آزاد کشمیر میں صحت بحران

بدھ 9 دسمبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

کورونا وائرس نے دوسری لہر میں دنیا کو ھلا کر رکھ دیا ہے، جتنی شدت سے پلٹ کر کورونا نے حملہ کیا ہے، اسی شدت سے دنیا اور خاص کر تیسری دنیا کے لوگ بےخوف اور لاپروہ ھو چکے ھیں، اس وقت دنیا بھر میں متاثرین کی تعداد پندرہ کروڑ سے بڑھ چکی ہے، اگر چہ کہ تحقیق اور حفاظت کا کام بھی تیز رفتاری سے جاری ہے تاہم ویکسین کے عام ہونے تک مزید ایک سال لگ سکتا ہے، ان حالات میں پاکستان کے وزیراعظم نے اقوام عالم سے اپیل کی ہے کہ وہ تیسری دنیا کے ممالک کا قرض یا تو معاف کر دیں یا اس کو طویل عرصے تک مؤخر کر دیں، دوسری طرف پاکستان بھر میں عوام کے اندر جتنا زیادہ عوامی شعور دیا گیا شاید ہی اس کی مثال ماضی میں ملتی ہو، پہلی لہر میں عوام اور خصوصاً علماء کرام، تاجروں اور صنعتکاروں نے بہت تعاون کیا تھا جس سے حکومت کی کوششوں میں مدد ملی  مگر اب کورونا کے ساتھ جینا اور وہ بھی بغیر حفاظت اور احتیاطی تدابیر کے عام ھو گیا ھے، آزاد کشمیر اس وقت سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہے، ایک فطری فاصلہ، ھونے کے باوجود لوگ فایدہ نہیں اٹھا رہے، شدید سردی سے نمونیا کے خطرات ھمیشہ موجود رہتے ہیں اور تیسرا سب سے بڑا بحران صحت کی سہولیات کا ھے، اربوں روپے کھا کر بھی ماضی اور موجودہ حکمران میرپور سے مظفرآباد تک کوئی ایسا ھسپتال نہیں بنا سکے جہاں تمام سہولتیں میسر ھوں، جہاں بھی کوئی ھسپتال موجود ہے، وہاں عملے کی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا ہے کہ "اس کو پنڈی لے جائیں"پہلے مریض رستے میں ہی دم توڑ دیتا تھا، آج اتنا فرق آیا ہے کہ ہے کہ قدرے بہتر سڑک کی وجہ سے وہ پنڈی پہنچ کر ایک سرد آہ کے ساتھ اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دیتا ہے۔

(جاری ہے)

تیرے وعدے پہ جیتے اگر اعتبار ہوتا.راولاکوٹ ماحول کے اعتبار سے بہترین علاقہ ہے ایک خوبصورت عمارت زلزلے کے بعد سعودی حکومت نے بنا کر دی جسے ھسپتال کا نام دیا گیا ہے مگر اس میں ڈاکٹرز، طبی عملے اور سہولتیں نہ ھونے کے برابر ہیں اس سست رفتار حکومت کو  اگر سعودی عرب کی حکومت ڈاکٹرز اور دیگر سہولتیں بھی دے جاتی تو پتا نہیں کیا حشر ھوتا، راولاکوٹ سی ایم ایچ سول انتظامیہ کے سپرد ہونے سے اور بھی بری حالت کا شکار ہے، گندگی  بستروں کا برا حال، ڈاکٹرز کی عدم دستیابی، ادوایات میں گھپلے، اور باتھ رومز کی ٹوٹیاں تک چھوٹے بڑے چور لے کر رفو چکر ہو چکے ہیں، حالیہ دنوں میں اس پہاڑی علاقے میں کورونا کی وجہ  سےانتہائی قیمتی جانیں جا چکی ہیں، گھر گھر کورونا پھیلا ہوا ہے، کسی قسم کا علاج موجود نہیں آکسیجن، جیسی سہولت بھی میسر نہیں، البتہ احتیاطی تدابیر میں لوگ کافی شعور رکھتے ہیں، یہی حال  ضلع باغ کا ھے، مظفرآباد سی ایم ایچ بھی علاج اور ڈاکٹروں کے لیے پنڈی کا راستہ دکھاتا ہے، کوٹلی میں ایک سرکاری ھسپتال میں قدرے بہتر سہولیات میسر ہیں تاہم وہ بھی ختم ہوتی جارہی ہیں یہ نقشہ  گزشتہ تیس سال سے دیکھ رہا ہوں، اگرچیکہ بیماریاں پہلے کم تھیں جس کی بڑی وجہ لوگوں کا لائف سٹائل تھا جو محنت اور مشقت پر مشتمل تھا، آج آزاد کشمیر میں ھارٹ اٹیک، شوگر اور اب کورونا کا ریٹ بہت بڑھ چکا ہےجو انتہائی تشویشناک ھے حکومت آزاد کشمیر خاموش صرف لاک ڈاؤن کے علاؤہ کوئی حل نہیں ھے اسی پر زور دیتی رہتی ہے۔

تراڑکھل کے گرد ونواح، اور راولاکوٹ میں اس وقت گھر گھر کورونا کا مریض موجود ہے، گزشتہ دنوں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد جان کی بازی ھار گئے ہیں ، راجہ فاروق حیدر صاحب شاید ہی ڈی ایم کی تحریک میں کہیں مصروف ہیں یا بے خبر ہیں ، سب سے بڑا دکھ تو یہ ہے کہ صحت بحران، ھسپتالوں کی بہتری اور ناقص خوراک کی فروخت پر حکومت آزاد کشمیر نے کوئی توجہ نہیں دی۔

حالت یہ ہے کہ جو آئل، فاسٹ فوڈ، کہیں فروخت نہیں ھو سکتیں وہ آزاد کشمیر میں عام ملتی اور فروخت ھوتی ھیں۔اس وقت دنیا میں پندرہ لاکھ افراد اس وبا کا شکار ہوئے احساس ذمہ داری، قانون  پر عمل درآمد اور صحت سہولتیں دینا تو حکومت اور، ریاست کی ذمہ داری ہے، اس کو پورا نہیں کیا جائے گا تو کیا نتائج آئیں گے۔اس وقت انتہائی سرد موسم ہے اور کورونا نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، محکمہ صحت کے وزیر جناب نجیب نقی صاحب، خود بھی ڈاکٹر اور تجربہ کار ہیں ان مشکلات پر قابو پانے کے لیے لائحہ عمل بنانا چائیے، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی حفاظت، ھسپتال میں نظم و ضبط اور ڈاکٹرز کی کمی کو پورا کیا جانا چاہیے، اس کے علاؤہ کشمیر میں کئی صاحب ثروت لوگ ہیں جو اچھا معیاری اور سٹیٹ آف دی آرٹ ھوسپٹل باآسانی بنا سکتے ہیں، سردار الیاس صاحب ھوں جو آج کل پنجاب حکومت میں مشیر ہیں، بڑے بزنس مین بھی ہیں وہ کوشش کر کے راولاکوٹ میں ھوسپٹل بے شک پرائیویٹ سیکٹر میں ہی ہو بنا سکتے ہیں، اسی طرح کوٹلی ، میرپور، بھمبر اور باغ و مظفرآباد میں بھی ایسے بے شمار لوگ ہیں جو یہ کام کرنے کی مالی طاقت رکھتے ہیں، اس سے اسلام آباد کے پمز ہسپتال اور دیگر ھسپتالوں میں بوجھ کم  ھو گا اور ساتھ ساتھ بروقت علاج کی سہولت میسر آئے گی، مجھے یاد ہے وزیراعظم پاکستان نے اقتدار سنبھالتے ہی وزراء سیاحت کی ایک کانفرنس بلائی تھی آزاد کشمیر کے وزیر سیاحت کو بھی کچھ ٹارگٹس دئیے تھے اس پر بھی کام نہیں ہوا، مگر سب سے ضروری اقدامات صحت کے محکمے کو کرنے ہوں گے، کورونا کب تک چلے گا کوئی حتمی بات نہیں ہے، اس لئے سیاست کو ایک طرف رکھیں بلا تفریق لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں، خصوصاً ھسپتالوں میں انتظامی اور طبی سہولتوں کو براہِ راست دیکھا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :