دہلی فسادات: انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ

جمعہ 20 مارچ 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

بھارت کہنے کو تو ایک سیکولر سٹیٹ ہے لیکن پوری دنیا جانتی ہے کہ پچھلے 72 سالوں کے دوران بھارت کے انتہا پسند حکمران طبقے نے سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے ساتھ کس طرح کا برتاوٴ کیا۔ بھارت کے مختلف شہروں میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات، مسلم کش خونی واقعات اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ایک پوری تاریخ اور ثبوت رکھتے ہیں کہ بھارت نے بظاہر تو اپنے چہرے پر سیکولر ازم کی نقاب اوڑھے رکھی لیکن در حقیقت وہ ہندو مت کا پر چارک انتہا پسند ملک ہے۔

اس کے حکمران پرلے درجے کے متعصب، مسلمان دشمن اور انتہا پسند ہندو ازم کے رکھوالے ہیں۔ بھارتی جنتا پارٹی ہندو ازم کی سب سے بڑی داعی اور مسلم دشمن جماعت ہے۔نہ صرف مسلمانوں کو مذہبی بنیادوں پر نقصان پہنچایا جا رہا ہے بلکہ بہانے بہانے سے ان کی املاک، عزتیں اور جان محفوظ نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

شہریت ترمیمی بل کے خلاف پر امن مظاہرین پر بھارتی جنتا پارٹی کی قیادت نے اپنے ہندو توا کے غنڈوں کو اتار دیا۔

جنہوں نے دہلی میں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلم بستیوں پر ہلہ بول دیا۔ مسلمانوں کو ایک سازش کے تحت قتل کیا جا رہا ہے، ان کی املاک کو آگ لگائی جا رہی ہے الٹا جھوٹی ایف آئی آر بھی انہی مظلوموں کے خلاف درج کی گئی ہیں۔ جب سے مودی سرکار اقتدار میں آئی ہے اس نے مسلمانوں کی زندگی عذاب بنا دی ہے۔ انتظامیہ اور سیاست دانوں کے رویے سے ان کا نسلی تعصب ابھر کر سامنے آ جاتا ہے، جس کا آج کل بی جے پی کے غنڈے کھلے عام اظہار بھی کر رہے ہیں اور وہاں کے مسلمانوں کو پاکستان منتقل کرنے کا طبل بھی بجا چکے ہیں۔

اختلافِ رائے پر بھارتی سرکار کا جو رویہ ہے اس سے وہاں فرد کی آزادی کی روایت کو ٹھیس پہنچی ہے اور لیڈروں کے مسلم مخالف بیانات نے اقلیتوں میں بہت زیادہ ڈر پیدا کر دیا ہے۔ سرکاری سطح پر انسانی حقوق بڑے پیمانے پر پامال ہو رہے ہیں۔ وہاں کے حکمران اور متعصب سیاست دان اپنے عوام کو مذہبی تعصب پر اکساتے ہیں۔ انہیں پرجوش کرنے کے بعد مذہبی منافرت کے میدان میں دھکیلتے ہیں۔

نسلی تعصب سے بھرپور کرنے کے بعد اپنے مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کرنا بھی بھارتی دانشوروں اور فوج سے لیس حکمرانوں کا طرزِ عمل ہے۔
سوشل میڈیا پر آنے والی ویڈیوز سے دلخراش مناظر دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہلی میں کسی بیرونی فوج نے بمباری کی ہے اور زندہ رہنے والے تمام اسباب فنا کر دئے ہیں۔ زندگی بھر کی محنت و مشقت سے جمع کئے مال و اسباب کو کہیں راکھ کا ڈھیر اور کہیں کھنڈروں کی شکل میں دیکھ کر مجبور لاچار لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔

قتل و غارت گری میں درجنوں بے گناہ مسلمان دردناک موت کا شکار ہوئے ہیں۔ پولیس والے فساد زدہ علاقوں میں موجود تھے وہ لاچار اور مظلوم لوگوں کو تحفظ دینے کی بجائے بلوائیوں کی مدد کر رہے تھے۔ سیکورٹی ادارے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے ہندوفسادیوں کو شیلٹر مہیا کر رہے تھے۔ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند حکمتِ عملی کی تحت کیا گیا اور شر پسندوں کو اس یقین دہانی کے ساتھ میدان میں اتارا گیا تھا کہ وہ کچھ بھی کر لیں قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑے گا۔


بھارت میں ہونے والی مسلم کش فسادات گزشتہ 70 سالوں میں گاہے بگاہے پھوٹتے ہی رہے ہیں لیکن دسمبر 1992ء کو ایودھیا میں ہندو انتہا پسند بلوائیوں اور غنڈوں کی ظالمانہ کاروائی کے نتیجے میں شہید ہونے والی تاریخی مسجد کے بعد فسادات کی نوعیت بدل گئی ہے۔ پہلے ہونے والے فسادات پر قابو پا لیا جاتا تھا اور متاثرہ مسلمان علاقوں کی ریلیف کا کام انتظامیہ کی جانب سے فوری شروع ہو جاتا تھا لیکن اب صورت حال اس سے خاصی مختلف ہے۔

فرقہ وارانہ فسادات پھوٹتے ہیں تو پھر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتے ہی جاتے ہیں اور یہ آگ اپنے اندر کتنے معصوم لوگوں کی جان، عزت اور املاک کو نگلتی ہے جب کہ انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ دو بار لگاتار اقتدار حاصل کرنے والی بی جے پی کی تاریخی کامیابی کا سہرا جس سیاست دان کے سر جاتا ہے وہ بلاشبہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا سب سے زیادہ متعصب اور مسلم دشمن رہنما نریندر مودی ہے جنہوں نے انتخابات میں سیکولر ازم کی داعی اور بھارت کی بانی جماعت کے 10 سالہ عہد کا خاتمہ کر دیا۔

وہ بھارت کے آئین کے مطابق اس کے سیکو لر ازم کو اجاگر کرنے کی بجائے کٹر انتہا پسند ہندو ذہنیت کے حامل سیاست دان کے طور پر بھارت کو بھی ہندو شناخت دینا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے خلاف نفرت و انتقام میں فرنٹ لائن پر نظر آتے ہیں۔
دہلی میں جو لاقانونیت اور ننگا ناچ ہوا اس سے بھارت کے چہرے سے سیکولر ریاست کا پردہ سرک گیا ہے۔

جس وقت صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت میں اپنے دورے کے دوران کہہ رہے تھے کہ ہندوستان اورا مریکہ کے تعلقات مشترکہ سیکولر اور لبرل اقدار پر مبنی ہیں تو اس وقت مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کی داستان دہلی کی غریب آبادیوں میں رقم کی جا رہی تھی۔ اقوامِ متحدہ یا بین الاقوامی انسانیت دوستی کی دعویدار کسی بھی تنظیم کی جانب سے کسی بھی مذمت یا کسی بھی افسوس کا اظہار سامنے نہیں آیا۔ دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی بعض جگہ پر نسلی، مذہبی فسادات ہوتے ہیں تو بین الاقوامی طاقتیں اپنی مرضی کا حل مسلط کر دیتی ہیں اور وہاں پر عموماً ہی نہیں بلکہ ہمیشہ مسلمانوں کی قوت کو زیر کرنے کے اقدامات تجویز کئے جاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :