیر ہو چکی ہیں، وہ اسرائیل کی ملکیت تصور ہو ں گی۔ جو فلسطینی اپنے گھر چھوڑ چکے ہیں وہ اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکیں گے۔

چار سا ل کا مقصد فلسطینیوں کو موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کریں اور اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔
پوری امت مسلمہ میں ڈیل آف سنچری کے اس بھیانک منصوبے کی حکومتی سطح پر صرف ترکی اور ایران نے مخالفت کی تھی ۔ ترک صدر نے مسلمانوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس منصوبے کی مخالفت نہ کی گئی تو کل مسلمان خانہ کعبہ بھی گنوا بیٹھیں گے۔

ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا تھا کہ ڈیل آف سنچری ایک ڈراؤنا خواب ہے لیکن اسے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے گا۔لبنانی وزیر خارجہ نے اسے خطرناک اور المناک منصوبہ قرار دیا تھا۔ 45اسلامی ممالک میں سے صرف ایران اور ترکی کی طرف سے رد عمل آنا نہایت افسوسناک اور تشویشناک تھا۔ اگر مسلم ممالک کی طرف سے سخت رد عمل آتا تو آج شاید اسرائیلی وزیر اعظم اس گھناؤنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا اعلان نہ کرتا ۔

کچھ دن پہلے عر ب لیگ کے اجلاس میں اگرچہ اس کی مذمت کی گئی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اسی عر ب لیگ میں موجود کچھ عرب حکمران اسرائیل سے کھلم کھلا تعلقات استوار کر رہے ہیں۔ فلسطین کی قانون ساز اسمبلی اور حماس نے اسرائیل کے ساتھ بعض عرب ممالک کے تعلقات کی پر زور مزمت کی ہے ۔ حماس نے تواسے ملت فلسطین کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

یہ عرب حکمران ٹرمپ کی فرمانبرداری میں مصروف ہیں جو مسلمانوں کا کھلا دشمن اور ڈیل آف سنچر ی کا ماسٹر مائنڈ ہے ۔
یہاں دو چیزیں بالکل واضح ہو چکی ہیں۔ ایک تو ہٹلرکے ہاتھوں یہودیوں کا قتلِ عام درست ثابت ہوتا ہے جس کا مقصد آنے والی دنیا کو یہ واضح کرنا تھا کہ یہودیوں کی اصلیت کیا ہے۔ دوسری بات جو کھل کر سامنے آ چکی ہے وہ مسلمانوں میں تفرقہ اور اختلاف ہے ۔

جس کی پیشینگوئی شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے بہت پہلے کر دی تھی کہ:
منفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
حدیث ِ مبارکہ ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ یعنی جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم بے قرار ہو جاتا ہے ۔

لیکن افسوس کی بات ہے کہ مظلوم فلسطینی نہ صرف یہودیوں کے مظالم کا شکار ہیں بلکہ ڈیل آف سنچری کے ذریعے قبلہ اول کی مسماری کا فیصلہ کیا جا چکاہے اورامت مسلمہ ٹس سے مس نہیں ۔ کیونکہ امت مسلمہ فرقوں میں بٹ چکی ہے ۔بقول اقبال:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے کو پنپنے کی یہی باتیں ہیں
خدارا اس مسئلے کو سنجیدہ لیا جائے ۔

اتحادو یگانگت کا مظاہر ہ کیا جائے اور ترک صدر طیب اردگا ن کے اس بیان کو سنجیدگی سے لیا جائے جوانھوں نے ڈیل آف سنچری کے متعلق دیا تھا کہ اگر آج مسلمان خاموش رہے تو کل نعوذ باللہ خانہ کعبہ بھی گنوا بیٹھیں گے۔ یہ مسلمانوں کے لیے ایک لمحہ ء فکریہ ہے ۔اگر مسلمان متحد ہو جائیں تو اسرائیل کا وجود صفحہء ہستی سے مٹ جائے۔جس کے بارے میں ایک مسلمان رہنما امام خمینی نے کہا تھا کہ” اسرائیل کی مثال مکڑی کے جالے کی سی ہے، اگر مسلمان ممالک ایک ایک بالٹی پانی کی اسرائیل پر انڈیل دیں تو اس کا خاتمہ ہو جائے“ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :