امید ہی زندگی ہے

بدھ 16 جون 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

وائرلس اینڈ کیبل برطانیہ کی مشہور ٹیلی مواصلات کی کمپنی ہے، جو آج سے دو دہائیاں پہلے تک سعودی عرب میں ایک بڑی غیر ملکی کمپنیوں میں شمار کی جاتی تھی، پاکستان کے کئی انجینئرز اور دوسرے لوگ مختلف شعبوں میں ملازمت کرتے تھے، شاہی خاندان سے لے کر سعودی عوام تک اس کمپنی نے ٹیلی مواصلات کا سارا نظام سنبھالا ہوا، عبدالعزیز شیر خان ایک پاکستانی بطور پروگرامر ملازمت کرتا تھا اس زمانے میں پاکستان میں کمپیوٹر کی الف ب بھی کسی کو نہیں آتی تھی، مگر جلد سیکھ جانے کے بعد عبدالعزیز شیر خان کمپنی کا چہیتا بن چکا تھا، ا90ء کی دہائی میں لاکھوں میں تنخواہ اور مراعات پانے والے عبدالعزیز شیر خان ، ھمہ وقت گھر، اپنے علاقے کے غریبوں کی مدد کرتا، کئی پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنے پاس بلا کر سیکھایا ملازمت دلاوائی، ان کی مالی، اخلاقی اور علمی اور تربیتی مدد کی، عبدالعزیز شیر خان، خود بھی انہماک سے کام کرتے تھے، غربت اور محرومی سے نکال کر کئی لوگوں کو خوشحالی تک لے آئے، ٹیکنکل صلاحیت کے علاؤہ عبدالعزیز شیر خان فری لانس رائٹر بھی تھے اور خلیج ٹائم میں باقاعدہ لکھا کرتے تھے،پچیس سال کی طویل ملازمت کے بعد وہ کمپنی سے ریٹائر ہوئے تو بھی ان پر کئی ذمہ داریاں تھیں، بچوں کی تعلیم، تربیت، سعودی عرب میں موجود کئی نوجوانوں اور کمپنی کے لوگوں کو انہوں نے سکھایا تھا، عبدالعزیز شیر خان اسی دوران سعودی عرب میں بیمار ہوگئے، دو سال علاج میں جمع پونجی ختم بلکہ بیس ہزار ریال سے اوپر قرض دار ہوگئے، قرض اور مرض دونوں انتہاؤں کو چھونے لگے تو اسی دوران عبدالعزیز شیر خان نے ان لائن ایک امریکن یونیورسٹی میں کاسٹ مینجمنٹ میں داخلہ لے لیا، اور محنت شائقہ کے بعد گریجویشن کی ڈگری اعلیٰ پوزیشن میں حاصل کی، یہ وہ وقت تھا کہ ان کی آنتوں کا آپریشن بھی ہوا اور صحت مند ھو کر ایک انڈین کمپنی میں  کاسٹ مینجمنٹ، مینیجر کی جاب حاصل کی، کمپنی ان کی اعلیٰ خدمات سے دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگی، عبدالعزیز شیر خان نے گریجویشن کی ڈگری 62 سال کی عمر میں حاصل کی تھی جب لوگ ریٹائرمنٹ کی زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لئے گھر جا رخ اختیار کرتے ہیں اور گھر میں ایک ناکارہ برتن کی طرح پڑے رہتے ہیں، اس عمر میں انہوں نے نئی ملازمت، نئی زندگی اور کام، کام، اور کام سے لوگوں کو بتایا کہ ہاں حوصلے اور امید جوان ہو تو سب کچھ ہو سکتا ہے عرصہ پندرہ سال اپنی چھتر سال کی عمر تک کمپنی میں اتنا نام پیدا کیا کہ مالکان آن کو کسی صورت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے، آخری عمر میں شدید بیماری کے باوجود کمپنی سے وابستہ رہے، آن لائن تک کام کیا اور ایک نئی ٹیم تیار کر کے کمپنی جو دی،  اپنے ذمہ بیس ہزار ریال کا قرض  اتارا، گھر اور لوگوں کی خدمت کی، پاکستان پلٹے تو کینسر کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہو گئے، دو سال خوبصورت طریقے سے سروائیو کیا، طویل واک، اخبارات کا اور قرآن انگریزی ترجمہ کے ساتھ روز کا معمول تھا، میرے منٹور تھے، اور رشتہ میں ماموں بھی، مگر علمی، ادبی ذوق ان کا اوڑھنا بچھونا تھا ان کی زندگی دوسروں کے لیے ایک بڑا سبق ہے دل کے راز ھوں یا کائنات کے، ان کا ذخیرہ رکھتے تھے، امید قائم رکھنے والے ایسے لوگوں سے بہت کچھ پا سکتا ہیں ماموں کی زندگی ہو یا آج کے وزیر اعظم عمران خان کی امید اور حوصلہ بڑھا دیتی ہے، آپ کرکٹ نہیں کھیل سکتے، کرکٹ کھیل لی، آپ کپتان نہیں بن سکتے، بن گئے اور ورلڈ کپ بھی جیت لیا، آپ سیاست میں کس لئے آئے، عمران خان نے ثابت کر دیا کیوں آیا تھا، آپ ھسپتال کیسے بنائیں گے وہ بھی بنا ڈالا اچھا آپ وزیر اعظم نہیں بن سکے مگر عمران خان وزیراعظم بن گئے، ان کی زندگی بھی دوسروں کے گرد گھومتے رہی۔

(جاری ہے)

عبدالعزیز شیر خان کی زندگی ہوں یا عمران خان ایک ایسی امید ہیں، جو زندگی میں مایوس لوگوں کو پرامید کرتی ہے، ھمیں اگر کسی سے اختلاف ہو وہ اپنی جگہ مگر کسی کی جدوجہد، استقامت اور یقین سے بہت کچھ سیکھا اور عمل کیا جا سکتا ہے، عبدالعزیز شیر خان اگرچہ میرے ماموں تھے لیکن علم حاصل کرنے۔ والے ہر شخص، جدوجہد اور محنت کش سے بہت محبت کرتے تھے، بلا تخصیص رنگ، نسل، قبیلہ، یہاں تک کہ مذھب کی بھی تخصیص نہیں کرتے تھے، میں نے ایک مرتبہ پوچھا کوئی ایسی خواہش جو پوری نہ ھوئی ہو، کہنے لگے کوئی خاص نہیں البتہ تمہیں اور عبدالغفار کو سعودیہ دیکھنا اور عمرہ یا حج کروانا تھا نہیں کروا سکا۔

ترقی پسندی ان کی فطرت میں شامل تھی ایک اور پہلو شاید ان سے کوئی واقف ہو وہ یہ تھی کہ فطرت سے بہت محبت تھی، اقبال، غالب، کیٹس، شیلے، شیکسپئر، ملٹن، میر تقی میر،اور  عمر خیام انہیں ازبر تھے، ماؤزے تنگ، لینن، مارکس اور مسولینی ھوں یا قدیم یونانی فلاسفر شاید کوئی بات ہو جو انہوں نے پڑھی نہ ھو، پی اے ایف کراچی سے میٹرک اور انٹر کیا تھا، انگریزی کے اساتذہ میں شمار ہوتا تھا، انگریزی مضمون میں اتنی مہارت تھی کہ نائن الیون کے بعد امریکی یونیورسٹی نے امن کے موضوع پر "عالمی مقابلہ مضمون نویسی" کا اعلان کیا، اس میں حصہ لیا اور دنیا بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی، آپ کو حیرت ھوگی کہ وہ مضمون صرف دو صفحات پر مشتمل تھا، اقبال کی نظمیں ترنم کے ساتھ پڑھتے تھے، اردو ادب آن کا مضمون نہیں تھا لیکن اردو شعراء میں سے اکثر کی شاعری ولی دکنی سے لے کر فیض اور حبیب جالب تک انہیں آتی تھی، ایک ھمہ گیر شخصیت، کردار اور عادات و اخلاق کے مالک تھے، ساری عمر روزگار کے سلسلے میں باہر رہے اس لئے گاؤں کے کم لوگ ان سے واقف تھے، ھیڈ ماسٹر اشرف صاحب، ان کے بھائی سرور صاحب،  اور ترپی والے مرحوم صادق صاحب ان کے اچھے دوستوں میں شامل تھے، ان میں سے کوئی بھی حیات نہ رہا، لیکن ان کی سوچ، کردار اور عمل آج بھی بولتا ہے۔

عبدالعزیز شیر خان نے 17 جون٫2014  اسلام آباد میں ، میرے ھاتھوں میں اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :