قائد اعظم ، تعلیم اور پاکستان، ہم کہاں کھڑے ہیں؟

ہفتہ 25 دسمبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

"تعلیم پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے" جن اقوام نے تعلیم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی وہ بہت آگے نکل گئیں، ھم نے تعلیم کو مقصد نہ بنایا تو صحفہ ہستی سے مٹنے کا اندیشہ ہے، یہ فرمان بانی پاکستان محمد علی جناح ستمبر 1947 کا ہے، یہی نہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے علی گڑھ کے طلباء سے خطاب میں بھی انہیں تعلیم پر توجہ مرکوز کرنے کا کہا، خود قائد اعظم بچپن سے جوانی اور بڑھاپے تک اس کے پیکر رہے، صرف 19 سال کی مدت میں قانون کی ڈگری حاصل کر لی تھی، بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد انہیں زیادہ وقت نہیں ملا اور تعلیم کی پہلی وزارت بھی اضافی چارج سے شروع ھوئی اور آج تک کئی چارج بدلے ھوں گے مگر تعلیم کے میدان میں پاکستان  وہیں کھڑا ہے،
گزشتہ دنوں ایک بیان سندھ کے وزیر تعلیم کا نظر سے گزرا کہ سندھ میں پانچ ھزار تعلیمی ادارے بند کر کے ان کی جگہ دوسرے سرکاری کام شروع کیے جائیں گے کیونکہ وہاں مطلوبہ تعداد میں طلباء موجود نہیں ہیں، اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تعلیم کی اہمیت کیا ہے اور خصوصاً سندھ کا تو نظام تعلیم اور شوق تعلیم دونوں سرکاری نوکری تک محدود ہے، اگرچہ پنجاب اور بلوچستان کی صورتحال بھی مختلف نہیں، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی تعلیمی حالت قدر بہتر ہے، موجودہ حکومت نے کہا تھا کہ وہ ڈھائی کروڑ آؤٹ آف سکول بچوں کو سکول میں داخل کروائے گی، ڈھائی کروڑ تو دور کی بات ہے یہاں نصاب اور نظام تعلیم کا سلسلہ ہی رک چکا ہے، 2009 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کل اندارج بچوں کی تعداد 37492900 ھے، یعنی اتنی بڑی ابادی میں صرف تین کروڑ سے زائد بچے سکول میں اندارج ہیں، جن میں ابتدائی تعلیم کے لئے دو کروڑ، چھبیس لاکھ پانچ ہزار اور ثانوی تعلیم کے لئے اٹھائیس لاکھ چیراسی ھزار اور  بعد از ثانوی تعلیم صرف 13 لاکھ انچاس ھزار بچے تعلیم کے میدان میں اترے ہیں، آج پاکستان کی ابادی بائیس کروڑ سے زائد ھے مگر شرح خواندگی بمشکل ساٹھ فیصد تک جہاں صرف دستخط کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں،
پاکستان کو بنے ہوئے 75 سال گزر چکے ہیں، ھم سے الگ ھونے والا بنگلہ دیش 90 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ دنیا میں ترقی پذیر ممالک کی صف میں سب سے آگے کھڑا ہے، پھر لوگ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ھم قوم نہیں ھجوم ہیں، کوئی کرپشن اور کوئی ووٹ کی امانت کو غلط استعمال کرنے کا شکوہ کرتا ہے، ھمیں ایسے سیاسی اور امر حکمرانوں کا کیا فایدہ ھوا جو تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کو آج تک نہیں سمجھ سکا، جو نظام اور نصاب تعلیم چل رہا ہے وہاں سے صرف ڈگریاں ملتی ہیں ، علم، ٹیکنالوجی، تربیت اور شعور کا دور دور تک نشان نہیں ، پھر ھم قوم کیسے بن سکتے ہیں؟
  قاید اعظم محمد علی جناح تو خود علم کے حصول کے لیے مشعل راہ تھے، اسی تعلیم ہی کی خوبی تھی کہ انہوں نے برصغیر میں دیانت،سچائی اور دلیل سے بات کرنے اور قیادت کرنے کا عملی مظاہرہ کیا، قدرت اللہ شہاب ایک واقعہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں ایک اہم سرکاری فائل لے کر قاید اعظم کے پاس گیا کہ مسلمانوں کے خلاف انگریز اور ھندو کیا سازش کر رہے ہیں مگر قائد اعظم نے اسے بددیانتی سمجھا اور کہا کہ یہ فائل جاکر وہیں رکھ دو، یہ سرکاری بددیانتی ھے اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ دیانت کا اصول آج کسی جگہ نظر آتا ہے؟، لارڈ ماؤنٹ بیٹن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مجھے معلوم ہوتا کہ قائد اعظم بیمار ہیں اور ایک سال بعد مرجائیں گے تو میں تقسیم برصغیر کا فیصلہ ایک سال  لیٹ کر دیتا، جو میرے لئے مشکل نہیں تھا،  قائد اعظم نے اس قوم کے لئے اپنی بیماری بھلا دی، دیانت کا دامن  ہاتھ سےنہیں چھوڑا، تو کیا آج ایسا ھے؟ آج ملک کے راز بھی بیچنے والا اعلیٰ عہدوں پر ھوتا ھے، دیانت، سچائی، اور عدالت کا تذکرہ صرف کتابوں اور تقریروں میں ملتا ہے، پھر ھم کیسے ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں، تعلیم ہی قومیں بناتی ہے، اور تعلیم کو ترجیح کی بجائے، طاقت، دولت، جہالت اور منفاقت کا بیج ھم روز بوتے اور اس کی فصل کاٹتے ہیں؟ تعلمی بجٹ شرمناک، سکولوں کی حالت درد ناک، اور اساتذہ سے رویہ افسوسناک ھے، اسی کا موازنہ ھم بنگلہ دیش، بھارت اور چین سے کریں، جہاں تعلیم، ٹیکنالوجی اور تحقیق کو اہمیت دی گئی، ھمارے ساتھ سفر کا آغاز کرنے والے ہوں یا کہیں دہائیوں کے بعد وجود میں آنے والے سب بدل گئے، اور ھم نصاب اور نظام تعلیم کا فیصلہ نہ کر سکے،۔

(جاری ہے)

یہی المیہ ہے جو ھمیں سندھ، پنجاب، بلوچستان اور دیگر جگہوں پہ نظر آئے گا، پھر تم سے کس بہار کی امید کریں، مرض کی تشخیص اور علاج ہی امید کی کرن بن سکتی ھے اور قائد اعظم محمد علی جناح کی سوچ۔ کو عملی جامہ پہنانے میں معاون بن سکتی ھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :