غیر روایتی اور سرد جنگ کی تیاریاں

منگل 24 اگست 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

دفاعی اور تجارتی سطح پر امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان عرصہ  دراز تک سرد جنگ چلتی رہی، سوویت یونین سوشلزم کے نظریات لے کر عالم پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا تھا، اسی کوشش میں اس کے نظریات مشرق وسطی کے کئی ممالک میں پختہ ہوتے جارہے تھے، تو دوسری طرف ایشیا اور یورپ میں بھی سوویت یونین کا چرچا عام تھا اپنی طاقت کے زعم میں سوویت یونین سرحدوں کے باہر بھی ایڈونچر کرنے لگا، ایسے ایڈونچرز کی خواہش ہر بڑی طاقت کو ہوتی ہے، اس نے بھارت کے ساتھ مستقل دفاعی اور معاشی تعلقات قائم رکھے تاکہ ایشیاء کے اہم ملک پاکستان پر دباؤ بڑھایا جا سکے، پاکستان اپنے قیام کے بعد پکے پھل کی طرح امریکہ کی جھولی میں گرا تھا، یہ وجہ تھی کہ سوویت یونین کا جھکاؤ بھارت کی طرف ھو گیا، امریکہ اور سوویت یونین میں طاقت کی دوڑ ہر میدان میں تھی جس کے لیے کمزور اور ترقی پزیر ممالک کو ہتھیار بنایا جاتا رہا، اسی طاقت کو وسعت دینے کے لیے سوویت یونین نے افغانستان کی حکومت کے ساتھ مراسم رکھے، افغانیوں کو تعلیم اور تربیت کی سہولت دی، پاکستان کو ڈرانے دھماکنے کے لیے افغانستان کو چھوٹے میزائل، راکٹ اور کلاشنکوفز کے انبار لگا کر دیئے، نجیب اللہ حکومت کے ساتھ گہرے مراسم کو استعمال کرتے ہوئے سوویت یونین فوجیں لیکر 1979ء میں افغانستان میں داخل ہوگیا، اب سرد جنگ کا نیا اڈا افغانستان تھا، پاکستان پڑوسی ہونے کے ناطے اور امریکہ کا اتحادی ہونے کی وجہ سے اس سرد جنگ کا حصہ بنا، پھر وہی ھوتا ھے جو دو ھاتھیوں کی لڑائی میں چیونٹی کے ساتھ ھونا ھوتا ھے، اسی سرد جنگ کے اثرات تین دہائیوں سے پاکستان اور پاکستانی معاشرہ بھگت رہا ہے، اس پر میں گزشتہ کالمز میں کافی کچھ لکھ چکا ہوں پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی بننے پر کیا نقصانات ہوئے اور 1990ء میں جنم لینے والی تحریک طالبان نے کیا کچھ کیا، تفصیل سے بیان کر چکا، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے ایک بات کی جو وہ کئی مرتبہ کر چکے ہیں کہ مستقبل میں غیر روایتی جنگ کے خطرات زیادہ ہیں ، اور پاکستان کے خلاف ہائیبرڈ وار تیز کر دی گئی ہے، جس کا سب سے پہلا ٹارگٹ معاشرے کو بری طرح تقسیم کرنا ہے، آپ نے لاھور مینار پاکستان کے سبزہ زار کا واقعہ دیکھا، سنا، اس پر پوری قوم لبرل اور کنزرویٹیو معاشرے کے جھگڑے میں الجھا نظر آیا، اسی طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ساتھی قیدی کی طرف سے حملے کی خبریں ہیں، اس پر بھی شور بپا ھو سکتا ھے، ریپ کیسز کی بہتات ہو یا دفاعی سطح پر منظم سرد جنگ کا آغاز ، افغانستان میں تیزی سے آنے والی تبدیلی اس کا حصہ ھو سکتی ھے! چونکہ امریکہ ہر صورت سی پیک کو روکنا چاہتا ہے اور چین ہر صورت سی پیک یا ون بیلٹ روڈ منصوبہ مکمل کرنا چاہتا ہے، امریکہ ایک منظم طریقے سے طالبان کے ہتھیار کو چین کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش میں لگا ہےاس کے لیے امریکہ نے بھارت سے کئی مواصلاتی  معاہدے کر رکھے ہیں، جن کو استعمال میں لا کر طالبان کے سابق نظریات، سیکنانک میں موجود عناصر کی تربیت اور اسلامک مومنٹ آف ازبکستان کی سیڑھی استعمال کی جارہی ہے، کیا امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی سرد جنگ کا مرکز پھر پاکستان اور افغانستان بنے گا؟ اس سوال کے جواب میں کئی پہلو موجود ہیں، ایک چین کا طالبان سے نرم گوشہ اور دوسرا طالبان تحریک کے چین میں اثرات سے لگایا جا سکتا ہے، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ پسپا ھو گیا انہیں اندازہ نہیں کہ اب اس کی ضرورت بدل گئی ہے، وہ طالبان کو آسان راستہ دے کر چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔

(جاری ہے)

جس کے لیے وہ جلد داعش کا شور مچائے گا، نہ چاہتے ہوئے بھی میڈیا اسی رو میں بہہ جائے گا، نتیجتاً داعش کے خلاف ایک جنگ کے شعلے پھر بڑھک سکتے ہیں، اس ساری صورتحال سے بچنے کے لیے طالبان کے اقدامات سب سے زیادہ اہم ھو ں گے، جن میں جامع سیاسی تصفیہ، خواتین اور انسانی حقوق پر مشتمل قوانین، اور سب سے بڑھ کر توسیع پسندانہ عزائم  روکنااور افغان سرزمین دوسروں کے خلاف استعمال میں لانے سے بچنا ہے، یہ وہ بڑےاقدامات ھوں گے جس سے امریکی عزائم کو ناکام کیا جا سکتا ہے، ایک زمانہ تھا کہ کہا جاتا رہا کہ طالبان نے شکیانک میں موجود مذھبی انتہا پسندوں کو باقاعدہ ٹرینیگ فراہم کی ہے، چین نے اس بات کو طالبان کے ساتھ اٹھایا بھی، اس مرتبہ چین اس یقینی دیانی پر افغانستان کے لئے بہت کچھ کر سکتا ہے، فی الوقت ہمیں معاشرے کو ہائییبرڈ وار سے بچانا ہے، کوئی غیر روایتی، روایتی یا سرد جنگ  پاکستان کے لیے ممکن نہیں رہی، ایسی صورتحال میں بڑی دانشمندی کی ضرورت ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :