مزدوروں پر حملوں کی تیاریاں

منگل 7 اگست 2018

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

تحریک انصاف کی حکومت تو ابھی چند دن بعد بنے گی مگر اس حکومت کے متوقع وزیرخزانہ نے اپنی معاشی پالیسوں کا پہلا نکتہ تیز ترین نج کاری قراردیا ہے۔اسدعمرنے فنانشل ٹائمزسے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکی حکومت پہلے سودن میں 200قومی اداروں کو ”سپیشل ویلتھ فنڈ“ کے سپرد کردے گی جوکہ نجی شعبے کے ذریعے قائم کیا جائیگا۔ماضی قریب میں جب تحریک انصاف حزب اختلاف میں تھی تو نجکاری کومعاشی بدحالی کا حل ماننے سے انکاری تھی اور اسکا نکتہ نظر تھا کہ وہ تمام قومی ادارے جو خسارے میں جارہے ہیں انکو بیچے بغیر بحال کیا جاسکتا ہے ، اسی طرح وہ آئی ایم ایف اور اسکی شرائط کی سخت ناقد رہی ہے۔

مگراب ناصرف خسارے میں چلنے والے بلکہ منافع بخش اداروں کو بیچنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

تحریک انصاف کی حکومت 13ارب ڈالر کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا عندیہ بھی دے چکی ہے،ظاہر ہے کہ امریکی حکومت کے ذمہ داران کے بیانات کے بعد اگر عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان کو اتنا بڑا قرض دیتا ہے تو اسکی شرائط ماضی سے زیادہ سخت ہونگی۔

’نجکاری‘ عمومی طور پر آئی ایم ایف کی اولین شرط ہوتی ہے اور اسکا مقصد کسی بھی ملککی معیشت اور اقتصادیات کو سامراجی مقاصد کیلئے سازگاربنانا ہوتا ہے۔اس مقصد کے تحت‘ عوام کواپنی خدمات نسبتاََ سستی فراہم کرنے والے اداروں کو نجی شعبے حوالے کردیا جاتا ہے۔ نجکاری ‘ سے قبل یا بعد میں سب سے بڑی قیامت ان اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں پر ٹوٹتی ہے جن کو ’زائد‘قراردیکر نکال دیا جاتا ہے۔

مزدوروں کی جبری برطرفیوں کے مکروہ کام کو ”گولڈن شیک ہینڈ“،وی ایس ایس ،رائٹ سائزنگ وغیرہ کا نام دیکر عمومی شعور کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگرچہ نجکاری ‘کرنے والی ہر حکومت یہ نوید دیتی ہے کہ نجکاری ‘ سے متعلقہ اداروں کے مزدوروں کا روزگار متاثر نہیں ہوگا مگر پاکستان میں نجکاری کی پچھلی27سالہ تاریخ اس دعوے کو باطل قراردیتی نظرآتی ہے۔

اس دورانئے میں لاکھوں مزدورروزگارسے محروم ہوکر دربدرہونے پر مجبور کردیئے گئے ہیں۔یورپ ہو یا پاکستان‘ ماضی میں نجکاری کے بیان کردہ تمام ’فضائل وبرکات ‘تاریخ کے قبرستان میں گل سڑرہے ہیں۔شعوری طور پر پبلک سیکٹر کے صنعتی اور خدمات کے اداروں کے خساروں کو مزدوروں اور ٹریڈ یونین کے ساتھ نتھی کردیا جاتاہے جبکہ اس کی اصل وجہ کو ظاہر نہیں کیا جاتا۔

نجکاری کیوں ضروری ہے ؟ کے لئے دلیل لانے کے سبب ‘اداروں کا خسارہ اور ناقص کارکردگی کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے معرض وجود میں لایا جاتا ہے۔اسی نکتہ نظر سے ایسی انتظامی مشینری ان اداروں میں مسلط کی جاتی ہے جو اپنی پالیسیوں سے ’منافع بخش ‘اداروں کو ’خسارے‘ کے ٹاسک تک پہنچا دیتی ہے۔ان میں سیاسی بھرتیاں،ادارے کے مفادات کے خلاف ’خرید وفروخت‘،منڈی کی ضروریات کو شعوری طور پر نظرانداز کرنااور حکومتی سطح پر ادارے کے مفادات کے خلاف نجی شعبے کے حق میں جانے والی پالیسیاں شامل ہیں۔

درپیش مسائل کو درست کرنے کی بجائے نجکاری کا نسخہ تجویز کردیا جاتا ہے۔ قومی مفادات‘ کے سامراجی ہاتھوں میں پامال ہونے ،چھانٹیوں کے سبب بے روزگاری پھیلنے اور مہنگائی کے تیز ترین ہونے کے خوف سے نجکاری کے خلاف مزدورتنظیمیں آواز بلند کرتی ہیں اور جدوجہد کے میدان میں آنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔پچھلی مسلم لیگی حکومت اپنی بہت کوششوں کے باوجود بہت بڑے پیمانے پر نجکاری نہیں کرسکی۔

نجکاری نا کرسکنے کی دیگروجوہات کے ساتھ ایک بڑی وجہ مزدوروں کی انجمنوں کی شاندار مذاحمت تھی۔ ایسی ہی ایک قابل مثال جدوجہد پاکستان ائیرلائنز کے محنت کشوں نے اپنی ٹریڈ یونیز اور ملک بھر کے دوسرے اداروں کی تنظیموں کی حمائت سے نواز حکومت کی نجکاری پالیسی کے خلاف کی تھی‘ جب پی آئی اے کو بیچنے کا مصمم ارادہ کرلیا گیا تھا۔ٹریڈ یونین کی اس تحریک کو خون میں ڈبودیا گیا تھا،دو مزدورریاستی گولیوں کا نشانہ بنا کرشہید کردیئے گئے تھے،مگریہ تحریک ریاستی جبر سے پسپا نہیں ہوپائی تھی۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی 2008-13ء کی حکومت میں آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کی نجکاری کی کوشش کوOGDCکی ٹریڈیونین کی پرازم اور دلیرانہ جدوجہد سے ناکام بنادیا گیاتھا۔ انہی ادوار میں ریلوے اور واپڈا کی نجکاری کی کوششیں جذوی طور پر کامیاب ہوئیں مگر بڑے پیمانے پر نجکاری پالیسی کے خلاف ان اداروں کے مزدو رسیسہ پلائی دیوار بن گئے اور نجکاری کا راستہ روک دیا گیا۔

پاکستان اسٹیل ملز کی ایک بڑی تعداد مختلف ادوار میں نام نہاد ’گولڈن شیک ہینڈ ‘ اور دیگر ناموں کی جبری برطرفیوں کے نتیجے میں آدھی سے بھی کم کردی گئی ہے۔مگر اسکے باوجود ماضی میں پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کی تمام کوششوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس میں ٹریڈ یونین کی جدوجہد بھی بڑی وجہ رہی ہے۔ اس تناظر میں ہمیں چیف جسٹس آف پاکستان کے ٹریڈ یونین کے خلاف بیان جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ”آئین میں نا لکھا ہوتا تو ٹریڈ یونین پر پابندی لگا دیتا“ کو اور متوقع حکومت کے وزیرخزانہ اسد عمر کے200پبلک سیکٹرکے اداروں کی نجکاری کے بیان کو ملاکردیکھیں تو پورے حکمران طبقے اور سرمایہ دارانہ ریاست کے نکتہ نگاہ کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں رہتی۔

کم ازکم ایسی کیفیت میں ان ٹریڈ یونیز اور انکے راہنماؤں کو ریاست اور اسکے اہلکاروں کی ’نظریاتی اساس‘ کو سمجھ کر ہر معاملے میں ”عدالتوں“ کو چھٹیاں لکھنے اور’انصاف‘ مانگنے کی علت سے باز آجانا چاہئے۔سرمایہ دارانہ ریاست کے تمام اہلکاروں، حصوں اور اداروں کا مطمع نظرایک ہی ہے’نجی ملکیت ‘اور ’ذاتی منافعوں‘ کو پروان چڑھانا اور سرمایہ دارانہ نظام کوتقویت دینے والے اقدامات کرنا۔

چیف جسٹس آف پاکستان فرماتے ہیں کہ” آدھی خرابیاں ٹریڈ یونین کی وجہ سے ہیں“۔ شائد یہ سوچ پوری طرح درست نہیں ہے۔ٹریڈ یونین غلطیوں سے پاک نہیں ہے۔ٹریڈ یونین لیڈرآسمان سے نہیں اترے،وہ اسی سماج کاپرتو ہیں جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ لیکن اگر ٹریڈ یونین کی غلطیوں اور اسکے جرائم کا موازنہ پاکستان کے ”مقدس“ اداروں کی غلطیوں اور ناکامیوں سے کیا جائے تو ٹریڈ یونین اپنی ناقابل معافی غلطیوں کے باوجود فرشتوں کا گروہ لگے گا۔

اسی طرح فوجی طالع آزماؤں کی لوٹ مار اور انکی نرسریوں میں پنپنے والی ’سیاسی ٹیم ‘کے جرائم کی وجہ سے پیدا ہونے والی بربادیوں کے سامنے کوئی اوربربادی معنے نہیں رکھتی۔ سامراجی نظام اور اسکے حکمرانوں کی پیروی کسی’فردوس بریں ‘کی طرف نہیں بلکہ بربادیوں کی منزلوں کی طرف ہی جاتی ہے، جس کو پاکستان کے حکمران طبقے اور اسکے ادارے سب سے زیادہ مقدس جانتے ہیں۔

ہم کبھی بھی ٹریڈ یونین کے اعمال اور کردار کو کسی استثنائی آنکھ سے نہیں دیکھتے ،خاص طور پر آمریتوں اور مذہبی رجعتیوں کے مذموم مقاصد کو پروان چڑھانے والی ٹریڈ یونین اور وہاں سے تربیت لیکر سیاست کے میدان میں تباہی مچانے والے خواتین وحضرات۔ اسی طرح ٹریڈ یونین کی وہ قیادت جس نے ’مزدورنظریات‘ اور’ طبقاتی سیاست ‘کی جگہ پر ”سیاست سے لاتعلقی“ اور ٹریڈ یونین کو صرف الاونس کے تقاضے ۔

بونس میں اضافے،سٹرکچر کے قیام،یونین دفتر کے فنڈ اور ڈیوٹی فری ہونے تک محدود کرکے کند کردیا ہے،کسی بھی مسئلے پر ایسی عدالتوں کا رخ کیا جاتا ہے جہاں سرمائے کی چکاچوند نے انصاف کو تاریکوں میں ڈبو رکھا ہے، ایسی ٹریڈ یونین کی سیاست اور قیادت نے یقینا ٹریڈیونین کواسکے اصل راستے سے بھٹکایاہوا ہے۔ جس کے سنگین نتائج آج بھگتنے پڑرہے ہیں۔

گیٹ پر جدوجہدکرنے والی لڑاکا ٹریڈ یونین اور مزدوروں کو عدالتوں اور فرسودہ اداروں کی غلام گردشوں میں میں تھکاتھکا کر اسکا اصل رنگ ڈھنگ چھین لیا گیاہے۔ایسی ٹریڈیونین یقینامزدوروں کو انکی منزل سے بہت دور لے آئی ہے۔ مگر سرمایہ دارانہ ریاست کے ”متحرک حصوں“کیبیانات سے لیکر اگلے ہفتوں اور مہینوں میں لگنے والے نجکاری کے کوڑے سے مزدوروں کو پھر سے بیدار ہوکر اپنی بقاء کیلئے جدوجہد کے میدان میں اترنا ہوگا ۔

ایسا کرنے کیلئے انکو اپنے الگ الگ جہانوں سے نکلنا ہوگا۔مزاحمت میں آنے کی صورت میں مزدوروں کے پاس پھر سے ”روزمرہ کے ناگزیرمسائل“حل کرنے کی جدوجہد کو نظام کی تبدیلی اور طبقاتی جدوجہد کے ساتھ جوڑنے کا راستہ میسرآئے گا۔آنے والے دن محنت کش طبقے کیلئے زندگی اور موت کے انتخاب جیسے ہیں۔ نجکاری اس ملک کی معیشت اورقومی مفادات کی طرح خود انکو بھی برباد کردے گی۔

نجکاری کا مطلب بے روزگاری،لمبی جدوجہد کے بعدحاصل ہونے والے مزدورحقوق کایکسرخاتمہ، ٹریڈ یونین ازم پر قدغنیں۔اوقات کارکابڑھ جانا اور اجرتوں میں کمی،مستقل روزگار کا خاتمہ کرکے کنٹریکٹ لیبرکا قیام۔مہنگائی اور اجارہ داری کے بڑھ جانے سے پیدا ہونے والے سماجی،معاشی اور طبقاتی مسائل میں اضافہ ہوگا۔ ہرطرح کے الزامات اور فتوں کے باوجود‘مزدوروں کے پاس اپنی بقاء کی جدوجہدکے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اور یہ راستہ اختیار کرنے سے وہ فتح یاب ہوسکتے ہیں اور انکے طبقاتی دشمنوں کو شکست نصیب ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :