بیانیہ، ساکھ اور اسحاق ڈار

جمعرات 3 دسمبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

ایک میٹرک پاس نوجوان نے گزرتے ہوئے یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا کہ ایک زمانہ تھا اخبار اور چینل خبریں ڈھونڈتے تھے مگر آج یہ وقت آگیا ہے کہ  خبریں خود  چینل ڈھونڈ رہی ہیں کوئی جگہ پاتی ہیں یا نہیں لیکن تیز رفتاری سے گزرتی جاتی ہیں، کسی کے پاس فالو اپ کا وقت نہیں، سیاست پر لکھنے کا دل نہیں کرتا کیونکہ روز بیان اور بیانیے داغے جا رہے ہیں ان حالات میں ایک معروف سروے کمپنی  پلس کنسلٹنٹ نے میاں نواز شریف کے بیانیے پر عوامی رائے کا ایک سروے جاری کیا جو ایک معروف نجی میڈیا گروپ نے کروایا ہے، سروے میں ایک سوال پوچھا گیا کہ میاں نواز شریف کا اسٹبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ بھارتی موقف ہے، یا سیاسی بیان؟ جس پر 51 فیصد لوگوں نے رائے دی کہ یہ بھارتی موقف کی تائید ہے، جبکہ 23 فیصد کی رائے تھی کہ یہ سیاسی بیان ھے، 26 فیصد نے کہا کہ ھمیں معلوم نہیں، اس سے آپ اپوزیشن کی تحریک کا اندازہ کر سکتے ہیں، جو ایک حکومت گرانے جا رہے ہیں، حکومت سے مذاکرات بھی نہیں کرتے، پارلیمانی کمیٹی جو ایک غیر جانبدار فورم تھا اس پر بھی تحفظات کا اظہار کرکے بائیکاٹ کر چکے ھیں، یہ بات بھی شد و مد سے کہی جا رہی تھی کہ "الیکشن چوری ھوئے" وہ تو ٹرمپ بھی کہہ رہے تھے مگر عوام سے، عدالتوں سے، اور اداروں سے سخت جواب پر آخر شکست تسلیم کرنی پڑی ، مسلم لیگ ن نے جو بیانیہ بنایا تھا کسی نے رہی سہی کسر اسحاق ڈار کے انٹرویو کے ذریعے نکال دی، میرے ایک دوست عمران باجوہ صاحب کہتے ہیں ایک تدبیر یہ کر رہے ہیں اور ایک تدبیر اللہ کر رہا ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ بات درست تو ھے مگر اللہ نے نظام  جن انسانوں کے حوالے کیا ھے وہ بے تدبیر کیوں ہیں؟، اسحاق ڈار نے بیچ چوراہے میں یہ ھنڈیا پھوڑ دی، معروف اینکر پروگرام ھارڈ ٹاک سٹیفن سیکرڈ کے ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ" الیکشن چوری کیے گئے"، اور عالمی مبصرین نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا، جس پر اینکر سٹیفن سیکرڈ نے کہا کہ یورپی مبصرین نے بعض جگہوں پر بے قاعدگیوں کی نشاندھی ضرور کی مگر مجموعی طور پر الیکشن کو پہلے سے بہتر قرار دیا جبکہ فافن نے 2013ء کے الیکشن کی نسبت 2018ء کے الیکشن کو 62 فیصد بہتر قرار دیا  اسحاق ڈار کے انٹرویو پر تبصرے، تجزیے جاری ہیں، لیکن سب سے بڑا نقصان مسلم لیگ ن کی قیادت اور مریم نواز کے دعووں کو پہنچا ھے، اب نیب نے بھی اسحاق ڈار کے خلاف تحقیقات کی منظوری دے دی ھے ، وہ کہہ رہے تھے کہ میری کہیں کوئی جائیداد نہیں یہاں دبئی، لندن اور پاکستان میں جائیدادیں ہیں ، انہوں نے تو بڑی کوشش کی کہ کسی طرح ھارڈ ٹاک سے جان چھڑائی جائے، منہ سوکھ گیا، لیکن ساکھ کیا ہے آپ کی اور نواز شریف کی؟یہ نہیں بتا سکے، ادھر عدالتیں اشتہاری قرار دے چکیں ، انہی عدالتوں سے جب ضمانت ملی تو حق و سچ کی فتح کے جھنڈے لہرائے گئے لیکن اب مریم نواز کہہ رہی ہیں،" عدل کا وائرس " اور اٹو کریٹک کورٹس کہہ کر تسمخر اڑا رہی ہیں، شاید نادانیوں کی ، باپ کو بے دخل کرنے کی موجد بھی مریم نواز ہی ہیں جنہوں نے اسحاق ڈار صاحب کو مشورہ یا انٹرویو کے لئے وقت لے کر دیا ھو، تاکہ اپنی کمپین چلائی جا سکے مگر الٹی اپنی ہی بندوق سے گولی چلی اور بیانیہ مر گیا، اسحاق ڈار صاحب سے جب یہ کہا گیا کہ آپ کی اور نواز شریف کی ساکھ کیا ہے؟اپ کیوں نہیں جا کر مقدمات کا سامنا کرتے، جس پر انہوں نے نیب کی کسٹڈی میں ھلاکتوں کی کہانی گھڑی، ثبوت مانگے تو منہ سوکھ گیا، اسحاق ڈار گزشتہ دو سال سے لندن میں علاج کے لیے روکے ہوئے ہیں، اب وہاں کون سا علاج ھوا یا ھو رھا ھے، یہ بھی نہیں بتا سکے، اب ایک سروے رپورٹ اور اسحاق ڈار صاحب کا انٹرویو  جوایک غیر جانبدار اور بین الاقوامی چینل بی بی سی نے لیا یا" دیا گیا" سب  کے سامنے ھے ، عوام، سیاسی حلقے اور ادارے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کتنا جھوٹ ھے اور کتنا سچ؟ان سے جب نواز شریف صاحب اور ضیاالحق صاحب کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس کو وہ ارتقاء کہہ رہے تھے، یہ ارتقاء 2013ء میں کہاں تھا ، یا ججز بحالی مارچ کے وقت جنرل کیانی کی ایک کال پر کہاں چھپ کر بیٹھا تھا؟، غلطیوں سے نہ سیکھیں اور فکری ارتقاء کہہ کر جان نہیں چھوٹتی ماضی کا کردار عمل کا درست معیار ھوتا ھے، اس کا ردعمل سروے رپورٹ میں نمایاں ہے، ادھر اپوزیشن کی چلنے والی تحریک صرف نیب کی شق 34 کے خلاف لڑتے لڑتے لاھور پہنچے گی مگر اس کے بعد کیا ھو گا یہ بتانے سے قاصر ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :