اسامہ ستی قتل کیس، کس کا المیہ!

بدھ 13 جنوری 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

جس گھر سے نوجوان لاشے اٹھتے ہیں، اس گھر کی زندگی  قبرستان کی مانند خاموش ہو جاتی ہے ، ماں باپ بے چارے  بیٹے کو ایک نظر دیکھنے کے لیے مرتے دم تک ترستے رہتے ہیں، معلوم نہیں دنیا میں اتنی، بے حسی کیوں ہے کہ ھم موت اور زندگی دونوں سے غافل ہیں زندگی کہ اہمیت نہ موت کا خوف، شہر اقتدار میں پولیس کے ہاتھوں نوجوان اسامہ ستی کا قتل بھی ایسی ہی بے حسی، انا، نفسیاتی بیماری یا قانونی غفلت کا نتیجہ ہے، بھلا ہو حکومت کا کہ محکمانہ کارروائی بر وقت ہو گئی اور جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ بھی چند دنوں میں منظر عام پر اچکی، ورنہ اس واقعہ پر سیاست ہوتی، رپورٹ سے  ثابت ھوگیا کہ اسامہ ستی کو گھیر کر قتل کیا گیا اور جس بے دردی سے مارا گیا وہ بڑے دکھ سے کم نہیں ہے، پولیس اہلکار سروس سے بے دخل کیے گئے، وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے اپنے تئیں ہر اقدام بروقت کردیا ،مگر ایک سوال ھمیشہ سماعتوں سے ٹکراتا  رہے گا کہ اسامہ ستی کے والدین بیٹے کو کہاں ڈھونڈیں گے اس کا جواب کسی کے پاس  نہیں ہے، یہ بڑا المیہ ہے، ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل کہا گیا ہے، وہ انسانیت کو کہاں ڈھونڈیں؟ ماڈل ٹاؤن کا انسانی المیہ معصوم بچیوں، ماؤں اور بزرگوں کا قتل کس کے ذمے تھا، ساہیوال کا واقعہ کس کا قصور اور کس کا المیہ ہے؟کون ان معصوم بچوں کو انصاف دے گا، جب ریاست اور حکومت انسانیت کا تحفظ یقینی بنا لے گی، سب المیے ، سکھ میں بدل جائیں گے، پولیس اہلکار کس نفسیاتی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں یا ان کی تربیت کس طرح کی ہوتی ہے اس کو دیکھنا ضروری ہے، سامنے سے گولیاں مارنے کی تربیت دنیا کے کسی قانون میں نہیں ہے، یہ کیسی تربیت ہے ؟ سابق حکمرانوں نے تو کبھی نہیں سوچا کہ ایسے واقعات کی بیخ کنی کی جائے اس حکومت کو اس پر کام کرنا ہوگا، پاکستان کے بڑے مسائل میں اہم مسئلہ سماجی تربیت کا فقدان ہے جس کے اثرات ہر ادارے میں بآسانی مل جائیں گے پولیس کا تعلق چونکہ براہ راست عوام سے ہوتا ہے اس لیے یہ جلد نظر آجاتے ہیں، پولیس والوں کی تربیت کو دیکھنا  بنیادی ضرورت ہے،  ایک پولیس اہلکار کی نفسیاتی پختگی کا تعلق بھی اس تربیت کا حصہ ہونا چاہیے، روزمرہ نفیساتی کیفیت بھی مسائل پیدا کرتی ہے، ایک پولیس اہلکار جب چودہ گھنٹے ڈیوٹی کرے گا تو وہ کچھ درست نہیں کرے پائے گا، یہ ڈیوٹی کا ایک غیر فطری طریقہ ہے جس سے آپ اچھے عمل کی توقع نہیں رکھ سکتے، وہ کسی نشہ اور اشیا کے نرغے میں ہوگا یا جب کوئی عمل کرے گا اس کا نتیجہ الٹا ہوگا، یہاں تک کہ وہ اپنی اخلاقی حیثیت بھی کھو دے گا، ڈیوٹی کے اوقات پر جن لوگوں نے کام کیا ہے یورپ کے کئی ممالک میں اس کی مثالیں موجود ہیں، ھم بدقسمتی سے ہر کام میں فطرت کے باغی ہیں، جس کے نتائج غیر فطری نکلتے ہیں، ہمارے شہریوں میں قانون کی پاسداری ایک مذاق بن چکا ہے کہ او جی"یہ پاکستان ہے ، یہاں سب چلتا ہے"گذشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کرپشن کو  معاشرے کا حصہ بنا دیا گیا ہے، کرپشن اب جرم نہیں رہا، اسی طرح ملاوٹ، کم تولنا اور پولیس رشوت، ھسپتال کے دھکے تعلیمی اداروں کی پسماندگی سب او جی یہ پاکستان ھے، یہاں سب چلتا ہے، ہر شخص مذاق کر کے گزر جاتا ہے، قانون کے رکھوالے بھی یہی کہتے ہیں، قدرت اللہ شہاب صدر ایوب خان کے سیکرٹری تھے، وہ لکھتے ہیں کہ میں نے زندگی میں ایک ہی بندے کو تھپڑا مارا تھا، جس نے پاکستان کو گالی دی تھی، آج تو محمود اچکزئی جیسے لوگ جلسوں میں بڑی بڑی گالیاں دے کر گزر جاتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، خیر اسامہ اس معاشرے، اس سیاست اور جمہوریت کا بھی المیہ ہے، جنہوں نے پولیس اصلاحات کے بارے میں کبھی نہیں سوچا، باقی صوبوں کو چھوڑیں وفاقی دارالحکومت میں موجود پولیس اہلکار ایسے ہوں گے تو باقی حال کیا ھوگا؟ آخر موٹروے پولیس بھی اسی سسٹم سے نکال کر بنائی گئی تھی، تربیت کے ان مراحل پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟ وردیاں اور نئی نئی فورس بنانے کے لیے فنڈ ہوتے ہیں مگر پولیس رویے بدلنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، اسامہ جیسا جوان اتنی گولیوں کا نشانہ بنا ایسے واقعات روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے، سنا ہے افسران اس کیس کو جان بوجھ کر چھپاتے رہے، کس کس کو سزا دیں گے، یہ فرسودہ نظام کیسے بدلے گا، سرعت سے کام ہونا چاہیے کیونکہ سب زیادہ دیر نہیں ہے، کئی اسامہ اس لاقانونیت اور پولیس گردی کا شکار ھوں گے، المیے معاشرے کھا جاتے ہیں، ملک تباہ کرتے ہیں اس کیس کو بنیاد بنا کر پولیس کی فوری تربیت ضروری ہوگی، یہ المیہ حکومت کا بھی ہے دیکھیں کون کتنا حصہ ڈالتا ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :