مولانا وحیدالدین خان نہ رہے!!!

پیر 26 اپریل 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

بیس سال پہلے کی بات ہے میں راولپنڈی صدر کے فٹ پات پر رکھی پرانی کتابیں تلاش کر رہا تھا ایک کتاب نظر سے گزری جس کا نام غالباً، اسلام اور عہد حاضر تھا، مصنف مولانا وحیدالدین خان، یہ میرا ان سے پہلا تعارف تھا، ان دنوں ھم اسلام کی مختلف تعبیرات میں کھو ئے ہوئے تھے،" وہ تو اب تک ہیں" کہیں اسلام کی سیاسی تعبیر کی جاتی ہے، کہیں جہادی اور صوفیانہ، اس لئے افکار و نظریات کے اختلاف نے عام عوام کو کچھ نہیں دیااس کتاب کو میں نے کوئی تین مرتبہ پڑھا اور جدید دور کے مسائل سے اپنے آپ کو ھم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔


مولانا وحیدالدین خان 1925ء کو اعظم گڑھ بھارت یا یوں کہیں برصغیر میں پیدا ہوئے، جماعت اسلامی کا حصہ دس سال رہے،مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن تھے، مودودی صاحب کی فکر اور اسلام کی سیاسی تعبیر پر اختلاف پیدا ہوا، جماعت اسلامی اور مودودی صاحب سے اظہار کیا، انہوں نے اعتراضات تحریری طور پر پیش کرنے کا کہا جب مولانا وحیدالدین خان نے اعتراض لکھے اور مودودی صاحب تک پہنچائے، تو مولانا مودودی نے کہا کہ آپ کے خیالات اور نظریات میری سوچ اور فکر کی مخالف سمت پر ہیں، آپ اگر اس کو چھپوانا چاہئیے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا،یہ تھا بڑے لوگوں کا علمی مقام و مرتبہ کے اختلاف کے باوجود کوئی دشمنی یا عدم برداشت نہیں، خیر مولانا وحیدالدین خان جماعت اسلامی چھوڑ کر تنقید، اصول تنقید، اسلام کی تعبیر اور شخصی تعمیر کے طویل سفر پر نکل گئے۔

(جاری ہے)

اور برصغیر کے بڑے بڑے علماء کرام کو پیچھے چھوڑ دیا، اس کی بنیادی وجہ مولانا وحیدالدین خان کا انداز بیان تھا وہ جو کچھ بھی لکھتے عام آدمی تک پہنچ جاتا، انہوں نے تصور خدا، یا تصور دین بڑی وضاحت کے ساتھ پہنچایا۔
  ھم ایک دن جاوید غامدی صاحب کے کچھ شاگردوں کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک بحث چل نکلی جس میں، میں نے عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب کی افکار اور تصورات اس وقت  اوپر رہیں گے، جب تک اس کو عام فہم نہیں بنایا جاتا ، اسی طرح ڈاکٹر اسرار احمد، اور کئی علماء گزرے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے خدادا صلاحیتوں سے نوازا تھا مگر فکر اور تصور کو عام آدمی تک نہیں پہنچا سکے، ایک سادہ لوح آدمی اور انتہائی محدود زندگی گزارنے والا مولانا وحیدالدین خان دہلی میں بولتا تو بات  پاکستان، بنگلہ دیش اور گرد نواح میں تیزی سے پھیلتی یہی ان کی تحریر پر گرپ تھی کہ قاری  پڑھتا اور سمجھتا بھی، ھمارے ہاں تو بڑا ہونے کے لئے مرنا پڑتا ہے، سو مولانا وحیدالدین خاں بھی یہ کر گئے، مولانا وحیدالدین خاں کا سب سے بڑا درس  تھا کہ ھمیشہ مثبت سوج پالیں، یہی وجہ تھی کہ تمام طبقات ان سے محبت رکھتے تھے، ان کے الفاظ میں ایسا پیغام اور فکر ہے جس سے اہل علم ھوں یا عوام دونوں کے اندر قرب الہٰی کا شعور بیدار ہوتا ہے، کسی عالم کی یہی استعداد بڑی نعمت ہے، مولانا نے زندگی گزارنے کے زریں اصول اور قران اولی کے  مفکروں  کے علوم کا نچوڑ انتہائی سادگی اور خلوص کے ساتھ نئی نسل میں منتقل کر دیا، جو رہتی دنیا تک ایک منفرد اثاثہ ہے،  ، راز حیات جاننے والا یہ عالم 21 اپریل 2021ء کو داعی اجل کو لبّیک کہہ گیا، اب کہاں ایسے زندہ دل اور روشن دماغ پیدا ھوں گے جو مولانا وحیدالدین خاں کا خلا پر کریں گے، بے شک عالم کی موت عالم کی موت ھے۔

انہیں کورونا نے ھم سے چھینا یا ناقدری نے،  یہ بھی سوچنا چاہیے، ان کی تعلیمات کا اثاثہ اب پہلے سے زیادہ اھمیت اختیار کر جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :