سبزیوں میں زہر ، سماج اور حکومت!!

بدھ 29 ستمبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

ایک خبر نظر سے گزری ، پڑھنے کے بعد دکھ ھوا اور انتہائی افسوس بھی ھوا، دکھ اس لئے کہ ھم فطرت میں زہر کیوں گھولتے ہیں، اور افسوس یہ ہے کہ سماج اور حکومتیں اپنی ذمہ داریاں کیوں پوری نہیں کرتے؟۔

(جاری ہے)

کیا یہ انسان کا قتل نہیں کہ  قدرتی چیزیں استعمال کرنے کے باوجود ھم دراصل زہر کھا رہے ہوتے ہیں، اور نہ جانے کب تک کھاتے رہیں گے،!
  خبر تھی کہ خیبرپختونخوا کے علاقے چار سدہ، مردان، پشاور  ، نوشہرہ ، ڈی آئی خان اور ایبٹ آباد میں کاشت کی گئی سبزیوں میں زہریلی دھاتیں شامل ہیں، جن میں خطرناک قسم کی دھاتوں اور کیمیائی مادوں کی کثرت ہے، سب سے زیادہ دھاتوں کی موجودگی پشاور کی سبزیوں میں ملی ہے، جس کا تناسب ساٹھ فیصد سے زائد ھے، موجودہ حکومت نے بین الاقوامی پروٹوکول کے مطابق سبزیوں کے نمونوں کی تحقیق کا آغاز 2019ء میں کیا، جس کی رپورٹ صوبائی حکومت کو پیش کردی گئی ہے، رپورٹ کے مطابق ان سبزیوں میں  ناقابل تنسیخ اور دیر پا رہنے والی مضر صحت دھاتیں اور کیمیائی مادے شامل ہیں، جو کینسر، امراض قلب، ھڈیوں اور دوسرے امراض کا باعث بنتے ہیں، حکومت نے اس منصوبے کو سالانہ ترقیاتی منصوبوں میں شامل کیا ، پہلی دفعہ بڑے پیمانے پر اقدامات کیے گئے، یہ بات خوش آئند ھے لیکن کسی سابقہ حکومت نے اس طرف توجہ  کیوں نہیں دی، رپورٹ کے مطابق صنعتوں، ھسپتالوں اور سیوریج کے آلودہ پانی میں کاشت کی جانے والی سبزیوں میں زہریلی دھاتیں اور مادّے شامل ہیں، کتنے لوگوں کو اس سے نقصان پہنچا ھوگا،  اندازہ نہیں البتہ یہ ان چھ اضلاع کی رپورٹ ہے،پنجاب ، سندھ اور بلوچستان میں کیا حال ھو گا، یا گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں قدرتی طور پر اگائی جانے والی سبزیوں میں آلودہ پانی کا کتنا عمل دخل ہے کسی کو اندازہ نہیں،  روز نت نئی بیماریاں انسانوں کو کھائی جا رہی ہیں، اور ھم سمجھ رہے ہیں سبزیاں کھا رہے ہیں،
  میں نے ایک ذاتی تجزیہ کیا تھا کہ سبزیاں دوسری غذاؤں سے زیادہ کھائی جاتی ہیں، اور ہر غریب اورامیر کی خوراک کا حصہ ہیں، مگر اس کی قدرتی طریقے سے پیداوار کم اور کیمیکل کی مدد سے زیادہ ہوگئی ہے، اس لئے وہ اثر نہیں رہا تاہم خوراک کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کیمیائی عمل اور جدید ذرائع بھی ضروری ہیں مگر آلودہ پانی سے تو بچایا جا سکتا ہے، جو سماج اور حکومت دونوں کا کام ہے، کشمیر میں ایک زمانے میں بہت سبزیاں پیدا ہوتی تھیں، ہر گھر کم از کم اپنے گھر اور محلے کی ضرورت پوری کر لیتا تھا، میں نے اپنے گاؤں میں قدرتی چشموں، نالوں اور دیگر جگہوں پر جھیل اور دریا دیکھے آلودگی سے اٹے پڑے ہیں، تین چیزیں نمایاں طور گاؤں کی سطح پر نظر آئیں، پمپرز کا بے تحاشا استعمال اور استعمال کے بعد شفاف پانی کے نالوں میں پھینک دینا، پلاسٹک بیگز کی کثرت، سیوریج کا پانی صاف نالوں میں چھوڑ دینا ، بہت ھو چکا ھے، خواتین، مرد، نوجوان اور بچوں میں سوک سینس نہ ہونے کے برابر ہے، ایک ریسرچ کمپنی کا دوست بتا رہا تھا کہ ھم روانڈا، ایتھوپیا اور انتہائی غریب ممالک میں بھی گئے، لیکن وہاں لوگوں میں سوک سینس بہت دیکھا، وہ سبزا، پانی اور صفائی کا خیال رکھتے ہیں، کاش ھم سمجھدار ھو جاتے، اور آلودگی سے قدرتی چیزوں کو بچا لیتے، کم از کم گاؤں کی سطح پر شعور اور آگاہی کی سخت ضرورت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ"پمپرز اور پلاسٹک بیگز" کے خلاف جہاد کرنا چائیے، انسانیت، اور فطری حسن کو بچانے کے لیے بہت ضروری ہے، حکومت آزاد کشمیر کو اس پر بھی کام کرنا ھوگا،
رہی بات شہروں کی وہاں تو  آلودگی اور گندگی کا طوفان ھے، لوگ اپنا کوڑا دوسروں کے گھروں کے آگے پھینک آتے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں ھوتے، حکومت خیبرپختونخوا نے یہ قدم اٹھایا ہے تو باقی صوبوں میں بھی کام ھونا چاھیے، اس زہر سے ملک کو بچانا ہے تو حکومت اور سماج دونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا، یہاں صرف چارسدہ، پشاور ، نوشہرہ، ڈی آئی خان اور ایبٹ آباد میں کام شروع ھوا اور ھوشربا حقائق سامنے آئے، میں خیبرپختونخوا کے دس میں سے ایک فرد کو گردوں اور جگر کے امراض کا شکار سنتا اور دیکھتا ہوں، اور ھمیشہ بات پانی کی طرف جاتی ہے، ھمیں قدرتی حُسن کو پامال کر کے سکون آتا ہے، مگر یاد رہے کہ فطرت اپنا انتقام خود بھی لیتی ہے، جو خوفناک ھوتا ھے محکمہ زراعت، ریسرچ اور لائیو سٹاک کے اداروں کو صاف اور شفاف پانی اور خوراک کے تحفظ کے لیے بڑا قدم اٹھانا ہوگا، یہ انسانیت کے  تحفظ کے لیے جہاد اکبر ھے۔

۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :