کاش میں بد دعا کر سکتا!!

جمعہ 28 فروری 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

سرسید احمد خان ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ قومی غیرت اور عزت،شخصی غیرت،شخصی وقار اور کردار سے ہی ممکن ہے میں یہ سوچتا تھا کہ وہ کیسے ہے ایک شخص کی قومی حمیت میں کیا اہمیت ہو سکتی ہے؟ پھر علامہ اقبال نے کہا کہ ''افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر.....ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ! تو بات تھوڑی سی سمجھ آئی کہ فرد کی کیا اہمیت ہے پھر عام سی بات یا محاورہ اکثر سنتے تھے کہ قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے بات اور آسان ہوگئی اور سب کہتے ہیں کہ ایک شخص کا کردار قومی ترقی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔


مگر آج ہم اتنے بدقسمت اور اخلاقی و معاشرتی زوال کا شکار ہیں کہ نظر ہمیشہ دوسروں پر اور مفاد صرف اپنا وہ بھی جائز ہو کہ ناجائز! تو پھر میرے دوستو، ہم کیسے ایک قوم بن سکتے ہیں؟ ہمارے پاس وہ گریبان ہی نہیں جن میں جھانک کر اپنے ضمیر ٹٹول سکیں،ہم طرح طرح کے عذاب سہہ لیتے ہیں بیماریاں اور اپنے سامنے المناک اموات بھول جاتے ہیں چھوٹے چھوٹے عذاب،بڑے بڑے حادثے گزار دیتے ہیں مگر چپ کر کے پھر قومی زوال کے بیج بونا شروع کر دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

آخر ہم کون لوگ ہیں؟ کہا گیا کہ دیانتدار تاجر شہداء کے ساتھ اٹھائے جائیں گے مگر یہ بھی بھول گئے،بس یاد ہے تو بس اتنا کہ صاحب کاروبار اس طرح نہیں چلتا کچھ اوپر نیچے کرنا پڑتا ہے نا،کیا ہوا سال بعد حج یا عمرہ کر لیں گے اللہ معاف کرنے والا ہے نا،اب کیا جواب دیا جائے خاموشی اور وہ بھی مجرمانہ ہی سہی! خشت اول سے سنگ آخر تک ایسا ہی چل رہا ہے۔

 شعیب علیہ السلام کی قوم پر ناپ تول میں کمی کرنے پر عذاب نازل ہوا وہ بھی ہم بھول گئے کھانے پینے کی اشیاء سے لیکر دوائی گولی تک ملاوٹ،ناپ تول میں کمی،جھوٹ کا سہارا،ناجائز منافع خوری کے اطوار،ذخیرہ اندوزی کی لالچ اور کتوں اور گدھوں کا گوشت سینہ تان کر فروخت کرنا،دودھ میں پانی وہ بھی نالے کا،سبزیوں کو گندھے پانی اور تیزاب میں دھونا، ہلدی مرچ میں اینٹیں پیس لینا،پرانی روٹی سے آٹا تیار کر لینا،مدینہ اور مکہ نام کے سٹور رکھ کر بے ایمانی اور بد دیانتی کی انتہا کر دینا۔

 لوگ بھوک سے مر رہے ہوں اور آٹا،چینی چھپا لینا 20 روپے کی چیز خرید کر 50 کی بیچنا اور تو جان بچانے والی ادویات میں ملاوٹ، اور گرانی کر دینا یہی تو سارے کام ہم کر رہے ہیں تو پھر ہم کون لوگ ہیں؟ پوری دنیا میں مذہبی تہواروں پر چیزیں سستی ہوتی ہیں ہم مہنگی کر دیتے ہیں ابھی کچھ دن پہلے کرونا وائرس کے کیس سامنے آئے تو دس روپے کا ماسک پانچ سو تک اور دیگر حفاظتی چیزیں مارکیٹ سے غائب اور مہنگی،آخر کس طرح سے ہم ایک قوم بننے کے قابل ہیں۔

عمران خان جانے تو تبدیلی جانے،جیسے وہ کہتے تھے''جاؤ موسیٰ تم اور تمہارا خدا لڑے ہم کیوں لڑیں'' کیا ہم بھی وہی نہیں،تبدیلی تو چاھتے ہیں لیکن خود کو نہیں بدلنا! کسی شعبہ ہائے زندگی میں چلے جائیں سب اسی طرح چل رہا ہے کسی کی ترجیح کام نہیں، کردار نہیں، بس راتوں رات امیر ہونا، گاڑی کوٹھی اور دیگر تعیشات زندگی کی خواہشات جو کام کرنے لگیں ان کے راستے کی رکاوٹ بن جانا یہاں تک کہ یہ سب کرنے کے بعد نامہ اعمال میں نیکیوں کی بھی لالچ۔

یہی تو ہماری زندگی ہے حسن نثار ٹھیک ہی کہتے ہوتے ہیں کتے اور گدھے کا گوشت بیچنے والے سے کیا توقع کر سکتے ہیں۔کرونا وائرس نے تو ہمارا کام اور تمام کر دیا لوگ ماسک ڈھونڈتے پھر رہے کہ مل جائیں تو مہنگے داموں بیچ کر منافع کمایا جائے یہی حالت شاپنگ بیگ پر پابندی کے دوران دیکھنے میں آئی،آٹا چینی،ٹماٹر اور آلو پیاز کے ساتھ اکثر ہوتا ہے اب بھی ہوا ہے۔

تو پھر کیسے ان لوگوں کے لیے دعا نکلے اور جب بندہ بد دعا بھی نہ کر سکے تو دکھ اور غصہ کہاں چھوڑے۔ہے کوئی جگہ سوچنے والے کے لئے، کیا ہم بچ پائیں گے،قوم بن سکیں گے نہیں ہر گز نہیں ہمیں آئی ایم ایف کا پتہ ہے، امریکہ اور یہود کی سازشوں سے واقف ہیں عمران خان کے وعدے اور نواز شریف کی بیماری یاد ہے مگر اپنا گریبان ٹٹولنے کا وقت نہیں، خود کو بدلنے کا موقع نہیں مل رہا افسوس صد افسوس!! میڈیا کے چند لوگوں کو کرونا وائرس کا ڈھول مل گیا پیٹ پیٹ کر بیچ رہے ہیں اور سب ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ھم یہی کہہ سکتے ہیں کہ
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو، دعا کر چلے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :