امریکی فوجیوں کی واپسی

پیر 23 نومبر 2020

Naeem Kandwal

نعیم کندوال

امریکہ نے 2002ء اور 2003ء میں باالترتیب افغانستان اور عراق پر حملے کیے اور اپنی افواج اِن دونوں ممالک میں اتار دیں۔2001ء میں نیو یارک میں القاعدہ کے حملوں کو جواز بنا کر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا ۔اِسی طرح عراق پر 2003ء میں امریکہ نے حملے شروع کیے اور 5اپریل کو بغداد ہوائی اڈے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا۔اگرچہ امریکہ حملوں کی وجوہات کچھ اور بتاتا ہے لیکن حقیقت میں اُس کے مقاصد کچھ اور تھے ۔

افغانستان پر حملہ اسٹریٹجک مفادات کے لیے تھا ۔افغانستان اسٹریٹجک لحاظ امریکہ کے لیے بہت اہم ہے۔امریکہ افغانستان میں قبضہ جما کر اپنے روایتی حریفوں ایران اور چین کو کنٹرول کرنا چاہتا تھا ۔
عراق پر حملے کی واضح وجہ تیل تنصیبات پر قبضہ کرنا تھا ۔

(جاری ہے)

اِسکی تائید امریکی فیڈرل ریزرو بینک کے سابق سربراہ ایلن گرینسپین نے اپنی کتاب میں کی۔

عراق پر حملے کی دوسری اہم وجہ اِس کے ہمسایہ ملک ایران کو کنٹرول کرنا تھا ۔اِس کے بعد عراق اور افغانستا ن سے امریکی افواج کے انخلا کا کئی بار فیصلہ ہوا لیکن امریکی انتظامیہ پس و پیش سے کام لیتی رہی کیونکہ امریکہ ہر حال میں مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں اپنا وجو د باقی رکھنا چاہتا تھا۔لیکن اب خطے کی صورتحال اور عالمی سیاست میں اہم تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔


3جنوری 2020ء کوامریکہ نے قاسم سلیمانی کو بغداد ایئر پورٹ پر فضائی حملے میں شہید کر دیا۔اسکے بعد 8جنوری 2020ء کو ایران نے عراق میں امریکہ کے زیرِ استعمال فوجی اڈوں کو راکٹوں سے نشانہ بنایا جس میں امریکی فوج کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکی حکومت قاسم سلیمانی کی شہادت کو اپنے لیے ایک بہت بڑی کامیابی سمجھ رہی تھی لیکن اِس کے بدلے میں عراق میں امریکہ کا وجود باقی رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا ۔

قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق میں امریکہ کے خلاف غم و غصہ بہت زیادہ بڑھ گیا۔یہ کہنا کہ قاسم سلیمانی کی شہاد ت امریکہ کے لیے بہت بڑی کامیابی تھی ،کسی حد تک غلط ہے کیونکہ اِس واقعہ کے بعد امریکی فوجیوں کے انخلا ء کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہے۔اِس واقعہ کے فوری بعد 5جنوری 2020 ء کو عراقی پارلیمینٹ نے امریکی فوجیوں کے عراق سے انخلا ء کے متعلق ایک بل پاس کیا جس میں عراقی پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا کہ امریکہ عراق کی سا لمیت کا احترام کرتے ہوئے اپنی افواج واپس بلائے ۔

اِس کے بعد امریکی حکومت پس و پیش سے کام لیتی رہی لیکن عراق میں ایران کی حمایت یافتہ مسلح جہادی تنظیموں نے امریکہ کو نہ صرف سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں بلکہ امریکہ کے زیر استعمال عراقی فوجی اڈوں اور امریکی سفارتخانے پر راکٹ حملے شروع کر دیے۔
عراق اور افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا یقینا امریکہ کے لیے ایک کڑوا گھونٹ ہے لیکن اس کے پاس اِس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ۔

رواں ہفتے عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ ” بغداد حکومت امریکی فوجیوں کے انخلا کے تعلق سے عراقی عوام کے مطالبا ت کو پورا کرنے کی پابند ہے ۔“
عراقی تنظیم کتائب سید الشہدا کے ترجمان کاظم الفرطوسی ،النجبا تحریک کی سیاسی کونسل کے چیئر مین علی الاسدی ،عراقی پارلمینٹ میں فتح الائنس کے رکن فاضل الفتلاوی نے بھی عراق سے امریکی افواج کے انخلا ء کا پر زور مطالبہ کیا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے نائب وزیر دفاع کرسٹوفر ملر نے کہا ہے کہ امریکہ 15جنوری 2021 ء سے افغانستان اور عراق میں فوجیوں کی تعداد کم کر دے گا ۔عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد 5200ہے جسے رواں ماہ کم کر کے 3000 کر دیا جائیگا اور جنوری 2021ء میں یہ تعداد 2500 ہو جائیگی۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال فروری میں دوحہ میں ایک معاہد ہ طے پایا جسے امن معاہدے کا نام دیا گیا ۔

18سالہ طویل جنگ میں امریکہ کو افغانستان سے کچھ نہ حاصل ہونے کے بعد یہ معاہدہ طے پایا ۔اِسکے بعد افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے متعلق امریکی انتظامیہ کی طرف سے متضاد بیانات آتے رہے لیکن عراق کی طرح افغانستان سے بھی امریکی فوجیوں کے انخلا ء کے علاوہ امریکہ کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے ۔اگرچہ امریکہ اپنا وجود مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان میں ہر حال میں باقی رکھنا چاہتا ہے لیکن اب یہ نہ صرف مشکل ہے بلکہ نا ممکن نظر آ رہا ہے۔


خطے کے حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔بقول یورپی یونین حکام ،طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔تجارتی جنگ میں چین امریکہ کو شکست دیتا نظر آ رہا ہے۔ماہرین معاشیات و سیاسیات کے مطابق 2028ء تک چین امریکہ کی جگہ سپر پاور بن جائے گا۔ایشیاء میں امریکہ کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے نائب وزیر دفاع کرسٹوفر ملر نے افغانستان اور عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا عندیہ دیا ہے۔خطے کے بدلتے ہوئے حالات سے واضح ہے کہ امریکہ کے پاس اِسکے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :