ملک کے دیگر حصوں کی طرح سوات میں بھی گذشتہ کئی ماہ سے کرونا کے سبب لاک ڈاؤن کیا جارہاہے اس دوران کئی مقامات کو کورنٹائن بھی کیا گیا جبکہ حالات کے پیش نظر سمارٹ لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ بیک وقت کئی علاقوں کوحساس قراردے کر کورنٹائن کردیا گیااس دوران ہسپتالوں میں ڈاکٹروں ،پیرامیڈیکل اوردیگر سٹاف کو بھی الرٹ رہنے کی ہدایت کی گئی جبکہ حکومت کے احکامات پر انتظامیہ اورمحکمہ صحت کی جانب سے مسلسل لوگوں کو کرونا سے محفوظ رہنے کیلئے عوام کو حفاظتی تدابیر سے آگاہ کیاجا تا رہاتاہم روزانہ کی بنیادپر کئی کئی افراد کرونا کا شکار ہوتے رہیں جبکہ کرونا کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں چلی گئیں اور متعددافراد اس وائرس سے متاثر ہوئے ،بعض حلقے کہتے ہیں کہ سوات اورخصوصاََ مینگورہ شہر میں پٹرول کے بحران کے دوران زیادہ لوگ کرونا کی لپیٹ میں آگئے کیونکہ یہ لوگ پٹرول کے حصول کیلئے پمپو ں میں پوری رات بھیڑ اور قطاروں کی شکل میں موجود رہتے تھے حالانکہ کرونا سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر میں سب سے اہم تدبیر سماجی فاصلے رکھنا تھا جس کا پٹرول بحران کے دوران خیال نہیں رکھا گیا بلکہ اس اصول کی کھلے عام دھجیاں اڑائی گئیں اوراس سے قبل لوگوں کو بارہ ہزار روپے کیلئے سکولوں کے سامنے گھنٹوں گھنٹوں قطاروں میں کھڑا رہنے پرمجبور کیا گیا یہ صورتحال بھی کرونا پھیلنے کی وجہ بنی جبکہ اس وقت سوات میں ہفتہ اور اتوار کو لاک ڈاؤن کیا جاتا ہے جبکہ جمعہ کو بیشتر لوگ ازخود کاروبارکیلئے نہیں نکلتے باقی ماندہ دنوں میں کاروبار ہوتا ہے جس کے دوران یہاں پر انتہائی رش اور بھیڑ نظر آتی ہے مگر اس کے باجود بھی روزانہ کی بنیاد پر سامنے آنے والی اطلاعات سے پتہ چلتاہے کہ سوات میں کرونا کا زورٹوٹ گیا ہے اس سے قبل روزانہ درجنوں افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق جبکہ بہت سے افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہتیں کرونا کے پہلے دنوں یا مہینوں کے نسبت آج کل کرونا کیسوں میں نمایاں کمی آئی ہے جو ایک قابل اطمینان امر ہے لہٰذہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سوات میں ایس او پیز کے تحت سیاحتی مقامات ،ہوٹلوں اور تمام سرکاری ونجی سکولوں کو کھولنے کیلئے ایک موثر لائحہ عمل تیار کرے ،کیونکہ طویل لاک ڈاؤن کی وجہ سے اگر ایک طرف طلبہ کا قیمتی وقت بری طرح ضائع ہوا تو دوسری طرف سوات میں صنعت کی حیثیت رکھنے والے شعبے سیاحت کو بھی بری طرح نقصان پہنچا،اب سکول کھولنے کے ساتھ ساتھ طلبہ کا جو وقت ضائع ہوا ہے اس کا ازالہ کرنے کیلئے بھی لائحہ تیار کرنے کی ضرورت ہے ،اس کے علاوہ سیاحت کے گرتے ہوئے شعبے کو سہارا دینے کیلئے سیاحتی مقامات تک مہمانوں کی رسائی ممکن اورآسان بنائی جائے کیونکہ سوات میں سیاحت کے شعبے سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں جو ان کا واحد ذریعہ معاش ہے یہاں پر مینگورہ شہر سے لے کر کالام اتروڑ،میاندم،بحرین،مدین ،مرغزاراوردیگر علاقوں میں سیاحوں کی رہائش کیلئے سینکڑوں ہوٹل موجود ہیں جن میں ہزاروں لوگ کام کررہے ہیں مگر یہ تمام ہوٹل کرونا کی وجہ سے کئی ماہ سے بند پڑے ہیں جس کے باعث یہاں پر کام کرنے والے مزدورو ں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں بلکہ اب ان گھروں میں فاقوں کی نوبت آئی ہے یہی حال پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ اور دیگر عملہ کا ہے ،سکولوں کی بندش کے باعث اگر ایک طرف طلبہ کا وقت ضائع ہورہاہے تو دوسری طرف انہی سکولوں سے تنخواہوں کی شکل میں معاؤضہ لینے والے اساتذہ اور دیگر عملہ بھی شدید مالی بحران کا شکار اورمشکلات سے دوچار ہے،موجودہ صورتحال کے سبب ہوٹلوں میں کام کرنے والے مزدوروں،سیاحت کے شعبے سے وابستہ دیگر افراد اور نجی سکول ملازمین میں شدید مایوسی پھیلی ہوئی ہے اوروہ احساس محرومی کا شکار ہیں، وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ یہاں کے عوام سرکاری ،نجی سکول اور ہوٹلوں کو ایس او پیز کے تحت کھلوانے کے خواہاں ہیں جس پر وہ خودبھی عمل درآمد کررہے ہیں اورسکولوں وہوٹلوں میں بھی اس پر عمل درآمد کرانا چاہتے ہیں ،سکول ،ہوٹل اورسیاحتی مقامات کو کھلوانے کا مطالبہ نہ صرف ان سے وبستہ افراد کا ہے بلکہ یہاں کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ حکومت یہ مطالبہ تسلیم کرے تاکہ سوات میں تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوجائیں اوریہاں پررکا ہوا کا روبار کا پہیہ ایک بار پھر چل پڑے،بچوں کا قیمتی وقت مزید ضائع ہونے سے بچ جائے جبکہ سیاحوں کی آمد سے سوات کی رونقیں ایک بار پھر بحال ہوسکیں ،لوگوں کو سیاحتی مقامات پر چہل پہل اورگہماگہمی نظر آسکیں،کرونا کے سبب تشویش میں مبتلا لوگ ایک بار پھر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوسکے ،مزدروں،محنت کشوں،پرائیویٹ اداروں اورکرونا سے متاثرہ ہونے والے لوگوں کے گھروں کے بجھے ہوئے چولہے ایک بار پھر جل سکیں اورسوات بھر کے تمام متاثرہ افراد کو محنت مزدوری کا موقع میسر آکر وہ زرق حلال کماسکے لہٰذہ حکومت سوات کے عوام کی حقیقی معنوں میں نمائندگی اور ترجمانی کرتے ہوئے ان کے یہ جائز مطالبات تسلیم کرکے اس کیلئے عملی اقدامات اٹھائے اور ان کی پریشانیوں اورمشکلات کا خاتمہ کرے تاکہ انہیں سکھ کی سانس نصیب ہوسکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔