کھلی آنکھوں کے خواب!!!

ہفتہ 11 ستمبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

ہمارا انفرادی اور اجتماعی رویہ یہ ہے کہ ساری زندگی خوابِ اور خواہشات کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں، ان کی خدا کی طرح پوجا کرتے کرتے تھک جاتے ہیں، جس کا حاصل مایوسی اور بیزاری کے سوائے کچھ نہیں ہوتا، زندہ لوگ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہیں، اور ان کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، یہی زندگی ھے، یہ زندگی بھی حقیقت، موت بھی حقیقت اور بعد کی زندگی بھی ایک ابدی حقیقت ہے، ھم سب نے ان تینوں مراحل کو سراب بنا دیا ہے، اس لئے حقائق سے ھمیشہ دور رہتے ہیں، دنیا کی ترقی کی عمارت محنت پر کھڑی ہے، چند لوگوں کو اللہ نے خداداد صلاحیتوں سے نوازا ھوتا ھے، مگر باقی ان لوگوں کے حسد میں اپنی توانائی ضائع کر دیتے ہیں، حالانکہ محض تھوڑے فرق سے وہ اپنی محنت کے بل بوتے پر منزل پر پہنچ جاتے ہیں،
محنت کی رغبت خیال سے جاگتی ہے اور ایک دن پانی کے بھاؤ کی طرح اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے، اپنی نفسیاتی، روحانی اور جسمانی توانائی کو یکسو کرنے کے لیے مقصد کو ڈرائیو فورس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وہ ڈرائیو فورس، اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بنا لی جائے تو مقصد آفاقی ھو جائے گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ھمارے سامنے کھلی کتاب کی طرح موجود ہے، غور فرمائیں، انہوں نے جس یتیمی، سخت حالات اور کٹھن راستوں کو اپنی قوت بنایا، عموماً لوگ ان حالات میں مایوس اور بیزار ہو جاتے ہیں لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سیکھا دیا کہ محرومی  کو کس طرح" ڈرائیو فورس" بنایا جاتا ہے، ھم دیکھتے ھیں کہ مطمئن لوگ وہ ہوتے ہیں جو محنت کے بل بوتے پر اگے نکلتے ہیں، محض سونے کا چمچ لیکر پیدا ہونے والے کم ہی ہوتے ہیں، ان کا معاشرے، گھر کی تعمیر اور تربیت اور ملک کے لیے کوئی کارنامہ نہیں ہوتا،
  خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن زندہ دل لوگ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہیں اور ان کو پورا کرتے ہیں ورنہ باقی خواب ساری زندگی تعبیر پوچھ پوچھ کر خواب ہی رہتے ہیں، حقیقت نہیں بن سکتے، اسی طرح غیر ضروری تواقعات اور خواہشات کا انجام بھی مایوسی کا باعث بنتا ہے، "کئی لوگوں کی خواب تھی" تھا نہیں لیکن انہوں نے اس کو۔

(جاری ہے)

پورا کیا ھے، ھم اپنی تاریخ کے کھلی آنکھوں کے خواب دیکھنے ہیں تو علامہ اقبال کا خواب، پاکستان تھا پورا ھوا، قائد اعظم محمد علی جناح کی منزل پاکستان کا خواب تھا، وہ وہاں پہنچ گئے، بنیادی طور پر بروقت فیصلے طویل فاصلوں سے بچا دیتے ہیں، عبدالستار ایدھی مرحوم نے جب ایک لاوارث بچہ کوڑے سے اٹھایا تھا، ان کا خواب تھا کہ میں نے ان کے لیے بہت کچھ کرنا ہے، نہ۔

سرمایہ ھے، نہ قوت اور نہ ہی کوئی راستہ سمجھ آتا ہے، بس یقین سے اس خواب کو پورا کرنے کی جدوجہد شروع کر دی، استقامت سے کرتے رہے، دنیا میں نام پیدا کر دیا، اتنے خواب ضرور دیکھنے چائیے جو آپ کو اور آپ کے گھر کو بدل دیں، ایک غریب شخص پڑھتا اور محنت کرتا ہے تو اس کی وجہ سے ایک گھرانا بدل جاتا ہے، اسی طرح ایسے لوگوں میں معاشرے اور ملک کو بدلنے کی صلاحیت ہوتی ہے، اس لئے کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتے رہنا چائیے، جو خواب حقیقت بن جائے، حقیقت سے منہ چھپانا انسان کو زیب نہیں دیتا، وہ آگے بڑھ کر آس کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنا راستہ بنا لیتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :